ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر کیسے پہنچا اور دوسرے ممالک پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
ریڈیکسیون - بی بی سی نیوز، منڈو
ڈالر دنیا کی چند مضبوط ترین کرنسیوں کے مقابلے میں گذشتہ 20 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ ان ممالک میں ڈالر خریدنا زیادہ مہنگا ہو گیا ہے جو پیسو، یورو، ین یا کوئی اور کرنسی استعمال کرتے ہیں۔ جوں جوں مقامی کرنسیوں کی قدر میں کمی ہوتی ہے توں توں ان تمام اشیا کی قیمتیں بڑھنے لگتی ہیں جو ملک میں درآمد کی جاتی ہیں۔
جب کسی ملک کی کرنسی کی قدر کم ہو جاتی ہے تو نہ صرف اس ملک میں افراط زر یا مہنگائی میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ ملک کو ڈالر میں وہ قرضے واپس کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے جو اس کی حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے لیے ہوتے ہیں۔
ایسی صورت میں ملک کے بجٹ پر دباؤ زیادہ ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ گذشتہ عرصے میں جن ممالک کو کورونا کی وبا کے حوالے سے بہت زیادہ اخراجات اٹھانا پڑے، وہ اس وقت شدید دباؤ میں ہیں۔
’ڈی ایکس وائی انڈیکس‘ ڈالر کے مقابلے میں یورو، پاؤنڈ اور ین سمیت چھ دیگر بڑی کرنسیوں کی قدر کی پیمائش کرتا ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق دیگر بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں اس وقت ڈالر کی قیمت 20 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
ڈالر کی قدر میں اس اضافے سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک برطانیہ، جاپان اور یورپ کے وہ ممالک ہیں جو یورو زون میں شامل ہیں۔
لاطینی امریکہ میں، ارجنٹائن، چلی اور کولمبیا جیسے ممالک کو اس سال اپنی کرنسیوں کی قدر میں شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جب کہ برازیل، پیرو یا میکسیکو جیسے دیگر ملکوں کو اپنی زرمبادلہ کی منڈیوں میں زیادہ بے چینی نہیں دیکھنا پڑی ہے۔
عالمی سطح پر ڈالر کی قدر میں اضافہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب شرح سود میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کئی ممالک کے مرکزی بینک افراط زر پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کی رفتار کم ہے۔
ڈالر اتنا اوپر کیوں چلا گیا؟
امریکہ کے مرکزی بینک، فیڈرل ریزرو نے اس سال شرح سود میں کئی مرتبہ اضافہ کیا جس کا مقصد مہنگائی میں اضافے کو کنٹرول کرنا تھا۔
اس کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے جاری کیے والے بانڈز پر ہونے والے منافع میں اضافہ ہو گیا۔
ایک ایسے وقت میں جب یوکرین میں جنگ کی وجہ سے عالمی طور پر عدم استحکام پایا جاتا ہے، حالیہ عرصے میں دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے امریکی بانڈز کی شکل میں سرمائے کو محفوظ کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرید لیے ہیں۔ ڈالر کی اس بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے اس کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
دوسری جانب، سرمایہ کار عالمی معیشت پر دباؤ کی وجہ سے بھی زیادہ سے زیادہ ڈالر خرید رہے ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی معیشت اتنی بڑی ہے کہ ان کا سرمایہ وہاں زیادہ محفوظ رہے گا۔ یوں ڈالر کی مانگ میں مزید اضافے کی وجہ سے اس کی قدر میں اضافہ ہو گیا ہے۔
کمزور کرنسی والے ممالک پر کیا اثر پڑتا ہے؟
برطانوی پاؤنڈ کی طرح، جاپانی ین کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ یورو اس سال ڈالر کے مقابلے میں اب تک 15 فیصد گر چکا ہے۔
کمزور کرنسی والے ممالک مضبوط ڈالر سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اس سے وہ اشیا اور خدمات سستی ہو جاتی ہیں جو وہ امریکہ کو فروخت کرتے ہیں، جس سے ان ممالک کی برآمدات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ڈالر کی قدر میں ایک دن میں سات روپے کا ریکارڈ اضافہ: وجوہات کیا ہیں؟
ڈالر کی قدر میں ایک دن میں 10 روپے کی ریکارڈ کمی کی وجوہات کیا ہیں؟
پیٹرول کی قیمت: ’ڈرائیورز جتنا کما رہے ہیں اتنے کا ہی پیٹرول ڈلوا رہے ہیں‘
ایک اور چیز جو ڈالر کے حق میں جاتی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ کی معیشت یوکرین میں جنگ سے پیدا ہونے والے توانائی کے بحران سے کم متاثر ہوئی ہے، اس کے مقابلے میں بہت سی یورپی اور ایشیائی معیشتیں اس وقت مشکلات کا شکار ہیں۔
تاہم، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ کے لیے اس ملک سے درآمد شدہ سامان زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے۔
چونکہ تیل کی قیمت امریکی ڈالر سے منسلک ہے، اس لیے دنیا بھر میں پٹرول اور ڈیزل جیسی مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، جو کئی ممالک میں مہنگائی کی لہر کا بنیادی محرک ہے اور اس سے یہ ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
بہت سے ممالک میں حکومتیں اور بڑی کمپنیاں اکثر اپنی کرنسیوں میں قرض لینے کے بجائے ڈالر میں رقم ادھار لیتی ہیں کیونکہ ڈالر عموماً زیادہ مستحکم رہتا ہے۔
لیکن جوں جوں ڈالر کی قدر بڑھتی ہے، ان قرضوں کو مقامی کرنسی میں ادا کرنا زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے۔ مثلاً ارجنٹائن میں بھی ایسے ہی ہوا ہے اور ایک ایسا ملک جو برسوں سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ لین دین کر رہا ہے، اس وقت وہاں افراط زر کی شرح 78.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
ممالک کرنسیوں کی قدر میں کمی سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟
بہت سے ممالک شرح سود بڑھا کر اپنی کرنسیوں کی قدر بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، برطانیہ کے مرکزی بینک نے حال ہی میں شرح سود میں دو فیصد اضافہ کر دیا ہے جبکہ یورپی یونین کے مرکزی بینک نے اپنی شرح سود میں 1.25 فیصد کا اضافہ کیا ہے۔
اگرچہ شرح سود میں اضافے سے کسی بھی ملک میں بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے، لیکن کاروبار اور مکانوں کے لیے قرض لینا زیادہ مہنگا ہو جاتا ہے۔
اس سے قیمتیں کم رکھنے میں تو مدد ملتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کمپنیاں منافع بخش رہنے کے لیے اپنے عملے کو فارغ کرنے یا نئے منصوبوں اور کسی دوسری کمپنی سے خدمات لینے سے پرہیز کرتی ہیں۔
اور جب قرض لینا مہنگا ہو جاتا ہے تو لوگ نئی چیزوں کی خریداری ملتوی کر دیتے اور یوں اپنے اخراجات کم دیتے ہیں۔
بلند شرح سود، کم اقتصادی ترقی اور بڑے پیمانے پر بیروزگاری کا یہ چکر ممالک کو کساد بازاری کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے یورپی حکومتوں کی رات کی نیند حرام کر دکھی ہے اور یہ ممالک روس کی جانب سے گیس کی پائپ لائن بند کیے جانے کے بعد اپنی تاریخ کے بدترین توانائی کے بحران سے گزر رہے ہیں۔
موسم سرما کی آمد آمد ہے اور ان ممالک کو خدشہ ہے کہ اس برس سردیوں کی راتیں بہت طویل ہو سکتی ہیں۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے ڈالر کی قیمت میں بہت زیادہ اضافہ ایک بری خبر ہوتا ہے، لیکن برآمد کنندگان اور ان لوگوں کے لیے ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے جنھیں ان کے رشتہ دار بیرون ملک سے پیسے بھجواتے ہیں یا وہ لوگ جو اپنی بچت ڈالرز میں رکھتے ہیں۔
- مولی دی میگپائی: وہ پرندہ جس کی دوستی کتے سے کرائی گئی اور اب وہ جنگل جانے پر راضی نہیں - 28/03/2024
- ماسکو حملے میں ملوث ایک تاجک ملزم: ’سکیورٹی افسران نے انھیں اتنا مارا کہ وہ لینن کی موت کی ذمہ داری لینے کو تیار ہو سکتا ہے‘ - 28/03/2024
- ٹوبہ ٹیک سنگھ میں لڑکی کے قتل کی ویڈیو وائرل: ’جو کچھ ہوا گھر میں ہی ہوا، کوئی بھی فرد شک کے دائرے سے باہر نہیں‘ - 28/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).