چیونٹی کی للکار


میں کرہ ارض کے ایک گمنام مقام پر بیٹھا ہوں، اور اپنے سامنے چیونٹیوں کی قطار دیکھ رہا ہوں، جب بھی میرا جی چاہتا ہے، کسی چیونٹی کو پاؤں سے پچکا دیتا ہوں۔ مجھے اس سرگرمی سے مسرت و انبساط حاصل ہو رہی ہے۔ تڑپتی ہوئی چیونٹی کے سامنے میں کسی ظالم عفریت سے کم نہیں مگر وہ یہ نہیں جانتی کہ میں ایک انسان ہوں جو ممالیہ ہیں اور ارض و سماء کے سب سے بڑے چغد ہیں گو کہ ذہنی خلل سے بھی نوازے گئے ہیں۔

میں سوچتا ہوں، ایک چیونٹی کا جینا مرنا کتنا بے معنی ہے۔ اسی طرح روز ہزاروں افراد مرتے اور قتل ہو جاتے ہیں، قریباً ایک منٹ میں دو سو انسانی بچے پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہمارے مسائل صاف ہوا، پانی، خوراک، اچھا نظام حکومت اور سوشل سکیورٹی ہیں۔ ان مقاصد کے لیے کسان کھیتی اگاتے ہیں، ڈیم بنائے جاتے ہیں، جنگلات کاٹ کر لکڑی اور کارخانے لگا کر ضرورت کا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔ پھر رنگ برنگے لباس بنائے جاتے ہیں، مشینیں آلات بناتی ہیں اور جانور انڈے دودھ دیتے ہیں۔

ساری کائنات پٹ جاتی ہے تب جاکر رانجھا راضی ہوتا ہے۔ دھرتی پر زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی۔ کسی جگہ پانی گرا اور کیچڑ ہو گئی، وہاں بیکٹیریا پیدا ہو گیا جو کہ سلفر ڈائی آکسائڈ کھاتا تھا۔ بیکٹیریا نے اپنا ہمسایہ نگل لیا، کائی اور کیچڑ سے بالآخر ڈائنوسارس بنے، چھپکلی بھی، مچھلی، بگلا اور ایک دن انسان بن گئے۔ پہلے ہمارے آباؤ اجداد درختوں پر رہتے تھے۔ پھل وغیرہ کھا لتے تھے مگر جیسے ہی سوجھ بوجھ بڑھی فساد فی الارض برپا کر دیا۔

جنگ عظیم ہوئی، ٹینک اور میزائل چلے اور انسانیت ایک گلا سڑا ناسور بن گئی۔ آخر اتنے ہنگامے کی ضرورت کیا تھی، خدا واقعی ہو گا مگر اس کا ماسٹر پلان کیا تھا، ایک جراثیم سے وہ کیا کام لینا چاہتا ہے۔ اگر میں آپ کے سامنے سے پراٹھا اٹھا کر کھا جاؤں تو کیا آپ کے دل میں گدگدی ہوگی، یقیناً آپ مجھے دانتوں سے کتر دیں گے، حالانکہ آپ کو آسمانی صحائف نے اچھی اچھی باتیں بھی سکھائی ہیں، آپ دن میں تین بار کھانا بھی کھاتے ہیں مگر آپ کو میری یہ حرکت نا معقول اور قابل سزا جرم لگے گی۔

آپ ٹینک سے انسانوں کو کچل دیں، گولہ باری کریں، آپ کے پاس کوئی تو جواز ہو گا، جس طرح میرے پاس چیونٹیوں کو کچلنے کا جواز ہے، مجھے مزہ آ رہا ہے۔

میں ایک چیونٹی کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں، اوئے انسان، تو نے تمام وسائل پر اپنا اجارہ ثابت کر لیا ہے، سارے اخلاق، جرائم اور مذہب بھی تیری طرفداری کرتے ہیں مگر میں کہتی ہوں تو ایک کیڑا ہے میری طرح ایک جراثیم کو اولاد اور ایک دن میں تجھے کھاؤں گی، جب دھرتی تیرے فریب سے آزاد ہو جائے گی، تب حیوان جنگل میں کھل کر جیئیں گے، تیری مداخلت کے بغیر۔ پھر کسی کو تیرے صحائف، واعظ اور ریسرچ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ایک دن دھرتی تیرے فریب سے آزاد ہو جائے گی۔ تیرا شرف، عقل اور سیریبرل کارٹیکس کا گھمنڈ میں توڑوں گی۔ تو بس دیکھتا جا۔

عثمان ارشد
Latest posts by عثمان ارشد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments