یہ ایک ایسا ناول ہے جس میں ترک ناول نگار اورحان پاموک کے کچھ ذائقے ہیں۔ ہر باب میں ایک نیا کردار آتا ہے اور اپنے متعلق بتانا شروع کر دیتا ہے۔ اگرچہ ناول کا آغاز فوری اپنی گرفت میں لینے والا نہیں ہے۔ بظاہر ایک فنیٹیکل سا ماحول ہے لیکن جوں جوں قاری آگے بڑھتا ہے کہانی اسے اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیتی ہے۔ کراچی کے ساحل پر عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے قریب ایک بہت ہی شاندار قسم کی ایک حویلی ہے لکشمی لاج جسے اس کے مالک کرشن نرائن نے اپنی بیوی کی محبت میں بڑی شان و شوکت سے بنوایا۔

ان کی کوئی اولاد نہیں ہے ہاں البتہ اس حویلی کے باسی چار مختلف المذاہب خاندان ہیں جن میں ایک خاندان ہے رابرٹ براؤن کاجو برطانوی عیسائی انگریز ہے اس کی بیوی اور ایک بیٹی کیتھرین اس خاندان کا حصہ ہیں۔ ایک ہوشنگ خاندان ہے جو جو پارسی ہے جن کے آباؤ اجداد کا تعلق آرمینیا سے ہے۔ چوتھا خاندان ایک یہودی النسل ڈیوڈ سولومن کاہے جو ترکی سے آیا تھا۔ یہ چاروں خاندان لکشمی لاج میں اکٹھا رہ رہے تھے۔ یہ شہر ان کے خوابوں کا مرکز تھا۔

یہ تمام کاروباری لوگ ہیں۔ متمول ہونے کی وجہ سے فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ابھی وہ یہاں پوری طرح یہاں سیٹل بھی نہیں ہو پائے تھے، ابھی تو لکشمی دیوی پوری طرح خوشی سے سرشار بھی نہ ہو پائی تھی کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا۔ ایک ہی لکیر نے لکشمی لاج کو ہندو عمارت سے مسلمان عمارت میں تبدیل کر دیا اور اس کے ماتھے پر آزاد منزل کی تختی لگ گئی۔ اس کے اصل مالک یہاں سے ہجرت کر گئے۔ وقت کا کلاک 1947 ء اور 1971 ء سے ہوتا ہوا بالآخر 2019 ء تک آ پہنچا۔

لکشمی لاج کے اولین دو باسی ڈیوڈ اور ہوشنگ جو اب بوڑھے ہو چکے ہیں، آزاد منزل کو دیکھنے آئے ہیں تا کہ وہ اپنی جنم بھومی کو ایک بار پھر دیکھ سکیں جہاں وہ پیدا ہوئے تھے، یہیں ان کا بچپن گزرا تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بہت سی روحیں بھٹکتی پھرتی ہیں کہ ان کو یہاں رہنا نصیب نہیں ہوا، انہیں کسمپرسی میں اس حویلی کو چھوڑنا پڑا تھا۔ اس حویلی کی تیسری رہائشی کیتھرین اب اس دنیا میں نہیں تھی اس لیے وہ آ نہیں سکی۔ ماہ و سال کی حرکت کے ساتھ یہ حویلی اب ایک کھنڈر کا نقشہ پیش کر رہی ہے اس کی سنگ مرمر کی سیڑھیاں مٹی سے اٹی پڑی ہیں۔

درختوں پر زرد امر بیل لپٹی ہے، ٹنڈ منڈ ٹہنیوں پر شکستہ پنچرے کچھ اس طرح سے جھول رہے ہیں کہ یہاں کے باسی پرندے کب کے یہاں سے کوچ کر چکے۔ یہ بڈھے اس لان کی طرف بڑھتے ہیں تو وہ سنگ مرمر کی انہیں گرد آلود سیڑھیوں پر دو خوب صورت لڑکیاں بیٹھی دیکھتے ہیں۔ ان میں ایک لڑکی کشمیری ہے اور یقیناً بہت خوب صورت ہے اس لڑکی کا نام خدیجہ ہے جو لندن سے آئی ہے۔ دوسری لڑکی پری ہے جو شاید کسی مچھیرے کی بیٹی ہے لیکن وہ بھی خوب صورتی میں کسی سے کم نہیں۔

عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے قرب و جوار میں مچھیروں کی بستیاں ہیں ایسی ہی ایک بستی میں مچھیروں کے گھر ایک خوب صورت بچی پیدا ہوتی ہے اور وہ لوگ اس کی خوب صورتی سے ڈر کر اسے ایدھی کے جھولے میں ڈال آتے ہیں۔ وہ یہی ایدھی ہوم میں پلی بڑھی۔ اس کی خوب صورتی کی وجہ سے ایک متمول خاندان نے اسے گود لے لیا۔ اس عورت کے مرنے کے بعد اس کا خاوند جو شرابی بھی ہے وہ پری کو ہراساں کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑ نے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

اس کا تعلق نادر سے ہے۔ نادر کا سوتیلا بھائی شمس ہے جس سے ملنے کے لیے اسے آزاد ہاؤس آنا پڑا۔ اس کا ٹاکرا یہاں بہزاد سے ہوتا ہے جو آزاد منزل کا مالک ہے اور اس کی کرم نوازی کی وجہ سے پری کو یہاں بہزاد کی ایک کنسٹرکشن کمپنی میں نوکری مل جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے یہاں کی انیکسی میں رہائش بھی مل جاتی ہے۔

اس حویلی کا ایک تیسرا کردار شمس ہے۔ شمس عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر پڑا رہتا تھا جو ہزارہ نسل سے ہے اس کی والدہ اور دوسرے لوگ اس کے سامنے ایرانی بارڈر کے قریب قتل کر دیے گئے تھے وہ صرف اس لیے بچ گیا کہ اس کے شناختی کارڈ پر بلوچ لکھا تھا کیونکہ اس کا باپ بلوچ تھا۔ شمس اپنے خوب صورت جسم کی وجہ سے مسٹر پاکستان بننا چاہتا تھا لیکن اب مایوسی کی انتہا پر عبداللہ شاہ غازی کے مزار کا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کا کوئی رشتہ دار موجود نہیں ہے ایک سوتیلا بھائی نادر ہے جو ایک عرصے سے غائب ہے۔ یہیں اسے بہزاد ملتا جو اسے اپنے گھر لے آتا ہے اور پھر یہیں سے ایک گھناؤنا کام شروع ہوتا ہے۔ اسے ایک روبوٹ بنا دیا جاتا ہے اور اس کی عزت نفس ختم کر دی جاتی ہے۔

بہزاد کی دادی امینہ کشمیری نسل سے تھی اور دادی امینہ کے حوالے سے خدیجہ انگلینڈ سے مقبوضہ کشمیر اپنے بھائی کی تلاش میں پہنچتی ہے جو کشمیر آ کر غائب ہو گیا تھا لیکن وہ اسے وہاں نہیں ملتا۔ وہ اس کی تلاش میں آزاد منزل کراچی پہنچتی ہے جہاں اس کا بھی ٹاکرا بہزاد سے ہوتا ہے۔ بہزاد کے پاس وہ ایک اور حوالے سے پہنچی ہے۔ چند دن بعد بہزاد اسے شادی کی آفر کرتا ہے جسے قبول کر لیا جاتا ہے اور ایک طرح کی پیپر میرج ہو جاتی ہے۔ بہزاد اسے بتاتا ہے کہ وہ باپ بننے کے قابل نہیں ہے۔

ایک اولین کردار آزاد ہے جو آزاد منزل کا مکین ہے جو اس عمارت میں 1947 ء میں دہلی سے آ کر یہاں آباد ہوا۔ آزاد کے علاوہ کہانی کہ یہ چار بنیادی کردار ہیں۔ کہانی پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں زندہ حقائق موجود تھے جن کی بنیاد پر اسے ناول کی صورت بنا گیا ہے۔ یہاں آزاد منزل ایک استعارہ یا علامت ہے اس آزادی کا جو اس خانماں برباد قوم کو نصیب تو ہوئی لیکن یہ قوم اسے سنبھال نہیں پائی۔ یہ نئی ریاست کیا وجود میں آئی کہ دشمنوں کی آنکھوں میں مسلسل کھٹکنا شروع ہو گئی اور پھر اپنوں کی حماقتوں اور سازشوں نے اس ملک تباہی کے کنارے پر لا کھڑا کیا۔

نتیجۃ اذیت پسندی دیمک کی طرح کچھ اس طرح ہماری جڑوں میں بیٹھا دی گئی ہے کہ آنے والے نسلیں کھوکھلے دماغ اور ذہن کی پیداوار شاہ دولہ کے وہ چوہے ہیں جنہیں آزادی کی کوئی قدر نہیں ہے۔ آج کی نئی نسل کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ آج سے 75 برس پہلے کیا ہوا تھا یا پھر 1971 ء میں کیا ہوا تھا۔ نئی نسل میں زیادہ تر تو یہ بھی نہیں جانتے کہ بنگلا دیش ہی دراصل مشرقی پاکستان تھا۔

آزاد منزل ایک زندہ حقیقت ہے۔ آزاد منزل میں رہنے والوں پر کیا گزری یہ لمحہ لمحہ آنسوؤں کا سفر ہے۔ 1947 ء کی جڑیں 1857 ء کے بطن سے پھوٹیں تھیں بعد میں اس کو پاکستان کا نام دیا گیا۔ آزادی کا یہ چہرہ خون سے مصور تھا۔ پہلی تقسیم میں کسی نے سرنڈر نہیں کیا تھا لیکن ریڈکلف لائن کھنچنے سے جو طوفان پیدا ہوا اس کے نتیجے میں کراچی کی لکشمی لاج آزاد منزل میں تبدیل ہوئی۔ اس کے نئے آبادکاروں کی کہانیاں موجود ہیں۔

2019 ء تک پہنچنے کے درمیان 1971 ء آتا ہے۔ تقسیم کی ایک اور لکیر کھنچ رہی تھی جو جغرافیائی ہرگز نہ تھی کیونکہ جغرافیہ تو پہلے ہی تقسیم تھا۔ یہ تقسیم ایک قوم کے بیچ ہوئی تھی۔ بنگالیوں نے بنگلا دیش بنا لیا۔ بنگالیوں کو اپنی زمین سے، پنے دریاؤں سے، اپنی جھیلوں سے، اپنی ندیوں سے، دریاؤں، سمندروں سے، اپنی زبان، اپنے لباس، اپنے مکانوں اور اپنی غربت سے اپنی بدصورتی حتی کہ اپنی جہالت سے بھی اتنا ہی پیار تھا جتنا کہ باقی چیزوں سے۔

وہ آزاد ہو کر بھی آزاد نہیں ہوئے تھے۔ دوسری تقسیم 1971 ء میں ہوئی تو ڈھاکہ کا آزاد ہاؤس نشاط باغ میں تبدیل ہو گیا۔ 2019 ء میں آزاد منزل کراچی ایک سروگیسی ہاؤس یعنی کرائے کی کوکھ خریدنے کی ایک عمارت میں تبدیل ہو گئی۔ یہیں ایک بچوں کی نرسری موجود ہے اس نرسری میں جتنے بھی بچے ہیں وہ سب سروگیسی یعنی کرائے کی کوکھ میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ سب بچے ہم شکل ہیں ان سب بچوں کے لیے نطفہ شمس سے لیا گیا تھا اور پھر مختلف عورتوں کی کوکھ کو کرائے پر حاصل کر کے ایک لیبارٹری کے طور پر استعمال کرتے ہوئے یہاں خوب صورت بچے پیدا کیے گئے۔ یہ سب بچے بیچنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان سب بچوں کو پیدا کرنے کا ماسٹر مائنڈ بہزاد ہے۔ وہ ایسی ہی آفر خدیجہ کو بھی کر چکا ہے کہ وہ شمس کے نطفے سے بہت سارے خوب صورت بچے سروگیسی کے ذریعے پیدا کرنا چاہتا ہے۔ خدیجہ اس کی دور پار کی رشتہ دار بھی ہے۔

ڈیوڈ، ہوشنگ، کیتھرین، آزاد، امینہ گئے زمانوں کے قصے ہوئے جو کبھی آزاد منزل کے مکین تھے لیکن آج کے مقیم شمس، بہزاد، پری اور خدیجہ ہیں جو ان کرداروں کے بازگشت ہیں۔

’‘ تقسیم سے تقسیم تک ”کئی کہانیوں میں منقسم ہے، ماضی کے کتنے ہی کردار ہیں جو اس زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بسے ہوئے ہیں انہیں یکجا کرنا اور پھر کسی میوزیم میں رکھنا ناممکن ہے ایسا میوزیم صرف کسی ناول کا حصہ ہی ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی میوزیم یہ ناول ہے۔ پچاس برس بعد پاکستان کے ٹوٹنے کے عمل کو اس ناول کا حصہ بنانا اہم ہے کہ یہ ایک گھاؤ بھی ہم نے برداشت کیا ہے تا کہ آنے والی نسل یہ جان سکے کہ آخر ہمارے ساتھ ہوا کیا تھا۔ اسے رائل بک کارنر کراچی نے خوب صورت گیٹ اپ میں شائع کیا ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ کراچی کی کتابیں یہاں پنجاب میں پہنچ ہی نہیں پاتیں اور قاری کی دسترس سے باہر رہتی ہیں۔ تقسیم سے تقسیم تک پاکستان کا نوحہ ہے جسے ناہید سلطان مرزا نے خون جگر سے لکھا ہے۔