فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار معاشرہ خواتین کے خلاف یک زبان


گلگت بلتستان، پورے ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتا ہے ۔ یہاں پر فرقہ وارانہ تقسیم ، تقسیم ہند کے ساتھ ہی شروع ہوئی تھی۔ مگر اس میں شدت ٨٠ کی دہائی سے آنے لگی تھی۔ گذشتہ چار عشروں میں یہاں سینکڑوں لوگ فرقہ واریت کی آگ میں جل کر اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات میں اربوں روپیے کی املاک کو جلانے، ہزاروں لوگوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنے جیسے سینکڑوں دالخراش واقعات اور نو گو ایریاز کی دکھ بری داستانیں اب بھی لوگ نہیں بھولے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہاں سرکاری بھرتیاں ، وسائل کی تقسیم ، ترقیاتی کام اور ووٹ بھی فرقے کی بنیاد پر پڑتے ہیں۔ گویا فرقوں کی اتنی گہری تقسیم کے بعد ان فرقوں کا کسی ایک پیج پر آنا بظاہر مشکل نہیں بلکہ ناممکن لگتا ہے۔
حیران کن بات ہے کہ تمام تر فرقہ وارانہ تقسیم بھول کر دو فرقوں کے راہنما آج ایک پیج پر آگئے ہیں. مگر یہ جان کر اس سے بھی زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ دونوں فرقے ایک پیج پر آنے کی بنیادی وجہ خواتین کا کھیلوں اور تفریحی سرگرمیوں میں شرکت بنی ہے۔
موجودہ چیف سکریٹری محی الدین وانی نے کوئی پانچ یا چھے مہنے قبل گلگت میں اپنا منصب سنھبالنے کے بعد گلگت بلتستان کی خواتین کی تعلیم ، صحت، ترقی اور کھیلوں میں شرکت کے لئے کچھ خاص اقدامات اٹھانے شروع کئے تھے۔ جن میں خواتین کے لئے کئیرئر کونسلنگ، الگ ٹرانسپورٹ اور مختلف کھیلوں کا انعقاد وغیرہ شامل ہیں۔
اس سلسلے میں ایک مہنہ قبل انہوں نے گلگت بلتستان میں پہلی مرتبہ خواتین کے لئے سپورٹس گالا کا اہتمام کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے لئے انہوں نے گلگت شہر میں واقع لالک جان سٹیڈیم میں باقاعدہ تیاریاں شروع کردی اور گالا کے آغاز کے لئے ، ۵ اکتوبر کی تاریخ مقرر کر دی ۔
جوں جوں دن قریب آتے گئے گلگت بلتستان کے دو بڑے مکاتب فکر یعنی اہل سنت اور اہل تشیع برادری کے دینی علماء کی طرف سے اس سرگرمی کو مقامی و اسلامی روایات کے منافی قرار دیکر اس کو روکنے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ اس سلسلے میں دیگر تمام مذہبی جماعتوں نے ان کی آواز سے آواز ملاتے ہوئے اس کو غیر اسلامی اور مقامی ثقافت کے منافی سرگرمی قرار دیا۔
جب گلگت بلتستان کی حکومت نے مذہبی جماعتوں کے مطالبے پر توجہ نہیں دی تو ان جماعتوں نے مورخہ ۴ اکتوبر کو احتجاجی مظاہروں کی کال دے دی۔ دریں اثنا حکومت اور مذہبی جماعتوں میں مذاکرات کا ایک راونڈ ناکام ہونے کے بعد ۴ اکتوبر کوذہبی جماعتوں کی طرف سے شٹر ڈاون ہڑتال اور مظاہروں کے اعلان کے بعد شہر میں کاروبار زندگی بدستور جاری رہا لیکن شہر کے بعض مقامات پر ٹائر جلا کر احتجاجی مظاہرے کئے گئے ۔ اسی روز دوپہر کے وقت لالک جان سٹیڈیم سے متصل پبلک چوک میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے نے شدت اختیار کیا اور وہاں پر ٹائر جلا کر سڑک بند کر دی گئ۔ پھر مظاہرین نے لالک جان سٹیڈیم کا رخ کر لیا جہاں خواتین کا سپورٹس گالا منعقد ہونے والا تھا۔ لالک جان سٹیڈیم کے باہر تنظیم اہل سنت و الجماعت گلگت بلتستان کی طرف سے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے ۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ خواتین کا سپورٹس گالا فورا روکا جائے۔ اس مطالبے کی حمایت اہل سنت اور اہل تشع دونوں فرقوں کی تمام مذہبی جماعتیں کر رہی تھیں۔
اس دوران حکومت اور مذہبی جماعتوں میں مذاکرات کا دوسرا راونڈ شروع ہوا جس کے نتیجے میں یہ طے ہوا کہ خواتین کے سپورٹس گالا کا نام تبدیل کر کے اس کو خواتین کے میلے کا نام دیا جائیگا۔ میلے میں خواتین کے کھیلوں کی کوئی سرگرمی نہیں ہوگی۔ صرف خواتین کے سٹالز لگیں گے اور خواتین ان سٹالز سے خریداری کرینگی اور مل جل کر میلے کو کامیاب بنائینگی۔ مورخہ پانچ اکتوبر ٢٠٢٢ سے گلگت میں خواتین کے سپورٹس گالا کی جگہ اب میلہ شروع ہوچکا ہے۔ جس میں سکولوں اور کالجوں سے طالبات کو بسوں میں شرکت کے لئے لایا جارہا ہے۔ جبکہ لالک جان سٹیڈیم کے باہر پولیس، رینجرز اور سیکورٹی فورسسز کی بھاری نفری تعینات کی گئ ہے۔
گلگت بلتستان میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہے جب خواتین کو تفریحی سرگرمیوں سے روکنے کے لئے تمام مذہبی جماعتیں ایک پیج پر آگئ ہیں۔ ماضی میں سلک روٹ فیسٹول سیمت کئ خواتین کے اہونٹس اس لئے منسوخ کرنے پڑے کیونکہ مذہبی جماعتوں نے ان کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ہنزہ ، گوجال، استور ، یاسین، قراقرم یونیورسٹی گلگت اور دیگر مقامات پر خواتین کے سپورٹس ایونٹس یا ان تفریحی سرگرمیوں میں شرکت کی سوشل میڈیا اور مقامی میڈیا کے زریعہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے شدید مخالفت ہوتی رہی اور اکثر اوقات آرگنائزرز کو برا بلا کہا جاتا رہا ہے۔ .
گلگت بلتستان میں خواتین میں سپورٹس کی بہترہن صلاحیتں موجود ہیں ۔ گلگت بلتستان کی کئ نامور کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر کھیلوں میں نمایاں کارکردگی دیکھا کر پذیرائی حاصل کر چکی ہیں۔ ان خواتین میں معروف کوہ پیما ثمینہ بیگ، معروف مارشل ارٹ چمپئن انیتا کریم ، معروف کرکٹر ڈیانا بیگ، معروف اتھیلیٹ نشا سلطان، معروف فٹ بالر ملکہ نور اور دیگر کئ خواتین شامل ہیں۔ یہ تمام خواتین اپنی مدد آپ کے تحت یہاں تک پہنچی ہیں۔
مواقع نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی ہزاروں بچیاں اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے سے قاصر ہیں ۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے موجودہ حکومت اور خصوصا چیف سکریٹری نے خواتین کے سپورٹس گالا کا اہتمام کیا تھا۔ جو کہ اب مذہبی جماعتوں کی مخالفت کی وجہ میلے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یوں کھیلوں میں دلچسپی لینے والی گلگت بلتستان کی باصلاحیت خواتین کے خواب ایک دفعہ پھر چکنا چور ہوگئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کا چپٹر نمبر ٢ میں پاکستان کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق درج ہیں ۔ اس چپٹر کی شق نمبر 25 ، 26 اور 27 جبکہ گلگت بلتستان گورننس آرڈر 2009 اور 2018 کی شق نمبر 17, 18 اور 19 کے مطابق کسی بھی شہری کو جنس یا صنف کی بنیاد پر کسی بھی سیاسی، سماجی، تفریحی و ثقافتی سرگرمی کی انجام دہی اور پبلک مقامات میں جانے سے نہیں روکا جاسکتا ہے۔
ایسی سرگرمیوں کو پسند یا ناپسند کرنا لوگوں کا حق ہے ، تاہم ایسی سرگرمیوں کو زبردستی روکنے کے لئے ملک کا آئین و قانون اجازت نہیں دیتا ہے کیونکہ آئین ایسی بنیادی آزادیوں کے تجفظ کی مکمل گرنٹی فراہم کرتا ہے ، پاکستان کا موجودہ آئین پاکستان کی قومی اسمبلی نے 1973 میں منظور کیا تھا جس میں 99 فیصد مسلمان ممبران اسمبلی میں مولانا مفتی محمود صاحب جیسے بڑے دینی علماء بھی شامل تھے۔ گلگت بلتستان کے گورننس آرڈر میں بھی مذکورہ شقیں درج ہیں جو کہ آئین پاکستان سے مستعار لی گئ ہیں۔ گلگت بلتستان کا موجودہ حکومتی سیٹ اپ مذکورہ آرڈر کے تحت چل رہا ہے۔
چیف سکرہٹری جی بی نے آئین و قانون کی رو سے اس سرگرمی کا انعقاد کیا ہے کیونکہ پورے پاکستان کے ہر شہر اور صوبے میں ایسی سرگرمیوں کے انعقاد کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینا اور نہ لینا شہریوں کی اپنی پسند یا نا پسند پر انحصار کرتا ہے۔ مگر ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے پوری قوت سے زور لگانا صریحا آئین و قانون اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کے لئے ریاست کو اپنا موقف واضح کرنے کی اشد ضرورت یے تاکہ معاشرے کی آدھی آبادی پر مشتمل خواتین کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ممکن ہوسکے۔ جس کی گرنٹی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قانون کے علاوہ خواتین کے صنفی امتیاز کے خلاف بین الاقوامی کنوینشنز سمیت انسانی حقوق کے دیگر بین الاقوامی معاہدوں میں دی گئ ہے۔ جس کا پاکستان دستخط کنندہ اور توثیق کنندہ ہے۔ ایسے واقعات سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو جو نقصان پہنچتا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments