آصف علی زرداری کا مختصر خاندانی تعارف


سندھ مدرستہ الاسلام آصف زرداری کی والدہ کے جد امجد مولانا حسن علی آفندی نے ذاتی آٹھ ایکڑ میں 1885 میں تعمیر کروایا۔ محمد علی جناح، پہلے وزیراعلی عبداللہ ہارون، وزیراعظم، دیوان جونا گڑھ سر شاہنواز بھٹو، وزیراعلی ایوب کھوڑو، سر غلام حسین ہدایت اللہ جیسے کئی بڑے لیڈر پیدا کرنے کی وجہ سے یہ ادارہ مغربی ہند میں علی گڑھ یونیورسٹی جیسے مقام پر فائز ہوا اپنے آباؤ اجداد کی دی ہوئی اس نعمت کو یونیورسٹی کا درجہ آصف زرداری نے دیا اور یونیورسٹی کا پندرہ منزلہ سٹیٹ آف دی آرٹ اکیڈمک ٹاور تکمیل کے مراحل میں ہے۔

سجاول زرداری، جو کہ اس وقت کی سیاست میں اہم تھے، فتح الزرداری اور بالوجاقبا سکرنڈ اور حیدراباد میں دو ہزار ایکڑ کے مالک تھے، ان کا اصطبل نایاب گھوڑوں کے ساتھ پورے ہندوستان میں مشہور ہوا۔ حاکم علی زرداری ولد محمد حسین ولد سجاول کو 1969 میں زرداری قبیلے کی سرداری کا اعزاز ملا، جو 2011 میں ان کی وفات پہ آصف زرداری کے سر پہ آیا ایوب کے ریفرنڈم میں اس وقت کی عروج کی قوت باچا خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے پینتیس سالہ سندھ کے صوبائی صدر سردار حاکم علی زرداری نے آخری وقت تک فاطمہ جناح کا ساتھ نا چھوڑا اور، مارشل لائی۔

قوتوں کے ہاتھوں جیل بھی گیا، نوابشاہ میں بی بی کو فتح دلائی، خود ضلع ناظم بنے،

پاکستان بننے کے بعد جو پہلا مئیر میرپور خاص ڈویژن کا بنا، وہ حاکم زرداری تھا اور ہاں ایک سینما کا پروپیگنڈا کرنے والوں کے لئے پروپیگنڈا کرنے والو اس وقت کا مہنگا ترین سات منزلہ بمبینو کامپلیکس سردار حاکم زرداری نے اس وقت 1962 میں عملی سیاست میں آنے سے پہلے جدید ترین مووی ٹیکنالوجی کے ساتھ بنوایا، جب اتنی بڑی عمارت کی قیمت سوچ کر ہی آپ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں جبکہ افتتاح صدر پاکستان ایوب خان بمع کابینہ ہوا لارنس آف عریبیہ دیکھ کر گیا جب میانوالی سے ایک صاحب کے ابا جی فائلیں لے کر نوکری ڈھونڈتے تھے اور جب گوالمنڈی میں دو مرلے کی ایک لوہار کی دکان خواب دیکھا کرتی تھی کہ بڑی ہو کر اتفاق فاؤنڈری بنوں گی۔ حاکم زرداری کچھ فلموں کے کو پروڈیوسر بھی رہے، ان کے بیٹے آصف کو وحید مراد کی مووی سالگرہ میں چائلڈ کریکٹر بھی بڑا سرمایہ دار ہونے کی وجہ سات سال کی عمر میں ملا۔

1970 میں باچا خان کی پارٹی میدان بدر تھی تو پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے آزادی کے بعد نوابشاہ کے پہلے ایم این اے منتخب ہونے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔

1976 میں اپنے پرانے لیڈر باچا خان کے بیٹے ولی خان کی این ڈی پی کے ساتھ ہو لیے، 1978 میں نصرت بھٹو کی کوشش اور

ضیائی ظلم کے خلاف دوبارہ پیپلز پارٹی کا حصہ بنے، ضیا کے خلاف فرنٹ فٹ پہ تب کھیلے، جب سب بڑے ڈر سے چھوڑ چکے تھے۔ حاکم زرداری کی بیویاں ڈاکٹر زریں آرا اور بلقیس سلطانہ، ایک بیٹی پروفیسر ڈاکٹر عذرا پیچوہو، کامیاب فزیشن اور آج کل بی بی اور زرداری کے ذاتی بجٹ سے بنی پاکستان کی نمبر ون بزنس انسٹیٹیوٹ szabist کی چانسلر کے ساتھ ایم پی اے ہیں، دوسری بیٹی فریال صاحبہ اولاد نا ہو سکیں اور بھائی آصف زرداری کے بچوں کی لیگل گارڈین کے ساتھ پارٹی امور میں سندھ میں مضبوط کرنے میں ہیں اور اب پیپلز پارٹی کی میراث دلیری اور صبر سے پس زنداں ہے۔

ان کے گود لیے ہوئے بیٹے، اویس مظفر ٹپی بھی سیاست میں ایکٹو مخالفوں کے تیروں کا شکار رہے اکلوتے بیٹے آصف زرداری نے میٹرک کی بڑے لیڈر پیدا کرنے والے سینیٹ پیٹرک کراچی اور، انٹر، پٹارو کیڈٹ کالج دادو سے کیا، جہاں ذوالفقار مرزا، جیو کے۔ شکیل الرحمن ان کے کلاس فیلو رہے۔ فرانس میں بیگم بلقیس حاکم کی بیگم نصرت بھٹو سے دوستی 1985 میں ہوئی۔ جب ساڑھے سات سال جیل میں رہ کر آنے والی بینظیر، جونیجو اسمبلی ٹوٹتے ہی الیکشن میں کودنے کا سوچ بیٹھی، تو سازشوں کے اک دور کا آغاز اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لئے قابض ضیاع نے کیا ان میں سب سے پہلا حملہ بینظیر کی کردارکشی اور فیک عریاں تصاویر کا سرکاری جہازوں سے ”آئی جے آئی“ کے پلیٹ فارم سے گھر گھر گرا کر لوگوں کو گمراہ کرنا تھا کہ جن کی بھٹو کی پارٹی سے وابستگی کے باوجود مذہبی و مشرقی اقدار زیادہ اہم تھیں۔

حالات کو دیکھتے ہوئے بی بی کی شادی کا سوچا تو بہت سے آپشن سامنے تھے۔ نصرت بھٹو کے ذہن میں بینظیر کو آگے بھی ‏قید و بند میں عمر گزارنا تھا، سخت جان، مرد بحران، مشکلات کا عادی سپاہی درکار تھا۔ جس کو مرنے کا خوف نا ہو، جیل ہنستے جائے۔ ، جو یہ کہہ سکے کہ آج کے بعد جیل میں بینظیر نہیں، بلکہ بینظیر پہ اٹھنے والی ہر انگلی خود پر لے کر ، اس کا عاشق شوہر جائے گا، اور پھر بارہ سال جیل رہ کر بھی ہنستے قول نبھائے، جوانی بتادے ایسے مضبوط اعصاب اور وفا صرف حاکم زرداری کے خاندان سے ہی توقع ہونا ہی آصف زرداری کے انتخاب کی وجہ بنا۔

آصف زرداری لندن سکول آف بزنس، اکسفورڈ سے بزنس کا ایک سالہ ڈپلومہ حاصل کیا سیاست میں بھی نو وارد جوان تھا اور اپنی نوابشاہ کی شوگر مل کے علاوہ، دو ہزار ایکڑ آبائی زرعی اراضی کی دیکھ بھال میں مصروف تھا جیسے ہی آصف زرداری کے نام بی بی سے منگنی کی لاٹری نکلنے کا اعلان ہوا، اس لاٹری کے منتظر بہت سے اپنے بھی آگ بگولہ ہو کر سازشوں میں مصروف ہو گئے۔ آصف زرداری نسل، سیاست، مالی معاملات، کردار ہر لحاظ سے مسٹر کلین، مسلسل جدوجہد رکھنے والے خاندان سے ہونے کی بدولت ہی اس اہل قرار پائے۔

حاکم۔ زرداری پہ پہلا کیس 1990 میں بنا، اور اس وقت تمام پیپلز پارٹی لیڈرشپ پہ۔ کیسز بنے، ارباب جیسے لوگ جو جو وفاداریاں بدل گئے، وہ فرشتے قرار پا کر وزارتوں کے حقدار ٹھہرے۔ جو جتنا قریب تھا بھٹو کی بیٹی کے، اتنے سنگین کیس تھے۔ منگنی کے اعلان کے ساتھ ہی پہلی افواہ یہ تھی، کہ ایک وڈیرے کا بیٹا آصف زرداری ضیا کے ڈر سے بی بی کے سیاست چھوڑنے کی شرط پہ شادی کی حامی بھری ہے اور پھر اپنے ہی کارندوں سے زرداری کے پتلے جلوائے گئے، سندھ کے پرانے جیالوں کو یاد ہو گا۔ پہلا جرم بھٹو سے رشتہ۔ جوڑنا تھا جس پر صعوبتیں کا سلسلہ دراز ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ اور اس سے پہلے بھی بارہ سال بے گناہ قید اور آج بھی ضعیف العمری اور بیماریوں کے باوجود بغیر کسی عدالتی سزا کے قید و بند کی صعوبتیں جاری مگر مرد آہن نے بیگم نصرت بھٹو کے انتخاب کبھی آنچ نہیں آنے دی

مرد حر و مرد آہن سردار رئیس آصف علی زرداری کی جراتوں، صبر و استقامت اور فہم و فراست کو سلام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments