آڈیو لیکس: کیا یہ سلسلہ پاکستان کو تباہی کی طرف لے جائے گا


آج کل پاکستان میں لیک ہونے والی آڈیوز کا موسم چل رہا ہے۔ روز کوئی نہ کوئی آڈیو لیک کی جاتی ہے۔ اور اس کے بعد تمام میڈیا، تمام صحافی اور تجزیہ نگار اور ہر چائے خانے میں بیٹھ کر گپیں لگانے والا اور دفتر میں بیٹھ کر وقت گزاری کرنے والا ہر شخص اس آڈیو کے متعلق باتیں کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ کوئی کہتا ہے لو جی یہ سیاستدان پکڑا گیا۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ دو نمبر آدمی ہے۔ بڑا نیک بنا پھرتا تھا۔ اصلیت کھل گئی۔ کوئی کہتا ہے نہیں نہیں اصل میں کہنے والے کا مقصد یہ نہیں تھا۔ یہ اس کے سیاسی مخالفین نے جملے جوڑ کر آڈیو لیک کرائی ہے۔ بے شک فرانزک کرا کے دیکھ لو۔ الغرض ایسا لگتا ہے کہ پورے پاکستان میں ان آڈیوز کے علاوہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اب تو اسے آڈیو لیک کی بجائے آڈیو فلڈ کا نام دے دینا چاہیے۔

مزید لکھنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ عاجز کبھی بھی سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب کا سیاسی حامی یا مداح نہیں رہا بلکہ جیسا کہ میرے کالموں پر نظر ڈال کر ہر پڑھنے والا یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ خاکسار اکثر معاملات میں عمران خان صاحب سے اختلاف ہی کرتا رہا ہے۔ آج ان کی ایک آڈیو لیک کی گئی۔ ایک دو گھنٹے میں ہی میڈیا ان تبصروں سے گونج رہا تھا کہ آہا آہا۔ واہ واہ مزا ہی آ گیا۔ عمران خان صاحب تو ساری عمر ہارس ٹریڈنگ کے خلاف لیکچر دیتے رہے اور اس آڈیو میں وہ خود کہہ رہے ہیں کہ میں نے پانچ ممبران خریدے ہیں۔

ہم تمام سیاسی جماعتوں کے خلاف یہ سنتے رہے ہیں کہ وہ ہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہیں اور ممبران کی وفاداریاں خریدی جاتی ہیں۔ یہ الزام صرف تحریک انصاف پر ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی پر بھی لگا ہے۔ اور اس کے علاوہ بھی ہماری سیاسی قیادت طرح طرح کے الزامات کی زد میں رہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ بسا اوقات یہ الزامات غلط بھی ثابت ہوتے رہے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں اس طرح کی آڈیوز میں کانٹ چھانٹ کر کے اپنی مرضی کا تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی بھی میسر ہے جو کہ اس کانٹ چھانٹ کو پکڑ سکتی ہے اور جعل ساز اس ٹیکنالوجی کا علاج بھی ڈھونڈنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ خاکسار اس میدان میں کسی مہارت کا دعویٰ تو دور کی بات ہے، اس میں شد بد کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتا لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ماہرین آواز میں اتار چڑھاؤ کے فرق سے اور تسلسل کے ٹوٹنے سے اور دیگر طریقوں سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس آڈیو میں کچھ حصہ کاٹ کر کچھ اور حصہ شامل کیا گیا ہے کہ نہیں۔

میری درخواست ہے کہ آپ ایک مرتبہ اس آڈیو کو غور سے سنیں۔ جہاں پر عمران خان صاحب یہ کہتے ہیں ”میں اپنی طرف سے کئی چالیں چل رہا ہوں جو ہم پبلک نہیں کر سکتے۔“ وہاں پر آڈیو کا تسلسل واضح طور پر ٹوٹا ہوا ہے۔ اور گفتگو میں بھی جملوں کا تسلسل قائم نہیں معلوم ہو رہا۔ اور اس کے فوری بعد جہاں یہ کہہ رہے ہیں کہ ”پانچ تو میں خرید رہا ہوں“ وہاں تو اس سے بھی زیادہ واضح طور پر آواز کا فرق ہی بتا رہا ہے کہ اس آڈیو میں کانٹ چھانٹ کی گئی ہے۔

اور جس تیزی کے انداز میں جملہ کہا گیا ہے وہ اس سے گزشتہ جملے سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اور اس جملہ میں یہ نہیں کہا گیا کہ کیا چیز پانچ کی تعداد میں خریدی جا رہی ہے۔ میری ناقص عقل کے مطابق یہ آڈیو اس لحاظ سے مشکوک ضرور ہے کہ بغیر ماہرین کے تجزیہ کے اس کی بنیاد پر رائے قائم کرنے سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہو گا لیکن افسوس کئی سنجیدہ صحافیوں نے بھی ایک دو گھنٹے میں ہی اس بارے میں بہت حتمی آراء کا اظہار شروع کر دیا۔

اگر میرا شک درست ہے تو یہ آڈیو لیک کرنے والا شخص بہت مہارت سے آڈیوز کو ایڈٹ کرنے کا کام نہیں کر رہا ہے۔ ورنہ اب اس جعل سازی کے کام کو کافی مہارت سے کیا جاتا ہے۔ اور کانٹ چھانٹ کو اتنا واضح نہیں ہونے دیا جاتا۔ بہر حال یہ ایک عام شخص کی رائے ہے لیکن آپ اس آڈیو کو دوبارہ سن کر اپنی آزادانہ رائے قائم کر سکتے ہیں۔

لیکن اس سارے غل غپاڑے میں ہم بعض اہم نکات کی طرف توجہ نہیں کر رہے۔ آپ بے شک ان آڈیوز کی بنیاد پر کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی لیڈر کو مجرم قرار دیں لیکن اس پس منظر میں بعض معاملات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیا اس طرح کسی شخص کے گھر یا دفتر میں آڈیو بنانا قانونی اور اخلاقی طور پر درست ہے؟ اس معاملہ پر دو رائے نہیں ہو سکتیں کیونکہ واضح طور پر یہ عمل قانونی طور پر صحیح نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اخلاقی جواز رکھتا ہے۔ اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ جو شخص یا گروہ بھی اس لیک میں ملوث ہے وہ مجرم اور بلیک میلر ہے۔

کیا یہ مجرم جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہو کر خدمت خلق کا کام سرانجام دے رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ ان صاحب کے بارے اس قدر حسن ظن سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ اس مجرم اور بلیک میلر کے اپنے ہی مقاصد ہیں۔ اگر ہم ہر آڈیو پر والہانہ انداز میں واہ واہ شروع کر دیں گے تو نا دانستہ طور پر اس مجرم کی اعانت کر رہے ہوں گے۔ اس قسم کی آڈیوز مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے سیاسی قائدین کی بھی بنائی گئی ہوں گی۔ کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس بلیک میلر کا مقصد ایک ایک کر کے تمام سیاسی جماعتوں کو بدنام کرنا نہیں ہے۔ اگر یہ سلسلہ تمام سیاسی جماعتوں تک پھیلا دیا گیا تو اس ذریعہ سے پاکستان کے استحکام کو نقصان بھی پہنچایا جا سکتا ہے۔

اس وقت تو ہم میں سے اکثر اس ڈگڈگی پر رقص کر رہے ہیں لیکن یہ سوچنا ضروری ہے کہ اس سلسلہ کا انجام ایسی آڈیوز پر بھی ہو سکتا ہے جن کے نتیجہ میں ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ مختلف صوبے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جائیں۔ اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ہر جاری ہونے والی آڈیو پر والہانہ لبیک نہ کہا جائے۔ آپ اپنے دفتر اور گھر میں ایک تجربہ خود بھی کر سکتے ہیں۔ کئی گھنٹے اپنی، اپنے اہل خانہ اور اپنے رفقائے کار کی آواز ریکارڈ کروائیں جب کہ آپ کو خود علم نہ ہو یہ ریکارڈنگ ہو رہی ہے۔ جب آپ اسے سنیں گے تو آپ کو علم ہو گا کہ اس میں کئی حصے ایسے ہیں کہ جنہیں اگر سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے سنا جائے یا اگر انہیں کانٹ چھانٹ کر اور مختلف حصوں کو جوڑ کر نشر کیا جائے تو آپ پر بھی طرح طرح کے الزامات لگائے جا سکتے ہیں۔

پہلے بھٹو صاحب کو طرح طرح کے الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک یہ بھی لکھا گیا کہ آپ کا اصل نام گھاسی رام تھا۔ جن عقل سے عاری لوگوں نے آپ کو پھانسی دی انہوں نے آپ کی لاش کو برہنہ کر کے دیکھا کہ ختنے ہوئے تھے کہ نہیں۔ اس سے بڑھ کر کیا بیہودگی ہو گی۔ محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ کی رقص کرتے ہوئے تصویروں کو مشتہر کیا گیا۔ اسی طرح کا ظلم بے نظیر صاحبہ پر بھی کیا گیا۔

آپ نواز شریف صاحب سے اختلاف کریں یا اتفاق کریں، یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کے خاندان کو بھی اس طرح کے الزامات کا نشانہ بنایا گیا۔ اور خاندان کی خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہ سب کچھ قابل مذمت تھا۔ اب بہت سے تجزیہ نگار چسکے لے کر یہ بتا رہے ہیں کہ عمران خان صاحب کی کوئی جنسی ویڈیو منظرعام پر آنے والی ہے۔ ہر چیز کی کوئی حد نہیں ہونی چاہیے۔ انسان کی پرائیویٹ زندگی کا کوئی احترام ہونا چاہیے۔ اگر ملک کے وزیر اعظم کے دفتر کے آڈیو لیک کی جاتی ہے تو اولین فکر ملک کی سیکیورٹی کی ہونی چاہیے نہ کہ فوری طور پر بغیر تحقیق کے بغلیں بجانے کا سلسلہ شروع کر دیا جائے۔ مخالفت ضرور کریں لیکن اخلاق کی حدود میں رہ کر کریں۔

اس کالم کا مقصد نہ کسی کو کسی الزام سے بری کرنا ہے اور نہ کسی پر کوئی الزام لگانا ہے۔ اگر میرے یا آپ کی کوئی آڈیو لیک کی جائے تو یقینی طور پر ہمیں اس کا صدمہ ہو گا۔ ہم اس کی مذمت کریں گے۔ لیکن اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو میرے اور آپ کے اور صحافی اور تجزیہ نگار حضرات کے گھر کے واش روم بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس لئے ابھی سے اس سلسلہ کو سختی سے رد کر دینے میں ہی سب کی بھلائی ہے۔ اور ہر ممکن کوشش کر کے اس مجرم کو پکڑ کر اسے قانون کے مطابق سزا دینا ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments