ڈاکٹر شیریں مزاری اور علی محمد خان وغیرہ کا استعفوں پر یوٹرن، ہائی کورٹ ریلیف دے


” استعفے خالصتاً سیاسی بنیاد اور پارٹی ہدایات پر دیے گئے تھے، جنہیں قانون کی نظر میں استعفا نہیں کہا جا سکتا۔“ اراکین کا موقف
پاکستان تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی نے استعفوں کے معاملے پر ریلیف لینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی نے عدالت میں دی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ استعفوں سے متعلق اسپیکر ہمیں بلا کر سنے۔ ارکان نے پی ٹی آئی کے کراچی سے رکن اسمبلی شکور شاد کے کیس کی طرح ریلیف لینے کے لیے استدعا کی ہے کہ عدالت اسپیکر کو ہدایت دے کہ وہ استعفے منظوری سے متعلق اپنی آئینی ذمے داری پوری کریں۔

درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدالت اسپیکر کو حکم دے کہ وہ درخواست گزاروں اور دیگر 112 ارکان کو بلائے۔ اسپیکر تحقیق کرلے کہ جنہوں نے استعفے دیے، انہوں نے آرٹیکل 64 کے تحت مرضی سے استعفے دیے۔ قانون کے مطابق پٹیشنرز کو سنے بغیر اسپیکر استعفوں سے متعلق اطمینان نہیں کر سکتا۔

ارکان قومی اسمبلی نے درخواست میں کہا کہ ابھی الیکشن کا اعلان نہیں ہوا۔ 123 ارکان کے استعفوں کو ایک ساتھ دیکھا بھی نہیں گیا۔ اس لیے پٹیشنرز کا استعفوں سے متعلق لیٹر موثر نہیں رہا۔ ممبر اسمبلی شکور شاد کا استعفا منظور ہوا تو انہوں نے درخواست دی کہ اسپیکر نے سنے بغیر استعفا منظور کر لیا، جس پر ہائیکورٹ نے ان کا استعفا منظوری کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔

درخواست کے مطابق پٹیشنرز اسپیکر کے سامنے پیش نہیں ہوئے، اس لیے ان کے استعفے منظور نہیں ہوئے۔ ہائی کورٹ میں استعفوں سے متعلق درخواست دینے والوں میں علی محمد خان، فضل محمد خان، شوکت علی، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر شاندانہ گلزار، فخر زمان خان، فرخ حبیب، اعجاز شاہ، جمیل احمد اور محمد اکرم شامل ہیں۔

پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ استعفوں سے متعلق 25 ستمبر کو سوشل میڈیا پر آڈیو لیک ہوئی، جس میں وزیراعظم، کابینہ ارکان اور مسلم لیگ نون کے رہنماؤں کو نواز شریف سے استعفوں کی منظوری لینے کا سنا جا سکتا ہے۔ آڈیو لیک کا ریکارڈ اور ٹرانسکرپٹ بھی پٹیشن کے ساتھ جمع کرا دیا گیا۔ اس آڈیو لیک کی تردید نہیں کی گئی بلکہ 27 ستمبر کی پریس کانفرنس میں اسے تسلیم کیا گیا۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ پٹیشنرز کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ ان کے استعفوں کو قانونی طور پر درست انداز میں پراسیس نہیں کیا گیا۔ اسپیکر کے سامنے پیش نہ ہونے پر 112 ارکان اسمبلی کے استعفے تاحال منظور نہیں کیے گئے۔ استعفے خالصتاً سیاسی بنیاد اور پارٹی ہدایات پر دیے گئے تھے، جنہیں قانون کی نظر میں استعفا نہیں کہا جا سکتا۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ استعفوں کا مقصد تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو الیکشن کی تاریخ کے اعلان پر راضی کرنا تھا۔ انتخابات پر مجبور کرنے کے لیے دیے گئے استعفوں کو قانون کی نظر میں استعفا نہیں مانا جا سکتا۔ اسپیکر نے قانون پر عمل درآمد کیے بغیر 12 ارکان کے استعفے منظور کیے جو غیر آئینی اقدام ہے۔

پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے دی گئی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی، سیکرٹری قومی اسمبلی، الیکشن کمیشن اور وفاق کو بذریعہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن فریق بنایا گیا ہے۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری، پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان، فرخ حبیب، جمیل احمد اور شاندانہ گلزار ہائیکورٹ پہنچے، تاہم عدالت نے استعفوں کی منظوری سے متعلق درخواست کل کے لیے مقرر کردی، جس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کریں گے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments