بارہ ربیع الاول اور ہم


بارہ ربیع الاول کا مبارک دن ہو گا، سارے ملک میں عام تعطیل ہو گی، رات کو چراغاں کیا جائے گا، مساجد میں سیرت النبی پر مجالس ہوں گی جن میں علمائے کرام اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے اپنے اور اپنے فرقے کے عشق رسول کو ثابت کریں گے، نعرہ رسالت بار بار گونجے گا اور کافروں کے دلوں کو دہلا دے گا۔ اس سے پہلے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں عاشقان رسول جلوس نکالیں گے جن کے راستے خوبصورت ہری جھنڈیوں سے سجائے ہوں گے۔

جلوسوں میں شامل نہ ہونے والی اکثریت تعطیل کی وجہ سے آرام سے دن چڑھے سو کر اٹھے گی۔ صدر مملکت اور وزیراعظم اپنے اپنے پیغامات میں اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لوگوں کو اسوہ رسول پر چلنے کی تلقین و نصیحت کریں گے۔ میں سوچ رہا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگ اپنے جذبات کا اظہار کیسے کریں گے؟  وہاں تو سنا ہے پینے کو صاف پانی بھی میسر نہیں! شربت کی سبیلیں کیسے لگائیں گے، کہیں ان کے ایمان پر لوگ شک نہ شروع کر دیں؟

ان کے علاقوں میں تو راستے ہی غائب ہو گئے جھنڈیاں کہاں لگائیں گے۔ بے شرم سیلابی پانی چلو گھروں اور عمارتوں میں تو داخل ہو ہی گیا کہ لوگوں نے گناہ ہی اتنے کیے تھے لیکن اس کمبخت نے تو اللہ کے گھروں کو بھی نہیں چھوڑا اور ایک تہائی پاکستان کی مساجد بھی ڈبو دیں۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ ان علاقوں میں لوگ اتنی متبرک مجالس سے محروم رہ جائیں گے۔ اگرچہ کافروں کے بنائے ہوئے فونز پر یو ٹیوب چینلز پر دل آویز بیانات سننے کی سہولت تو موجود ہے لیکن پانی میں گھرے علاقوں میں بجلی نہ ہونے ہر بیٹری چارج رکھنا مشکل ہے اور اب مولانا صاحب کی بات سمجھ آئی کہ یہ عارضی زندگی واقعی مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش ہے بالخصوص وطن عزیز میں رہنے والوں لیے۔ بہرحال یہ تو جملہ متعرضہ تھا جو موضوع سے ہٹا گیا واپس آتے ہیں بارہ ربیع الاول کہ آج اس موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ ہے۔

وہ دانائے سبل، ختم رسل، مولائے کل جس نے
غبارے راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قراں، وہی فرقاں، وہی یسین، وہی طہ

آپ نے سیرت النبی پر بہت کچھ پڑھ اور سن رکھا ہو گا اور میں اس میں کچھ اضافہ نہ کر سکوں گا اس لئے کیوں نہ آج رسول اللہ کی حیات مبارک کے ان پہلووں کو سامنے لایا جائے جو ہمارے آج کی ضرورت ہے۔ ذرا ٹھہریے مجھے معلوم ہے آپ کی حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ ہمارے لیے مینارہ نور ہے۔ ذرا صبر سے کام لیں بات کھل کر کرتے ہیں

نبی کریم کی 63 سالہ زندگی کو ہم کئی خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں مثلاً نبوت سے پہلے کی زندگی اور اعلان نبوت کے بعد کی زندگی۔ اس مختصر سی تحریر میں یہ ممکن نہیں کہ تمام پہلووں کا احاطہ کیا جا سکے۔ آج ہم نبوت کے بعد کی زندگی کے مکی اور مدنی پہلووں پر غور کرتے ہیں۔

نبوت کے بعد مکہ کی 13 سالہ زندگی جہاں ہمیں مشکل حالات میں اپنے نظریے پر قائم رہتے ہوئے مستقل مزاجی سے آگے بڑھنے کا سبق ملتا ہے وہیں اپنے پیروں کاروں کو عدم تشدد پر کاربند رکھنا اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے ہجرت جیسے اقدامات بھی ملتے ہیں اور جب مکہ میں زندگی اور مشن دونوں کا چلنا ممکن نظر نہیں آتا تو مدینہ کی طرف خالی ہاتھ ہجرت کے بعد ایک نئی جگہ پر زندگی اس طرح گزاری کہ یثرب نامی قصبہ اگلے دس سال میں مدینہ کے نام سے ایک ایسی ریاست کا مرکز بن گیا جس نے پورے جزیرہ نما عرب کو اپنے احاطے میں لے لیا جس کا رقبہ پورے یورپ سے بڑا تھا اور اس ریاست کے قیام میں ان کو جنگیں بھی لڑنا پڑیں لیکن آپ حیران ہوں گے کہ دس سال کے عرصے میں جتنی جنگیں بھی ہوئیں ان میں مسلمانوں کی طرف سے جان سے ہاتھ دھونے والی شہدا کی تعداد 150 سے کم ہے جبکہ مخالفین کے جانی نقصان کا تخمینہ 250 ہے اور یہ اس دور میں ہوا جب انسانی حقوق بارے انسانیت کے معیار ابھی مختلف تھے۔

مخالفین کو شکست کے بعد قتل کرنا عام بات تھی۔ اتنے بڑے رقبے پر قائم ریاست میں تمام لوگ مسلمان نہیں ہو گئے تھے بلکہ کافی عرصہ مسلمان اقلیت ہی میں رہے۔ آپ کو صحرائے سینائی میں قائم سینٹ کیتھرین کے پادریوں کو دیا جانے والا معاہدہ تو یاد ہو گا جو رسول اللہ نے ان کی مدینہ آمد پر دیا تھا اور جس کے مطابق تمام مسلمانوں کو ان کی حفاظت کا پابند بنایا گیا تھا۔ یہ معاہدہ آج بھی اس گرجا گھر میں موجود ہے۔

ہمیں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس کے مطابق انہوں نے کبھی اپنی بیویوں میں سے کسی پر ہاتھ اٹھایا ہو۔ علم کو حاصل کرنے کی ترغیب اتنی اہم سمجھی گئی کہ غزوہ بدر میں پکڑے جانے والی قیدی مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا کر آزاد ہو سکتے تھے۔ قرآن نے انسانی تخیل کو بڑھو تری دی اور آپ صلی اللہ ہو علیہ و سلم نے ایک ایسی تحریک چلائی کہ دنیا میں کسی شمار و قطار میں نہ آنے والے عرب نہ صرف علم و دانش کے وارث بن گئے بلکہ انہوں نے تحقیق و ترقی کی جو شمع روشن کی وہ درجہ بدرجہ ہوتی ہوئی یورپ کی موجودہ ترقی کی بنیاد بن گئی۔

اور توہین رسالت، کیا کبھی کوئی مسلمان آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں کوئی غلط بات سوچ بھی سکتا ہے؟ میری سمجھ کے مطابق تو یہ امر نا ممکن ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جہاں تقریباً 97 فیصد آبادی مسلمان ہے وہاں تو توہین رسالت کے واقعات اتنے تسلسل سے کیوں ہو رہے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے انسانی جان کی حرمت اتنی اہم ہونے کے باوجود دنیا کے کسی حصے میں ایسے ناپاک واقعات کے ردعمل میں ہونے والے مظاہروں میں ہر بار صرف پاکستان ہی میں کیوں مسلمانوں کا جانی نقصان اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments