’میری بیٹی نیکا شکارامی کا قتل کیا گیا، بیان تبدیلی کے لیے ایرانی حکام نے دباؤ ڈالا‘

رفیع برگ - بی بی سی نیوز


ایران میں مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والی نوعمر لڑکی کی ماں نے ایرانی حکام پر اپنی بیٹی کے قتل کا الزام عائد کیا ہے۔

امریکی امداد سے چلنے والے ریڈیو فردا کو بھیجی گئی ایک ویڈیو میں نسرین شکارامی نے کہا کہ انھوں نے اپنی بیٹی نیکا شکارامی کے جسم پر زخم دیکھے ہیں جو سرکاری بیان کے برعکس ہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ 16 سالہ نیکا شکارامی کو ممکنہ طور پر مزدوروں نے عمارت سے پھینکا ہے۔

دریں اثنا ایک سرکاری فارنزک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک لڑکی جس کی موت نے ایران میں احتجاج کے ایک سلسلے کو جنم دیا ہے، ان کی موت خرابی صحت کی وجہ سے ہوئی۔

22 برس کی ایرانی کرد مہسا امینی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی موت ’اخلاقی‘ پولیس کے ہاتھوں مار پیٹ کے نتیجے میں ہوئی۔

انھیں 13 ستمبر کو تہران میں مبینہ طور پر اس سخت قانون کو توڑنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا، جس میں خواتین کو حجاب یا سر کے دوپٹے (ہیڈ سکارف) سے اپنے بال ڈھانپنے کا پابند کیا گیا تھا۔

پولیس نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی تردید کی اور کہا کہ دروان حراست انھیں دل کا دورہ پڑا ہے۔

جمعہ کو ایران کی فارنزک میڈیسن آرگنائزیشن (ایف ایم او) نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ مہسا امینی کی موت دماغی ہائپوکسیا کی وجہ سے متعدد اعضا کی ناکامی سے ہوئی ہے نہ کہ چوٹ لگنے یا گرنے کی وجہ سے۔

مہسا امینی کے اہل خانہ نے پہلے اصرار کیا تھا کہ وہ طبی طور پر فٹ ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 17 ستمبر سے شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد سے اب تک 150 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

نیکا شکارامی کی موت مظاہروں میں ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے سب سے زیادہ نمایاں اموات میں سے ایک بن گئی ہے۔ وہ 20 ستمبر کو تہران میں ایک دوست کو یہ بتانے کے بعد لاپتہ ہو گئی تھیں کہ پولیس ان کا پیچھا کر رہی ہے۔

نسرین شکارامی نے کہا کہ نیکا کی خالہ جنھوں نے بُدھ کو ٹی وی پر ایک بیان دیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کی بھانجی ’ایک عمارت سے گر کر ہلاک ہوئی تھیں‘ کو ’یہ اعترافات کرنے پر مجبور کیا گیا تھا‘۔

نسرین نے بتایا کہ ’حکام نے میرے بجائے میرے ماموں سمیت دوسرے رشتہ داروں کو بلایا اور کہا ہے کہ اگر نیکا کی والدہ سامنے نہیں آتی ہیں اور وہ چیزیں نہیں کہتی ہیں جو ہم چاہتے ہیں، بنیادی طور پر اس منظر نامے کا اعتراف کرتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں اور بنایا ہے، پھر ہم یہ اور وہ کریں گے، اور پھر مجھے انھوں نے یہ دھمکی دی ہے۔‘

نیکا کے ماموں کو بھی ٹی وی پر بدامنی کے خلاف بولتے ہوئے دیکھا گیا تھا، جب سکرین پر کسی کی یہ آواز بھی سکرین پر سنی گئی جس میں کوئی انھیں بظاہر سرگوشی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’یہ کہو، تم بدتمیز‘۔

حکام کا کہنا ہے کہ جس رات وہ لاپتہ ہوئیں، نیکا ایک عمارت میں گئیں جہاں آٹھ تعمیراتی کارکن موجود تھے، اور اگلی صبح وہ باہر صحن میں مردہ پائی گئیں۔

تہران کی عدلیہ کے اہلکار محمد شہریاری نے بُدھ کے روز سرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ پوسٹ مارٹم کے معائنے سے معلوم ہوا کہ نیکا کی کمر، سر، اوپری اور نچلے اعضا، بازوؤں اور ٹانگوں میں ’متعدد فریکچر آئے، جن سے یہ پتا چلتا ہے کہ انھیں اونچائی سے پھینکا گیا۔

تاہم نسرین شکارامی نے کہا کہ یہ درست نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ایران: مظاہروں میں ہلاک ہونے والی نوجوان خواتین جو اب اس مہم کا محور بن گئی ہیں

ایران میں احتجاج: تہران میں یونیورسٹی کے طلبا اور پولیس میں جھڑپیں

نیکا شکارامی کے خاندان کو ’موت کے بارے میں جھوٹ بولنے پر مجبور کیا گیا‘

ان کے مطابق ’میں نے اپنی بیٹی کی لاش خود دیکھی… اس کے سر کے پچھلے حصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں بہت شدید دھچکا لگا تھا کیونکہ ان کی کھوپڑی میں بہت گہرا زخم تھا۔ اس طرح انھیں مارا گیا‘۔

انھوں نے کہا کہ ایک فارنزک رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ جس دن وہ احتجاج میں شامل ہوئی تھیں اس دن کوئی ٹھوس چیز زور سے ان کے سر پر مار کر انھیں قتل کیا گیا۔

تہران کے ایک قبرستان کی طرف سے جاری کردہ موت کا سرٹیفکیٹ، جسے بی بی سی فارسی نے حاصل کیا تھا، میں کہا گیا ہے کہ نیکا کی موت ’کسی سخت چیز سے ہونے والی ضربوں سے ہونے والے متعدد زخموں‘ سے ہوئی۔

نیکا شکرامی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انھیں لاپتہ ہونے کے دس دن بعد ان کی لاش حراستی مرکز کے مردہ خانے میں ملی تھی اور سکیورٹی فورسز نے انھیں چھپ کر چپکے سے دفن کر دیا تھا۔

دریں اثنا ایرانی حکام نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ 23 ​​ستمبر کو شمال مشرقی ایران کے شہر کیراج میں احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں سر پر شدید پٹائی کے بعد ایک اور 16 سالہ لڑکی، سرینا اسماعیل زادہ ہلاک ہو گئی تھیں۔

نیم سرکاری اسنا نیوز ایجنسی نے البرز صوبے کے چیف جسٹس کے حوالے سے بتایا کہ جہاں سرینا کی موت ہوئی ابتدائی تحقیقات کے مطابق انھوں نے پانچ منزلہ عمارت سے چھلانگ لگا کر خود کشی کی۔

سرینا نے اپنی موت سے پہلے کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کی ہیں۔ سکول کے امتحانات ختم کرنے کے بعد ریکارڈ کیے گئے ایک ویڈیو پیغام میں وہ کہتی ہیں: ’آزادی سے بہتر کوئی چیز محسوس نہیں ہوتی‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments