دی لیجنڈ آف مولا جٹ: ’دن میں تین، چار گنڈاسے ٹوٹنا عام بات تھی، ایک دن میں آٹھ بھی ٹوٹے‘


پاکستان میں آج کل ایک ایسی فلم کے چرچے ہیں جس کا اصل نام تو بہت کم لوگ لیتے ہیں لیکن اسے سنیما میں دیکھنے کے لیے ٹکٹ ہر دوسرے بندے کو چاہیے۔

کوئی اسے فواد خان یا ماہرہ خان کی فلم کہہ کر پکارتا ہے تو کوئی ’مولا جٹ‘ کہنے پر اکتفا کرتا ہے لیکن فلم ’دی لیجینڈ آف مولا جٹ‘ بلاشبہ آج کل سوشل میڈیا، پاکستانی اخبارات، ٹی وی حتیٰ کہ بہت سے لوگوں کے پرسنل چیٹ باکسز یا نجی محفلوں میں بھی گفتگو کا محور بنی ہوئی ہے۔

فلم 13 اکتوبر کو دنیا بھر میں ریلیز کی جائے گی اور یہ تاریخ سامنے آنے کے بعد سے پاکستانی اور پنجابی فلموں کے شائقین کا بالآخر نو سال، جی ہاں! نو سالہ انتظار مکمل ہو رہا ہے اور اب اکثر شائقین فلم کے بارے میں خاصے بے چین اور متجسس دکھائی دیتے ہیں۔

سب ہی اس فلم میں کام کرنے والے ادارکاروں، اس کی کہانی، لوکیشن، یعنی ہر چھوٹی سے چھوٹی تفصیل جاننا چاہتے ہیں اور قدرتی طور پر ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے صحافی شائقین سے بھی زیادہ بےچین ہیں۔

ہر طرف ایک مقابلے یا دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ عوام کے ان سوالات کے جوابات ہم نے فلم کے ڈائریکٹر بلال لاشاری سے ایک خصوصی انٹرویو میں حاصل کیے جن کے لیے یہ فلم ایسے ہے جیسے ’اپنا بچہ‘ ہو۔

شاید اس فلم کے آنے کا سب سے لمبا انتظار بلال نے ہی کیا ہو جو تب سے اس کہانی کو سنیما گھروں کی زینت بنتے دیکھنا چاہتے تھے جب سے پہلی بار ان کے ذہن میں اس کہانی کا خیال آیا تھا۔

لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یقین نہیں آ رہا (کہ فلم ریلیز ہو رہی ہے) کیونکہ مجھے اور پوری ٹیم کو بہت عرصے سے اس کا انتظار تھا۔‘

ان کے مطابق اس فلم کے لیے انھوں نے بہت صبر کیا اور ’اس فلم کو بنانے میں جس درجے کا صبر درکار تھا وہ کرنا سب سے مشکل کام تھا۔‘

انھوں نے مسکراتے ہوئے مزید کہا کہ ’بہت مشکل فلم تھی، کہہ لیں کہ ایک بہت بڑا پنگا تھا، یہاں تک پہنچنے کے لیے صرف صبر ہی کیا ہے ہم نے۔‘

بلال

’یہ ری میک نہیں ہے‘

فلم کا نام اور ٹریلر دیکھ کر قدرتی طور پر سنہ 1979 میں بننے والی فلم ’مولا جٹ‘ ذہن میں آتی ہے، مگر فلم کے ڈائریکٹر بلال لاشاری کے مطابق ان دونوں فلموں کی کہانی بالکل مختلف ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پرانی مولا جٹ کے کردار ہم نے ضرور استعمال کیے ہیں لیکن ان میں نئے کرداروں کا اضافہ بھی کیا ہے۔‘

’(پرانی فلم کے) مشہور ڈائیلاگز بھی جگہ جگہ استعمال کیے ہیں، مگر یہ بالکل نئی کہانی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ یہ فلم مولا جٹ کے پرانے فینز کے لیے بھی ہے اور نئے دیکھنے والوں کے لیے بھی، اس لیے سب کو ذہن میں رکھ کر فلم بنانا ایک ’چیلنج‘ تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ فلم سب کے لیے ہے مگر بچوں کے لیے نہیں ہے، کیونکہ اس میں ایکشن ہے، خون خرابہ ہے۔‘

اس فلم میں دوسری کاسٹ کی طرح خواتین کے کردار ادا کرنے کے لیے بھی انڈسٹری کے بڑے ناموں کا انتخاب کیا گیا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پرانی کہانی کی کمزور اور پسی ہوئی خواتین کرداروں کے برعکس اس بار کہانی میں خواتین مختلف ہوں گی تو بلال کا کہنا تھا کہ اُن کی فلم میں ناظرین کو دونوں طرح کی خواتین دیکھنے کو ملیں گی، ’مظلوم عورتیں بھی اور طاقتور بھی۔‘

’دونوں ہماری دنیا کی حقیقت ہیں۔۔۔ اس (فلم) میں آپ کو دیمزل ان ڈسٹرس (مظلوم نوجوان خاتون) بھی ملے گی اور بااختیار خواتین بھی ملیں گی۔‘

’فلم میں فینٹسی کا عنصر لوگوں کو متوجہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ بنے گا‘

فلم کا ٹریلر ریلیز ہوتے ہی بعض حلقوں میں اسے تنقید کا سامنا ہے اور اسے اس نقطہ نظر سے پرکھا جا رہا ہے کہ کیا یہ فلم پنجاب کی حقیقی عکاسی کرتی ہے یا نہیں؟

بلال کے مطابق یہ فلم پنجاب پر ایک دستاویزی فلم نہیں ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کو ہم نے بہت دیکھ لیا ہے، انڈین فلموں میں، پاکستانی فلموں میں، وہ کھیت، وہ گاؤں، وہ مکان یہ سب ہم دیکھتے آ رہے ہیں۔‘

’مجھے لگتا تھا کہ اس بار کینوس کو تھوڑا وسیع کرنے اور ایک ایپک فلم بنانے کے لیے مجھے ایک خیالی دنیا تخلیق دینی ہو گی۔‘

’یہ جو پنجاب ہے یہ ایک خیالی پنجاب ہے، اصل پنجاب نہیں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ فلم کا یہی فینٹسی کا عنصر لوگوں کو متوجہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ بنے گا اور دیکھنے والوں کو لگے گا کہ وہ کسی اور ہی دنیا میں منتقل ہو گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

مولا جٹ اور نوری نت کو سکرین پر آنے میں نو برس کیوں لگے؟

سلطان راہی جنھوں نے ’گنڈاسا کلچر‘ سے 25 سال پنجابی فلموں پر راج کیا

مولا جٹ: سوا گیارہ لاکھ میں بننے والی فلم جس پر مارشل لا حکومت نے تین بار پابندی لگائی

خیال رہے کہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے والی اس فلم کو بہت تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

بلال کا کہنا ہے کہ فلم کی دیر سے منظرِعام پر آنے کی وجوہات میں سے کچھ تو ان کے کنٹرول میں تھیں اور کچھ بالکل ان کے اختیار سے باہر تھیں۔

انھوں نہ کہا کہ ’فلم کو شروع ہونے میں بہت وقت لگ گیا۔ سنہ 2017 میں شوٹنگ کا آغاز کیا، 2019 کے اختتام تک ہم فلم ختم کر چکے تھے اور اس کی ایڈٹنگ کی کچھ چیزیں رہ گئی تھیں۔ 2020 میں ہم اسے ریلیز کرنا چاہتے تھے جب کووڈ آ گیا۔ یعنی دو تین سال کا عرصہ ہے جس میں فلم اصل میں بن رہی تھی۔‘

’اس سے پہلے تو میں بہت کٹھن منصوبہ ذہن میں لے کر اور کاغذ پر لے کر فلم کو شروع کرنے کی کوشش میں تھا اور اس کے رقم اکٹھی کر رہا تھا۔‘

’لوگ یہ فلم دیکھ کر فخر محسوس کریں گے‘

سنہ 1979 میں بننے والی مولا جٹ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس فلم کا پاکستانی معاشرے اور اس دور کی سیاسی صورتِحال پر بہت گہرا اثر پڑا تھا، اس فلم کے اسی عنصر کو لے کر 2022 کی دا لیجنڈ آف مولا جٹ سے موازنہ کیا جا رہا ہے اور یہ سوال بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کیا یہ نئی فلم بھی کوئی ایسے اثرات مرتب کر سکتی ہے؟

بلال نے اس کے جواب میں کہا کہ ’1979 کی مولا جٹ کے معاشرے پر اثرات ضرور رہے ہوں گے مگر ان کے خیال میں 1979 میں بھی فلم بنانے والوں نے وہ فلم اس مقصد سے نہیں بنائی ہو گی کہ یہ معاشرے پر کوئی خاص قسم کے اثرات مرتب کرے بلکہ اس لیے کہ ’ان کو شوق تھا، انھیں اس کہانی میں اور ان کرداروں میں دلچسپی تھی اور وہ تفریح کے لیے فلم بنانا چاہتے تھے۔۔۔ اگر کوئی فلم معاشرے پر اثرانداز ہوتی ہے تو وہ اثر ہمیشہ بعد میں سامنے آتا ہے اور دیکھنے والوں کی طرف سے وہ اثر سامنے آتا ہے۔‘

بلال کے مطابق بطور ڈائریکٹر وہ مانتے ہیں کہ ان کے لیے سب سے اہم ان کی فلم دیکھنے والے ہیں، جس نے ’اپنی زندگی کے تین چار گھنٹے آپ کے لیے مختص کرنے ہیں اور وہ ٹکٹ خرید کر سنیما میں بیٹھے ہیں۔‘

ان کے نزدیک انھوں نے فلم لوگوں کو تفریح فراہم کرنے اور ان کی خوشی کے لیے بنائی ہے اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ لوگ یہ فلم دیکھ کر فخر محسوس کریں گے کہ پاکستان میں فلم انڈسٹری کے اچھے حالات نہ ہونے کے باوجود یہ فلم کسی طرح پاکستان میں بن گئی۔

’فلم میں گانے نہیں ہیں۔۔۔ ایک دن میں آٹھ گنڈاسے بھی ٹوٹے ہیں‘

فلم کے گانوں کی بات آئی تو بلال نے کہا ’گانے اس میں نہیں ہیں!‘

ان کے مطابق نہ تو اس فلم کو گانوں کی ضرورت تھی اور نہ ہی اس میں عمومی طور پر پاکستان میں بننے والی فلموں کی طرز کے گانے ملیں گے اور فلم دیکھنے کے بعد لوگ ان کے اس فیصلے سے متفق ہوں گے۔

فلم کو انڈیا میں ریلیز کرنے کے ارادے پر سوال کیا گیا تو بلال نے جواب میں کہا کہ ’مشکل ہے۔‘ اُن کے مطابق دونوں ممالک کے باہمی تعلقات اور حالات شاید اس بات کی اجازت نہ دیں۔ مگر وہ فلم کی سنیما ریلیز کے بعد اسے کسی او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر لانے کا ارادہ ضرور رکھتے ہیں۔

مولا جٹ کی بات ہو اور گنڈاسے کا ذکر نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔

انٹرویو کے دوران فلم میں استعمال ہونے والے گنڈاسوں کی مختلف اقسام دکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ گنڈاسے کی مختلف اشکال بنائی گئیں، وزنی قسم کلوز اپ شاٹس میں استعمال ہوتے تھے اور ہلکی قسم ایکشن سینز کی شوٹنگ کے دوران استعمال ہوئے۔

بلال کے مطابق ’گنڈاسہ نہ صرف فلم کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ پنجابی سنیما کی علامت ہے اور اس فلم میں ایک اور کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم نے تو پہلا پوسٹر ہی گنڈاسے کا نکالا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’دن میں تین چار گنڈاسے ٹوٹنا عام بات تھی۔ سب سے زیادہ ایک دن میں آٹھ گنڈاسے ٹوٹے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments