عمران خان کی تخت یا تختے کی تیاری


عمران خان صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیمروں کے روبرو کھڑے ہوکر حلف اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ارادہ ہے کہ غالباََ رواں مہینے کے آخری ہفتے میں اسلام آباد جمع ہوا جائے۔ 2014ء کی طرح عرب بہار کے دنوں والا ماحول اس شہر کے ڈی چوک میں نظر آئے۔ شہباز حکومت کو اس کی بدولت اس حد تک زچ کردیا جائے کہ وہ استعفیٰ دے کر گھر جانے کو مجبور محسوس کرے۔

عمران خان صاحب کی جانب سے تخت یا تختہ والے معرکے کی بابت ہورہی تیاریوں کو اجاگر کرتے ہوئے ٹی وی اینکر بے تابی سے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ صاحب کو اپنے شو میں بولنے کے لئے ڈھونڈنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ مل جائیں تو مونچھوں پر تاﺅ دیتے ہوئے ” آ کے وخا تے سئی“ والی تڑی لگاتے ہوئے سکرین کو پررونق بنا دیتے ہیں۔

نظر بظاہر پنجاب،خیبرپختونخواہ اور آزادکشمیر میں قائم حکومتوں کی بھرپور معاونت سے عمران خان صاحب اپنے حامیوں کا ”لاکھوں تک پھیلا“ ہجوم اسلام آباد میں بآسانی جمع کرسکتے ہیں۔ میں اس بحث میں الجھنے کو آمادہ نہیں کہ یہ پرجوش اجتماع گیارہ جماعتوں پر مشتمل حکومت کو گھر بھیج سکے گا یا نہیں۔مستقبل کا نقشہ سوچتے ہوئے تاہم فرض کرلیتے ہیں کہ تحریک انصاف بالآخر اپنے ہدف کے حصول میں کامیاب ہوجائے گی۔

عمران خان صاحب کا دیا دھرنا مذکورہ ہدف کے حصول میں کامیاب ہوگیا تو نئے انتخابات کی تاریخ بھی دینا ہوگی۔ ممکنہ انتخاب کے انعقاد کے لئے نگران حکومت کا قیام لازمی ہے۔ ہمارا تحریری آئین متقاضی ہے کہ یہ حکومت قومی اسمبلی میں موجود قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے تشکیل دی جائے۔عمران خان صاحب سوسے زیادہ ساتھیوں سمیت مگر قومی اسمبلی سے مستعفی ہوچکے ہیں۔تحریک انصاف سے منسلک جو اراکین قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے پر راضی نہ ہوئے ان میں سے ایک یعنی راجہ ریاض صاحب کو سپیکر قومی اسمبلی قائد حزب اختلاف تسلیم کرچکے ہیں۔شہباز شریف اور راجہ ریاض کی مشاورت سے قائم ہوئی عبوری حکومت مگر عمران خان صاحب کے لئے قابل قبول نہیں ہو گی۔

مسئلہ فقط عبوری یا نگران حکومت کی تشکیل تک ہی محدود نہیں ہے۔سابق وزیر اعظم کو موجودہ چیف الیکشن کمشنر بھی سخت ناپسند ہیں۔ عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے وہ انہیں مسلسل ”راشی اور بدعنوان“ پکاررہے ہیں۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ وہ نئے الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا بھی تقاضا کریں گے۔سوال اس کے بعد مگر یہ اٹھتا ہے کہ موجودہ الیکشن کمشنر ازخود استعفیٰ دینے کو رضا مند ہوں گے یا نہیں۔وہ رضا مند نہ ہوئے تو انہیں گھر کیسے بھیجا جائے گا۔وہ ازخود یا شدید دباﺅ کے تحت مستعفی ہو بھی گئے تو نئے الیکشن کمشنر کے انتخاب کے لئے بھی ہمارا تحریری آئین حکومت اور اپوزیشن کے مابین مشاورت کا تقاضا کرتا ہے۔ عمران خان صاحب مگر حکومت میں بیٹھے ”چوروں اور لٹیروں“ سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے۔ مشاورت تو دور کی بات ہے۔سیاستدان مشاورت کے ذریعے فیصلے لینے میں ناکام رہیں تو ریاست کے دائمی اداروں ہی کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔یہ ادارے عمران خان صاحب کی ہر خواہش تسلیم کرتے نظر آئیں گے تو دیگر فریقین بھی انہیں رگیدنے کے لئے ویسی ہی زبان اور رویہ اختیار کر سکتے ہیں جو سابق وزیر اعظم نے رواں برس کے اپریل میں وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد اپنایا ہوا ہے۔یوں آئندہ انتخابات کا عمل شروع دن سے متنازعہ بن جائے گا جو اندھی نفرت وعقیدت کی وجہ سے پھیلی تقسیم کو مزید گہرا بنادے گا۔ہم استحکام کے بجائے کامل انتشار کی جانب سرپٹ دوڑنا شروع ہو جائیں گے۔

جو خلفشار رونما ہو گی وہ عبوری یا نگران حکومت کے قابو میں نہیں آ پائے گی۔ میرے اس دعویٰ کو رد کرنے سے قبل خدارا یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھیے کہ موسم سرما کا آغاز ہونے والا ہے۔2019ء ہی سے یہ موسم ہمارے ہاں گیس کی جان لیوا لوڈشیڈنگ کی بدخبری لانا شروع ہو چکا ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر دیگر ممالک سے مہنگے داموں گیس خرید کر ہم اس بحران سے نبردآزما ہونے کی اذیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

اب کے برس مگر عالمی منڈی میں گیس تقریباََ نایاب ہوچکی ہے۔ روس یوکرین پر حملہ آور ہوا تو امریکہ نے اسے اقتصادی پابندیوں کے ذریعے سزا دینا چاہی۔یورپ میں اس کی وجہ سے گیس کی قیمت عوام کی اکثریت کے لئے ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔سوال اٹھ رہا ہے کہ وہاں کے باسی آنے والی سردی میں گھروں کو گرم رکھیں یا خود کو زندہ رکھنے کے لئے درکار اشیاءخوردونوش خریدیں گے۔برطانیہ اوریورپ کی تسلی کے لئے امریکہ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے ہزاروں جتن کررہا ہے کہ انہیں گیس خواہ مہنگے داموں ہی سہی ہر صورت ملتی رہے۔ روس کے بعد گیس کا بڑا بیوپاری قطر ہے۔ اس کے ہاں جو گیس عالمی منڈی کو فراہم ہوسکتی ہے اس کا تمام ذخیرہ برطانیہ اور یورپ نے ابھی سے 2023ء کے موسم سرماکے لئے بک کررکھا ہے۔پاکستان جیسے ممالک کو بیچنے کے لئے اب اس کے پاس قدرتی گیس کا بلبلہ تک موجود نہیں ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی خلفشار کی شدت لہٰذا موسم سرما کو مزید ناقابل برداشت بنادے گی۔ اس مصیبت کا ذمہ دار اس تناظر میں کسے ٹھہرائیں گے۔ شہباز حکومت تو گھر جا چکی ہو گی اور عمران خان صاحب کو اقتدار میں لوٹنے کے لئے نئے انتخاب کے مرحلے سے گزرنا ہو گا۔ ایسے ماحول میں ہم کس کی ماں کو پنجابی محاورے کے مطابق ”ماسی“ کہیں گے؟

رواں برس کے مون سون نے ریکارڈ ساز بارشوں کے ذریعے چار کروڑ کے قریب پاکستانیوں کو پہلے ہی بے گھر ولاچار بنا دیا ہے۔ لاکھوں ایکڑ اراضی گندم کی نئی فصل لگانے کے لئے بھی تیار نہیں ہوئی ہے۔سیلاب زدگان کے دکھ مگر ہم عمران خان صاحب کے متوقع لانگ مارچ کے انتظار میں بھلا چکے ہیں۔ اس ضمن میں ہماری غفلت اگرچہ تیزی سے نمودار ہوتے غذائی بحران کا تدارک نہیں کرپائے گی۔ اس عالم میں گیس کی نایابی جو عذاب لاسکتی ہے اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہورہا۔عمران خان صاحب کی جانب سے اٹھائے حلف اور رانا ثناءاللہ صاحب کی لگائی تڑیوں سے جی بہلا رہے ہیں۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments