امریکہ میں تیزی سے پھیلتا، اسلام فوبیا


امریکہ، نسلی مساوات اور مذہبی آزادی کی پالیسیز کے نفاذ کرنے کا دعوی تو کرتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ امریکی معاشرے کے مرکزی دھارے میں مسلم گروہوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے، پابندیاں لگانے، دباؤ ڈالنے اور ظالمانہ سلوک روا رکھنے کے لیے مختلف پوشیدہ یا واضح حکمت عملیاں اور اقدامات اختیار کیے جاتے ہیں۔ اس وقت امریکہ میں مسلم آبادی پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے، جو امریکہ کی مجموعی آبادی کا صرف دو فیصد ہے، لیکن امریکی عوام کے لیے اس کا یہ مختصر وجود بھی ناقابل برداشت ہے۔

خاص طور پر ”گیارہ ستمبر“ واقعے کے بعد سے، امریکی معاشرے میں ”اسلاموفوبیا“ بڑھتا جا رہا ہے اور سالہا سال سے وہاں آباد مسلمانوں کو اپنے درمیان ”غیر اور اجنبی قوت“ سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر اکثر بغیر کسی توجیہہ کے پابندی عائد کی جاتی ہے، بلاوجہ، محض من مانی کرتے ہوئے طیارے میں سوار نہیں ہونے دیا جاتا، سرکاری سہولیات منسوخ کر دی جاتی ہیں، بینک اکاؤنٹس بند کر دیے جاتے ہیں اور ناقابل معافی الزامات لگا کر قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر ، امریکی معاشرے میں، مسلمانوں اور اسلام پر عدم اعتماد، خوف، تعصب، دوہرے معیار اور پابندیاں زیادہ واضح ہوتی جا رہی ہیں اور تنازعات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ امریکہ میں مسلم کمیونٹی کی تنہائی اور پسماندگی بڑھ گئی ہے۔

امریکی سیاست میں، کنزر ویٹوز اور ریپبلکنز میں ”اسلامو فوبیا“ سب سے زیادہ عام ہے۔ ڈیمو کریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن سیاست دان مسلمان اور اسلام کے بارے میں زیادہ منفی نظریات رکھتے ہیں۔

11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر ہونے والے حملے نے مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا کا ایک نیا دور شروع کر دیا ہے۔ 9 / 11 کے حملے کے بعد امریکی حکام نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے مسلمانوں کی کردار کشی شروع کی تاکہ مسلمانوں سے نفرت کا تاثر گھر گھر فروغ پائے، فلمز اور ٹی وی سیریز کے ذریعے مسلمانوں کو متنازعہ بنا کر پیش کیا گیا، جس میں انہیں کامیابی ہوئی کیونکہ ان پروڈکشنز کو بہت زیادہ پذیرائی ملی اور مل رہی ہے، امریکی فلمیں اور ٹی وی شوز میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اسلام اور مسلمان کھلا خطرہ ہیں۔ دراصل امریکی حکومت عراق اور افغانستان کی طرح دیگر مسلم ممالک پر حملہ ہونا چاہتی ہے،

نائن الیون کے بعد اکثر مغربی اخبارات میں اس قسم کی خبریں اور رپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں جن میں مسلمانوں کو عالمی معاشرے میں انتہا و شدت پسندی اور تناؤ کا سبب قرار دیا گیا، یونیورسٹی آف الینوائے میں پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے جیک شاہین نے ’ہالی وڈ کیسے لوگوں کو بدنام کرتا ہے؟‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جو 2001 میں شائع ہوئی جس میں مصنف نے مفصل طور پر لکھا کہ ہالی وڈ فلم ساز اپنی فلموں میں عربوں کو بدنام کرتے ہیں، انھوں نے نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی تباہی و بربادی کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اس وقت بھی فلموں ہی کے ذریعے یہودیوں کے خلاف نفرت کو ہوا دی گئی جس کے بعد ہولوکاسٹ کی بساط بچھائی گئی، کتاب کے اختتام پر مصنف شاہین لکھتے ہیں ’کہ عربوں کو جب آپ ہالی وڈ کی عینک سے دیکھیں گے تو وہ ہمیشہ خطرناک اور پس ماندہ دکھائی دیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments