مشتاق بھٹی صاحب اور ان کے بدمعاش


گورنمنٹ ہائی سکول چونڈہ میں ارد گرد کے بے شمار دیہات سے بچے پڑھنے کے لئے آیا کرتے تھے۔ چونڈہ میں اس وقت دو ہائی سکول تھے اور دونوں آمنے سامنے واقع تھے۔ ایک اسلامیہ ہائی سکول اور دوسرا گورنمنٹ ہائی سکول۔ اسلامیہ ہائی سکول کے انتظام و انصرام پر ملائیت کی چھاپ تھی۔ اس کے ساتھ ایک وسیع و عریض مسجد اور مدرسہ بھی قائم تھا۔ مسجد کے صدر دروازے پر لگی تختی مسجد میں کسی احمدی، قادیانی، لاہوری، وہابی اور شیعہ کا داخلہ ممنوع قرار دیتی تھی۔ شاید آج بھی ایسا ہی ہو۔

پرائمری کے بعد جب شہر جا کر ہائی سکول میں پڑھنے کا وقت آیا تو ابا نے ہمیں گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل کروایا۔ سکول کے انتخاب کے پیش نظر شاید یہی وجہ ہو کہ حصول تعلیم کے لئے سکول میں داخل کروایا جا رہا ہے نہ کہ کسی بھی فرقے یا گروہ سے اختلاف عقیدہ کی بنا پر نفرت کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے۔

ہائی سکول میں شہر کے ساتھ ساتھ کئی دیہات سے آنے والے بچے کلاس فیلو بن گئے۔ کئی اساتذہ سے تعلق قائم ہوا۔ لیکن جس سحر انگیز شخصیت کا ذکر کرنا مقصود ہے وہ ہیں مشتاق بھٹی صاحب۔ گورا رنگ، دراز قد، بھاری بھرکم وجود، کشادہ دہن، دھیمی چال، بلند آواز، رعب دار متاثر کن شخصیت، جرات مند اور بے باک۔ سگریٹ نوشی کیا کرتے تھے اور ہم ان کے سگریٹ پکڑنے اور چٹکی بجاتے ہوئے گل جھاڑنے کے انداز سے متاثر تھے۔ یہ تھے ہمارے کلاس ٹیچر مشتاق بھٹی صاحب۔

آپ نویں اور دسویں کلاسز کو پڑھایا کرتے تھے۔ انگریزی خوبصورتی سے بولتے۔ ہم اس نستعلیق وجود کو سکول میں آتے جاتے تو دیکھتے تھے لیکن کبھی کوئی بات نہ ہوئی۔ نویں جماعت میں پہنچے تو ہماری خوش قسمتی کہ ہمارے فریق کے نگران آپ مقرر ہوئے۔ دو سال آپ کی صحبت میں گزرے۔ آپ کی شخصیت کی ایک چھاپ ہمیشہ کے لئے لگ گئی۔ کوئی موقع ہو آپ یاد رہتے ہیں۔ تین دہائیاں ہوا ہوئیں پر بھٹی صاحب کی شخصیت کا سحر انگیز تاثر آج بھی تازہ ہے جو ایک گل تر کی مہک بن کر دل و دماغ کو معطر کر جاتا ہے ۔

کلاس میں ہر بچے اور اس کے گاؤں کا نام بھٹی صاحب کو ازبر تھا۔ بچوں پر ناراض ہوتے تو ان کے گاؤں کا نام لے کر پنجابی میں کہتے ”او۔ (فلاں گاؤں) دے بدمعاشو! اتنی خوبصورتی سے لفظ “بدمعاش” کسی کے منہ سے ادا ہوتے آج تک نہیں سنا۔ ہم اس کی نقل کی کوشش کیا کرتے تھے پر وہ بات نہیں تھی۔ عام طور پر بھٹی صاحب کے غصہ کی انتہا یہی بدمعاشو! کہنا تھی۔ اس زمانے میں ابھی سکولوں میں بدنی سزا دینے کا رواج تھا۔ استاد کے ہاتھ میں ڈنڈا ضرور ہوتا۔ بھٹی صاحب اس کا استعمال بہت ناگزیر صورت حال میں کیا کرتے تھے۔

کلاس میں ہر طرح کے طالب علم تھے وہ بھی جن پر ”زمین جنبد نہ جنبد گل محمد“ صادق آتا تھا۔ وہ بھی جو چوہدراہٹ میں قدم رکھتے تھے۔ اور وہ جو جیب میں کنگھی رکھتے، چھٹی کے وقت بال سنوارتے، اور اپنے آپ کو ہیرو سمجھتے ہوئے ہر صورت اسی بس میں سفر کرنا ضروری خیال کرتے تھے جس میں لڑکیاں سوار ہوتیں۔

ہم کلاس کے لائق طلبہ میں سے تھے اور بھٹی صاحب کے لاڈلے بھی۔ اسی وجہ سے دوسروں سے اپنا قد ذرا اونچا سمجھنے کا سودا سمایا تھا۔ وہ استاد ہی کیا جس کو اپنے طالب علم کی ذہنی کیفیات کا اندازہ نہ ہو سکے۔ کبھی ایسا ہوا نہیں کہ ہم کلاس میں دیر سے پہنچے ہوں یا سبق نہ آتا ہو۔ لیکن اس دن شومئی قسمت سے چند منٹ دیر ہو گئی۔ بھٹی صاحب کلاس میں آچکے تھے۔ ہمیں زعم تھا کہ کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لیکن آج تو ڈنڈا ہی ہمارا پیر بننے والا تھا۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی شامت آ گئی۔ جتنے ڈنڈے بھٹی صاحب نے دونوں ہاتھوں پر باری باری مارے اتنے کی ہمیں توقع نہ تھی۔ بلکہ توقع تو بالکل بھی نہ تھی کہ اس طرح استقبال ہو گا۔ ساری پھوں پھاں نکل گئی۔ سجن ساتھیوں کے دلوں میں ہماری درگت بنتے دیکھ کر لڈو پھوٹ رہے تھے۔

اس دن بھٹی صاحب پر بہت غصہ آیا۔ ایک بار تو لگا جیسے وہ کسی رنجش کا غصہ نکال رہے ہوں۔ لیکن دراصل وہ ہمیں اس صحبت سے نکالنا چاہتے تھے جن کے ساتھ رہ کر ہم لیٹ آئے تھے۔ یہ بات بہت بعد میں جا کر سمجھ آئی۔ دونوں ہاتھوں کو دیر تک سہلاتے رہے۔ آئندہ کے لئے ہمارے غرور کے غبارے سے ہوا نکل چکی تھی۔ زیادہ توجہ سے کلاسز لیں۔ محنت کی، اسباق یاد کئے۔ پھر لیٹ بھی کبھی نہ ہوئے۔ میٹرک کے امتحانات کے دن قریب آئے تو تیاری کے لئے کلاس میں طلبہ کی حاضری کی اور زیادہ پابندی کی جانے لگی۔

جہاں باقیوں پر پابندی تھی وہاں بھٹی صاحب نے ہمیں کہ دیا نعیم تم ہفتہ میں ایک ادھ بار آ کر حاضری لگوا جایا کرو اور گھر رہ کر خود تیاری کرو۔ مجھے پتا ہے تم پڑھ لو گے۔ یہ آپ کا اعتماد تھا۔ پھر باقی کلاس کی طرف رخ کرتے ہوئے گویا ہوئے۔ ”ایناں بدمعاشاں نے تے گھر وچ پڑھنا نہیں اس لئے میں ایناں نوں ایتھے پڑھاواں گا۔“

میٹرک کا نتیجہ آیا۔ ہم سکول میں اپنے گروپ میں اول تھے۔ آپ کی کلاس کے سبھی لڑکے پاس ہو گئے تھے۔ ہائی سکول ختم ہوا تو زندگی کی دوڑ میں آگے سے آگے نکلتے چلے گئے۔ کئی سالوں کے بعد ایک بار چونڈہ جانا ہوا۔ بہت دل چاہا کہ اس فرشتہ کے قدموں میں چند منٹ گزار آئیں۔ معلوم کیا تو پتا چلا بھٹی صاحب تو سدھار گئے۔ ان سے ملاقات کی خواہش دل میں رہ گئی۔ حسرت تھی کہ ان کے قدموں میں چند منٹ گزارتے۔ اپنے ہاتھوں سے ان کے قدموں کو سہلاتے۔ ان کے متعلق جو گمان کیا تھا اس پر ندامت کے آنسو بہاتے، زبان حال و قال سے معافی مانگتے۔

باقیوں کا تو علم نہیں لیکن آپ کے بدمعاشوں میں سے ایک آپ کے لئے آج بھی دعا گو ہے۔ خدا آپ سے راضی ہو۔ آپ کی خدمت میں تمام تر عقیدتوں کے ساتھ سلام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments