کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا


وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کر دیا

ربیع الاول وہ مبارک مہینہ ہے، جس میں رب العالمین نے محسن اعظم ﷺ کو رحمت مجسم بنا کر اس خاک دان عالم میں بھیجا، آپ ﷺ نے اپنی روشن تعلیمات اور نورانی اخلاق کے ذریعہ دنیا سے نہ صرف کفر و شرک اور جہالت کی مہیب تاریکیوں کو دور کر دیا؛بلکہ لہو و لعب، بدعات و رسومات اور بے سروپا خرافات سے مسخ شدہ انسانیت کو اخلاق و شرافت، وقار و تمکنت سے آراستہ و پیراستہ کر دیا۔ محسن اعظم کا حق تو یہ تھا کہ ہمارے قلوب ہر لحظہ ان کی عظمت و احترام سے معمور اور ہمارے دلوں کی ہر دھڑکن ان کی تعظیم و توقیر کی ترجمان ہوتی، ہمارا ہر عمل ان کے اسوہٴ حسنہ اور سنت مطہرہ کے تابع ہوتا۔

ایک مسلمان کی پوری زندگی محسن اعظم ﷺ کے اسوہ حسنہ اور اخلاق نبوی ﷺ کی جیتی جاگتی تصویر ہونی چاہیے۔ نہ یہ کہ دیگر اقوام کی طرح ہم بھی اس نبیٴ برحق کی یاد و تذکرہ کے لیے چند ایام کو مخصوص کر لیں اور پھر پورے سال بھولے سے بھی ان کی سیرت و اخلاق کا ذکر زبان پرنہ لائیں۔ بلاشبہ آپ ﷺ کا تذکرہ اور آپ ﷺ کی یاد میں زندگی کے جتنے لمحات بھی گزر جائیں، وہ ہمارے لیے سعادت اور ذریعہٴ نجات آخرت ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج رسول عربی ﷺ فداہ روحی، ابی، و امی کے نام لیوا اور اس کے عشق و محبت کے دعویدار ماہ ربیع الاول میں ”سیرت النبی“ کے دلنشیں نام پر جو وقتی اور بے روح محفلیں منعقد کرتے ہیں، اس کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے اور کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ ملت اسلامیہ کی یہ کیسی بدبختی و بدنصیبی ہے کہ سیرت النبی ﷺ کے نام پر قوم و ملت کا کثیر سرمایہ زیبائش و آرائش پر صرف ہوجاتا ہے۔

محسن اعظم کے عشق کے دعوے دار کچھ غور و فکر سے کام لیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ دعوی محبت یکسر فریب ہے جو اطاعت و اتباع سے خالی ہو۔

لوکان حبک صادقاً لاطعتہ
لان المحب لمن یحب یطیع
اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو اطاعت کرتے۔ کیونکہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے

ہم زبان سے محبت رسول کا دم بھرتے ہیں ؛ مگر ہمارے طور طریقے اور اعمال و اشغال تعلیمات رسول، ہدایات نبوی ﷺ کے سراسر خلاف ہیں۔

ہادی اعظم ﷺ نے آخری وقت میں جب کہ نبض ڈوب رہی تھی اور نزع کا عالم تھا ہمیں نماز کی وصیت فرمائی تھی۔ غیر محرم عورتوں سے اختلاط تو بڑی چیز ہے، ان کی جانب نظر اٹھانے کو بھی آپ ﷺ نے دین و ایمان کی ہلاکت قرار دیا تھا۔ بے جا اسراف اور فضول خرچی سے باز رہنے کی موٴکد ہدایت فرمائی تھی؛ والدین کی نافرمانی اور قطع رحمی یعنی رشتہ داروں کے حقوق ضائع کرنے سے اجتناب کرنے کا حکم دیا تھا، وعدہ توڑنے اور امانت میں خیانت کرنے سے منع فرمایا تھا، سود کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیا، دھوکہ دہی اور فریب کاری سے بچنے کی تاکید کی، مگر ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ سب کچھ وہی کیا جاتا ہے جس سے محسن اعظم ﷺ نے روکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کوایک بحران کے بعد دوسرے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ اور اس رسول ﷺ کی اطاعت سے انحراف آفات و بلیات کا ذریعہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنةٌ او یصیبھم عذابٌ الیم (المومنون)

ترجمہ۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آفت یا دردناک عذاب نازل ہو جائے۔ حیات طیبہ کے حصول کیسے ممکن ہے اس کے لیے اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

من عمل صالحاً من ذکرٍ او انثٰی وھو موٴمنٌ فلنحیینہ حیوةً طیبةً ولنجزینھم اجرہم باحسن ما کا نوا یعملون۔

ترجمہ۔ جو شخص مرد و نیک کام کرے بشرطیکہ وہ اہل ایمان ہو تو ہم اسے (دنیا میں ) ضرور اچھی زندگی عطا کریں گے ( آخرت میں ) ان کے اچھے کاموں کے بدلے میں ان کو اجر دیں گے۔

ان آیات پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اپنے اعمال و اخلاق کے ذریعہ اپنے آپ کو مورد آفات اور مستحق عذاب بنا رہے ہیں یا دنیا میں حیات طیبہ (راحت کی زندگی) اور آخرت میں اجر و ثواب کے لائق بن رہے ہیں۔

رسول خدا ﷺ کا پاک ارشاد ہے :

قد افلح من اخلص قلبہ للایمان وجعل قلبہ سلیماً ولسانہ صادقاً ونفسہ مطمئنةً وخلیقة مستقیمةً وجعل ادنہ مستمعةً وعینہ ناظرةً (مسند احمد )

یقیناً وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے اپنے دل کو ایمان کے لیے خالص اور (کفر و شرک اور نفسانی رزائل) سے پاک و صاف کر لیا، اپنی زبان کو سچا اور اپنے نفس کو (یاد الہٰی اور اس کی رضا کے لئے ) مطمئن بنالیا۔ اپنی طبیعت کو (برائی سے بچا کر) درست روش پر رکھا اپنے کان کو حق سننے اور اپنی آنکھ کو (ایمان کی نگاہ سے ) دیکھنے والا بنایا۔

ان قرآنی آیات اور ارشاد نبوی سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی اللہ اور اس کے پاک رسول ﷺ کی اطاعت میں منحصر ہے۔ یہی اطاعت و فرماں برداری محبت رسول ﷺ کی کسوٹی اور معیار ہے۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی

ترجمہ۔ اے پیغمبر! ﷺ مسلمانوں سے کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو!

ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ رحمت عالم ﷺ سے عشق ومحبت کا اظہار اطاعت کی صورت میں کرے۔ اطاعت رسول نے ہی ان صحابہ کرام کو جو اونٹ چرایا کرتے تھے زمانے کا امام بنا دیا آج دنیا میں ہرطرف ان کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ غیر مسلم ممالک میں ان کے بنائے ہوئے قوانین لاگو ہیں۔

امت مسلمہ پر آج جتنے مصائب و آلام ہیں اس کی بنیادی وجہ اطاعت نبوی سے انحراف ہے۔ ہم صرف ماہ ربیع الاول میں سطحی انداز میں رسول اللہ ﷺ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے حضور اکرم ﷺ کی محبت کا حق ادا کر ر

دیا حالانکہ حضور اکرم ﷺ سے محبت کو وقت اور زمانے کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتا۔ محسن اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ حسنہ ہمہ وقت ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔

ہم یہ گلہ کرتے ہیں کہ پہلے علماء کرام کی گفتگو میں جو تاثیر ہوتی تھی وہ موجودہ علماء کرام کی گفتگو میں نہیں۔ کبھی ہم نے سوچا کہ اس کی وجہ علماء میں کسی قسم کی کمی نہیں بلکہ ہمارے دل کی کھیتیوں کا بنجر ہونا ہے۔ جس کے باعث علماء کی تقاریر کے اثرات نظر نہیں آتے۔ اس کی ایک مثال سامنے رکھ لیجیے۔

حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی جس کے نتیجے میں 80 یا 82 افراد نے دین حق کو قبول کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پیغمبر ہوتے ہوئے بھی حضرت نوح علیہ السلام کے پیغام کا اثر نہ ہونا پیغمبر کی گفتگو میں تاثیر کی کمی وجہ نہیں تھی بلکہ ان کی قوم کی قلبی زمین حق کے بیج کو قبول کرنے کی استطاعت سے عاری تھی۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح تعلیمات نبوی کو اپنائیں اور غیروں کی مشابہت اختیار کر نے کے بجائے سرور عالم ﷺ معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ مردوں کی مسیحائی کرنے والے پیغمبر کی امت دوسروں کو مسیحا سمجھ کر جادہ حق سے دور ہو چکی ہے جس کا خمیازہ وہ بھگت رہی ہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments