ٹرانسجینڈر بل: علماء سے چند سوالات


ٹرانسجینڈر بل 2018 میں منظور کیا گیا تھا۔ گزشتہ ایک دو ماہ سے بہت سے مذہبی حلقے اس بل کی مخالفت میں مہم چلا رہے ہیں۔ اور اس بل کو قرآن اور سنت کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے۔ چونکہ آئین کی رو سے پاکستان میں قرآن اور سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا، اس لئے اس بل کو وفاقی شریعت کورٹ میں چیلنج بھی کیا ہے اور سینٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے سینٹ میں اس بل میں ایک ترمیم بھی پیش کی ہے۔ اس سلسلہ میں آخری پیش رفت یہ ہے کہ جمیعت العلماء اسلام ف بھی بطور فریق اس بل کے خلاف وفاقی شریعت کورٹ میں چلی گئی ہے۔

یہ پہلو پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ اس بل کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسے طبقہ کے حقوق کی حفاظت کی جائے جو کہ بلاشبہ معاشرہ کے مظلوم ترین طبقات میں سے ایک ہے۔ یہ تمام شواہد ایک کالم میں سما نہیں سکتے لیکن بہت سے تجزیوں میں یہ حقیقت ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستان میں خود ماں باپ ٹرانسجینڈر بچوں کو اپنے گھر میں رکھنا پسند نہیں کرتے اور انہیں گھر سے نکال کر اپنے جیسے مظلوم شہریوں کے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔

زیادہ تر ٹرانسجینڈر احباب کے پاس اس کے سوائے کوئی راستہ نہیں ہوتا کہ وہ بھیک مانگ کر یا رقص کر کے گزر اوقات کریں۔ ان پر زیادہ تر تعلیم اور روزگار کے مواقع بند ہوتے ہیں۔ اور اس بل کے منظور ہونے کے بعد بھی ان کی حالت میں بہت کم بہتری پیدا ہوئی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ بل شریعت کے خلاف ہے تو کیا اب تک اس طبقہ پر جو مظالم ہو رہے تھے کیا وہ شریعت کے مطابق تھے؟ یقینی طور پر یہ مظالم شریعت کے مطابق نہیں تھے۔ اب تک مذہبی جماعتوں نے ان مظالم کے خلاف کیا کوئی موثر آواز اٹھائی تھی؟

کسی جذباتی بحث میں الجھنے سے قبل یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے پرانے قانون میں کن تبدیلیوں کی تجویز پیش کی ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے پرانے قانون کے اس حصہ میں تبدیلی کی تجویز دی ہے جس میں ٹرانسجینڈر احباب کی تعریف کی گئی ہے۔ اور ان حصوں کو قانون سے نکال دینے کی تجویز دی ہے جس میں لکھا ہے کہ وہ لوگ جنہیں پیدائش پر مرد قرار دیا گیا تھا لیکن بعد میں کسی جراحی قسم کے عمل سے ان کے اعضاء میں تبدیلی کر دی گئی وہ بھی ٹرانسجینڈر شمار ہوں گے۔

اور اس حصہ کو بھی ختم کرنے کی تجویز دی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ وہ ٹرانسجینڈر مرد یا عورتیں یا خواجہ سرا جنہیں پیدائش کے وقت کسی ایک جنس کی طرف منسوب کیا گیا تھا یعنی مونث یا مذکر قرار دیا گیا تھا لیکن وہ اب خود اس سے مختلف جنس کے طور طریقوں کا اظہار کرتے ہیں وہ ٹرانسجینڈر کی تعریف میں شمار ہوں گے۔ 2018 میں منظور ہونے والے قانون میں یہ لکھا تھا کہ ٹرانسجینڈر شہری کو قانونی طور پر، شناختی کارڈ پر، پاسپورٹ وغیرہ پر اس جنس کی طرف منسوب کیا جائے جس کی طرف وہ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔

اس میں مشتاق احمد خان صاحب نے یہ ترمیم تجویز کی ہے کہ قانون میں
SELF PERCEIVED IDENTITY
کی جگہ یہ لکھا جائے کہ ہر ضلع میں ایک میڈیکل بورڈ بنایا جائے جو ان شہریوں کا معائنہ کر کے ان کی جنس کا فیصلہ کرے اور یہ اختیار ٹرانسجینڈر احباب کو نہ دیا جائے کہ وہ اپنی جنسی شناخت کا انتخاب خود کریں۔ لیکن یہاں پر کسی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ میڈیکل بورڈ کن بنیادوں پر ان شہریوں کی جنسی شناخت کا فیصلہ کرے گا۔ کیونکہ ایسے لوگ جن کے جنسی اعضاء میں ابہام ہو کہ وہ مرد ہیں یا عورت ہیں محض ظاہری معائنہ کی بنا پر یہ فیصلہ کرنا بسا اوقات مشکل ہو سکتا ہے۔

اگر یہ بحث یہاں تک محدود رہتی تو یہ ایک علمی بحث ہو سکتی تھی۔ اور اس قانون پر سائنسی، نفسیاتی اور قانونی اعتبار سے ایک سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔ لیکن بد قسمتی سے سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے اس ترمیم کے آخر پر اس ترمیم کے جو اغراض و مقاصد تحریر کیے ہیں انہوں نے اس ترمیم پر بحث پر ایسا رخ دے دیا ہے جس کے نتیجہ میں کسی صحت مندانہ تبادلہ خیالات کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 2018 میں منظور ہونے والا پرانا بل اسلامی احکامات کے خلاف ہے۔ اس میں ہم جنس شادیوں کی حوصلہ افزائی کی قانونی اجازت کی گئی ہے۔ یہ بل قرآن مجید کے قانون وراثت کے خلاف ہے۔ اس میں مسلمان خواتین کے وقار اور شرم و حیا کو مجروح کیا گیا ہے۔

مندرجہ بالا الفاظ واضح ہیں۔ اس پس منظر میں خاکسار بڑے ادب سے خاص طور پر جماعت اسلامی اور جمیعت العلماء اسلام کے علماء سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں۔ یہ درست ہے کہ آئین کی شق 227 میں یہ لکھا ہے تمام موجودہ قوانین کو قرآن کریم اور سنت کے قوانین کے مطابق بنایا جائے گا اور ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا جو کہ قرآن و سنت کے قوانین کے خلاف ہو۔ اور مشتاق احمد خان صاحب اپنی تقاریر میں بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ اس بل کی مخالفت اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ یہ بل قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ موجودہ بحث اس نقطہ کے گرد گھوم رہی ہے کہ ٹرانسجینڈر شہریوں کی جنس کا فیصلہ کس طرح کیا جائے گا؟ اس پس منظر میں اس عاجز کے سوالات ہیں۔

1۔ کیا قرآن مجید کی کسی آیت کریمہ میں یہ راہنمائی کی گئی ہے کہ خواجہ سرا شہریوں کو وراثت اور دوسرے قانونی معاملات میں کس جنس کی طرف منسوب سمجھا جائے گا۔ براہ مہربانی اس آیت کریمہ کا حوالہ عنایت فرمایا جائے۔

2۔ کیا کسی حدیث شریف میں اس بارے میں راہنمائی پائی جاتی ہے کہ کس خواجہ سرا کو قانونی طور پر مرد سمجھا جائے گا اور کس خواجہ سرا کو عورت شمار کیا جائے گا۔ براہ مہربانی اس حدیث شریف کا حوالہ عنایت فرمایا جائے۔ میں نے اب تک جن علماء سے یہ سوال کیا ہے انہوں نے اس معین مسئلہ پر کسی آیت کریمہ یا حدیث شریف کا حوالہ پیش نہیں کیا۔

3۔ میرا تیسرا سوال خاص طور پر سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب سے ہے۔ انہوں نے ایک تقریر میں فرمایا ہے کہ یہ بد قسمتی سے کہ ہماری پارلیمنٹ میں اکثر ایسے ممبران موجود ہیں جن کو سورۃ اخلاص بھی نہیں آتی اور اگر ان کا ڈوپ ٹسٹ کرایا جائے تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ یہ ممبران پارلیمنٹ نشہ کے عادی ہیں۔ اگر اس بنیاد پر ان کا بنایا یہ ٹرانسجینڈر ایکٹ قابل قبول نہیں تو پھر انہیں ممبران کے تشکیل کردہ وہ مذہبی شقیں جو آئین میں شامل ہیں اور وہ اسلامی قوانین جو کہ آج تعزیرات پاکستان کا حصہ ہیں کس طرح قابل قبول ہو سکے ہیں۔ صرف وہی اشخاص مذہبی قوانین بنانے کے اہل ہو سکتے ہیں جو کہ مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں اور وسیع دینی علم رکھتے ہوں۔ اس کلیہ کے تحت تو صرف یہ قانون نہیں بلکہ مکمل آئین کو ہی رد کرنا پڑے گا۔

اگر ان سوالات کے جوابات مل جائیں تو یہ تبادلہ خیالات آگے بڑھ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments