رسول اللہﷺ کی زندگی کے چند اہم پڑاؤ


پیدائش، پہلی شادی، نبوت اور وفات، رسول اللہ ﷺ کی دنیا وی حیات کے یہ چار بہت ہی اہم اسٹیج یا پڑاؤ ہیں۔ ان میں شادی کے علاوہ باقی تینوں غیر اختیاری ہیں۔ پیدائش اور موت میں انسان کی اپنی مرضی اور پسند و ناپسند کو دخل نہیں ہوتا، اسی طرح نبوت بھی سرتا سر اللہ کے اختیار، انتخاب اور تصویب کا معاملہ ہے، اس میں بھی کسی کو رائے دینے کا اختیار نہیں۔

اگر ہم رسول اللہﷺ کی زندگی کے تمام پہلؤوں اور مراحل پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ، ایک ایک عمل اور ایک ایک مرحلہ بہت ہی زیادہ اہمیت کی حامل منصوبہ بندی کے ساتھ گزرا ہے۔

1۔ زندگی کے ابتدائی سرے پر آپﷺ کو ایک شادی شدہ اور عمر دراز عورت ملی اور زندگی کے انتہائی سرے پر کم عمر اور ذہین عورت سے اللہ نے آپ کی مدد کی۔ جب آپ ﷺ پچیس سال کے ہوئے تو آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ ؓسے نکاح فرمایا۔ اس نکاح کی فرمائش خود حضر خدیجہ ؓکی طرف سے تھی، خود انہوں نے ہی آپ ﷺ کو پسند کیا تھا جس کا جواب آپﷺ نے اور آپﷺ کے اہل خانہ نے اثبات میں دیا۔ یہ شادی گرچہ عجیب تھی، آپﷺ کنوارے نوجوان تھے اور خود سے دوگنا بڑی عورت سے نکاح فرما رہے تھے۔

لیکن اگر ہم نبی ﷺ کی زندگی کے اس پہلو پر غور کریں کہ آپ ﷺ یتیم تھے اور دنیا میں ایک عالمی مشن کی تکمیل کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اس مشن کی دو تین بڑی شقیں تھیں، ایک دنیا کے تمام انسانوں کو اللہ سے جوڑنا، دوسرے دنیا کے تمام انسانوں کو باہم دگر متحد کرنا اور تیسرے دنیا میں امن وامان کی فضا پیدا کرنا۔ اگر قرآن کی تعلیمات کو سامنے رکھیں تو ان تین بڑی مہمات کا پتہ چلتا ہے جنہیں آپ ﷺ کو بہت ہی مختصر مدت یعنی کل بیس بائیس سال کے عرصے میں مکمل کرنا تھا یا کم از کم ان کے لیے روٹ میپ تیار کر کے امت کو دینا تھا۔

اگر اس پہلو سے غور کریں تو معلوم ہو گا کہ زندگی کے اس پڑاؤ پر آپ ﷺ کو حضرت خدیجہ جیسی شرک حیات کی بہت زیادہ ضرورت تھی، اس وقت آپ کو ایک ایسی خاتون کی ضرورت تھی جو آپ کا سہارا بھی بن سکے۔ حضرت خدیجہ دنیاداری کو بہت اچھی طرح سمجھتی تھیں، وہ ایک کامیاب تجارت پیشہ عورت تھیں اور صاحب حیثیت بھی تھیں، وہ آپ ﷺ سے صرف بطور ایک شوہر کے ہی پیار نہیں کرتی تھیں، بلکہ وہ آپ کے مشن میں بھی برابر کی شریک تھیں، انہوں نے ہر حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کا تعاون کیا۔

آپ ﷺکی آخری زوجہ حضرت عائشہ ؓعنہا تھیں۔ اس وقت آپ کو نبوت مل چکی تھی اور آپ دین اسلام کی تبلیغ میں پوری طرح مصروف تھے، قرآن نازل ہو رہا تھا اور آپ ﷺاس کی حفاظت، وضاحت اور تعلیم و تبلیغ کے کاموں میں لگے ہوئے تھے، اس وقت آپ کو ایک ایسی ہستی کی ضرورت تھی جس کی طرف آپ اپنے علم کا بڑا حصہ منتقل کرسکیں اور جو آپ کے دینی و تبلیغی مشن کی سرگرمیوں، زندگی کے نشیب و فراز اور ظاہر و باطن کے اعمال کی گواہ بن سکے، پھر وقتاً فوقتاً ان دونوں حوالوں سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرسکے اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد ایک عرصے تک قوم کی رہنمائی کرسکے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓعنہا نے یہ تمام ذمہ داری بڑی خوبی کے ساتھ نبھائیں۔ دین کا نصف علم آپ ہی کے توسط سے امت کو ملا ہے۔ پھر آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی امت کی دینی و علمی رہنمائی کرتی رہیں۔

شادی کے لیے یہ ایک معیاری عمر ہے۔ مردوں کے لیے شادی کی یہ عمر اس عمر سے بہت معیاری ہے جو مختلف ممالک کی حکومتوں نے مقرر کر رکھی ہے اور اس سے بھی بہت بہتر اور معیاری ہے جو دنیا کے مختلف سماجوں اور قوموں میں رائج رہی ہے۔ شادی کی یہ عمر موجودہ زمانے میں بھی ہر اعتبار سے معیاری عمر ہے، تعلیم کے لحاظ سے بھی، معاشی پہلو سے بھی اور گھر گرہستی کے اعتبار سے بھی۔

2۔ رسول اللہ ﷺ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی۔ اور یہ عمر کسی بھی عالمی مشن کی بنیاد ڈالنے اور اسے لیڈ کرنے کی مثالی عمر ہے۔ لہذا یہ اچھا ہو گا کہ کسی بھی تحریکی، سیاسی اور علمی و فکری قیادت کے میدان میں اترنے والوں کی عمر کم ازکم چالیس سال ہو۔ کیونکہ چالیس سال کی عمر میں فکر پختہ ہوجاتی ہے، علم میں رسوخ آ جاتا ہے اور نو جوانی کی بے باکی، منفعل مزاجی اور جوش و جنون پر سنجیدگی و متانت اور غوروخوض کی عادت غالب آجاتی ہے، اس عمر میں آدمی کا شعور بہت زیادہ بیدار ہوجاتا ہے اور یکساں نظر آنے والی چیزوں میں فرق کرنے اور مختلف دکھائی دینے والی چیزوں میں یکسانیت تلاش کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔

اس عمر کے ہر ہوشمند انسان کو پتہ ہوتا ہے کہ اسے کب چلنا ہے اور کب ٹھہرنا ہے، کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے۔ کم عمر لوگ ذہین ہوسکتے ہیں، ان کی یاد داشت اچھی ہو سکتی ہے، وہ بہت فعال بھی ہوسکتے ہیں، وہ کئی میدانوں میں عالمی ریکارڈ بھی بنا سکتے ہیں، ان میں سے کئی کو نوبل پرائز بھی مل سکتا ہے، اسپورٹس میں اور فلموں میں تو بیس پچیس سال کے نوجوان کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں، مگر ان کے اندر بہر حال میچورٹی کی کمی ہوتی ہے، وہ ابھی زندگی سے سیکھ ہی رہے ہوتے ہیں، ان کا مطالعہ کم اور ناقص ہوتا ہے، اس لیے اگر وہ مذہبی و سیاسی قیادت کی راہ پر آنا چاہتے ہیں تو انہیں مزید میچور ہونے کا انتظار کرنا چاہیے، جب فکر میں گہرائی پیدا ہو جائے، علم میں رسوخ حاصل ہو جائے اور فیصلے لینے اور اقدامات کرنے کی صحیح سوجھ بوجھ پیدا ہو جائے تو انہیں اس میدان میں آنا چاہیے۔

3۔ آپ ﷺ ایک عالمی مشن کی کامیاب قیادت فرما کر تریسٹھ سال کی عمر میں اپنے رب کے پاس چلے گئے۔ دنیا کو خیر آباد کہنے کی یہ عمر بھی بڑی معیاری عمر ہے، اس عمر میں آدمی اگر دنیا سے رخصت ہو جائے تو بڑھاپے کی سختیوں سے بچ جاتا ہے اور اکثر و بیشتر چلتے پھرتے دنیا سے رخصت ہوتا ہے، اگر آدمی صحت مند ہو اور ساٹھ پینسٹھ سال کی عمر میں فطری موت مرے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ راضی خوشی دنیا سے جا رہا ہے۔ یوں تو لمبی عمر بھی اللہ کی ایک نعمت ہے، مگر رسول اللہ ﷺ بڑھاپے سے پناہ مانگا کرتے تھے۔

اس لیے یہ بہتر ہے کہ ہم سب بھی کم از کم ارذل عمر سے پناہ مانگتے رہیں۔ اور جب رسول اللہﷺ کی وفات کی عمر کو کراس کر جائیں یا کم از کم پینسٹھ وستر سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو مشن اور قیادت والے کاموں کو دوسروں کے سپرد کر دیں۔ پھر اگر اللہ نے صحت و ہمت عطا کی ہوئی ہے اور ہم کام کر سکتے ہیں تو دیگر پلیٹ فارم سے رہنمائی کا فریضہ انجام دیں مگر ملی و قومی قیادت سے دستبردار ہوجائیں۔

میں جو یہ سب باتیں کر رہا ہوں یہ فتویٰ کی سی حتمیت نہیں رکھتیں، اس لیے انہیں حلال و حرام اور جائز و ناجائز کے بیانیے کے ساتھ معرض اظہار میں نہیں لایا جاسکتا، بلکہ ان کا تمامتر تعلق امت کی سماجی و سیاسی سوجھ بوجھ پر منحصر ہے اور قیادت و رہنمائی کے اسرار و رموز کے افہام و تفہیم کے قبیل کی باتیں۔ اس لیے انہیں صریح حکمیہ بیانیے کے ساتھ نہیں لکھا جاسکتا کہ چالیس سال پورے ہوتے ہیں آدمی تخت نشیں ہو جائے اور تریسٹھ سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے وہ تخت سے اتار دیا جائے۔ اس کا فیصلہ تو وقت، حالات، نتائج، امکانات اور مواقع ہی درست طور پر کر سکتے ہیں کہ قومی و ملی اور سیاسی و اجتماعی قیادت میں کون سی چیزیں اور عمل کب اور کیسے اہم ہو جاتے ہیں اور کون سے اعمال اور چیزیں کب اور کس طرح غیر اہم ہوجاتی ہیں۔ یہ صرف محسوس کرنے کی چیزیں ہے۔

نبی کریم ﷺ کی عمر کے یہ تین اسٹیج یا مراحل بہت اہم ہیں اور ان میں ہمارے لیے بہت سے سبق ہیں۔ یوں تو رسول اللہﷺ کی بہت سی صفات عالیہ تھیں جنہیں اپنانے اور جن کی نقل کرنے کی باقی انسانوں میں نہ طاقت ہے اور نہ ہی ان سے ان کی نقل مطلوب ہے، جیسے آپ ﷺ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور نہ ہی کسی عالم سے درسیات کا سبق لیا تھا۔ یہ چیز کسی بھی امتی سے مطلوب نہیں ہے۔ آپﷺ کی سیرت میں اور بھی کئی چیزیں ہیں، مثالیں اور نمونے ہیں کہ ان کی نقل کرنے سے انسان کل بھی عاجز تھا اور آج بھی عاجز محض ہے۔

اگر آپ قیادت و رہنمائی کی اہمیت کو اور نزاکتوں کو سمجھتے ہیں بلکہ خود کو اس کا اہل بھی سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کی دینی و دنیوی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیں تو آپ نبیﷺ کی زندگی کے ان تینوں مراحل یا اسٹیجز پر ضرور غور کریں اور سیادت و قیادت سے متعلق ہر کاوش اور جد و جہد کو ان تینوں شرائط کے ساتھ باندھ دیں، یا اس کی کوشش کریں کہ امت کا نظم اجتماعی، دینی و تعلیمی اور سیاسی و معاشی نظم، سب کا سب اسی پیٹرن سے مربوط ہو جائے۔

موروثیت ختم ہو جائے اور نبی ﷺ نے جس عمر میں شادی کی، جس عمر میں کار نبوت کی سرگرمیاں شروع کیں اور پھر جس عمر میں اپنا کام پورا کر کے دنیا سے رخصت ہوئے، پھر اگلے مرحلے پر حضرت ابوبکر صدیق ؓآپ ﷺ کے جانشین ہوئے، وہ گرچہ آپﷺ کے یار غار تھے، رشتہ دار تھے مگر خاندان سے نہیں تھے۔ ہمارا سارا نظام بھی اسی طرح مربوط ہو جائے۔ ایسا نہ ہو جیسا شہنشاہی دور میں ہوا، پھر ہزاروں سال تک ہوا کہ والد کی جگہ ہرحال میں بیٹے ہی کو ملی، خواہ وہ نا اہل اور نابالغ ہی کیوں نہ ہو، کتنا عجیب ہے کہ شہنشاہی عہد میں ناسمجھ بچوں کو بھی بادشاہ بنایا گیا اور پھر یہ بھی ہوا کہ موت ہی نے انہیں ہاتھ پکڑ کر تخت سے اتارا۔

کبھی دشمن ان کے بیڈ روم میں دندناتا ہوا در آیا اور کبھی وہ سوئے تو بیدار نہ ہوئے۔ اگر آپ خود کو قیادت کا اہل سمجھتے ہیں تو آپ کی محبت عہدے اور مناصب سے نہ ہو اور تخت و تاج سے نہ ہو بلکہ مشن سے اور رہنمائی سے ہو۔ اگر مشن عہدے اور تخت و تاج کے بغیر بھی مکمل ہو جائے تو آپ با نصیب ہیں اور اگر مشن تخت و تاج اور عہدوں کے بعد بھی نا مکمل رہے تو یہ بد نصیبی ہے، خود آپ کی بھی اور قوم کی بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments