فزکس کا نوبل انعام برائے 2022 ء


اس سال کا فزکس کا نوبل انعام تین لوگوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں پہلے الیں آسپے (Alain Aspect) ہیں جو 1947 میں فرانس میں پیدا ہوئے اور پیرس سوڈ یونیورسٹی، اورسے فرانس سے انہوں نے 1983 میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ آج کل وہ ایکول پولی ٹیکنیک فرانس میں فزکس کے پروفیسر ہیں۔ دوسرے جان ایف کلاؤزر (John F Calusar) ہیں جو 1942 میں پاسیدینا کیلے فورنیا میں پیدا ہوئے اور 1969 میں کولمبیا یونیورسٹی نیویارک امریکہ سے پی ایچ ڈی کی۔ اور کیلے فورنیا ہی میں کلاؤزر اینڈ ایسوسی ایٹس نامی ایک کمپنی میں فزکس کے محقق کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ تیسرے آنتون زائلنگر (Anton Zeilinger) ہیں جو آسٹریا میں 1945 میں پیدا ہوئے اور 1971 میں ویانا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی جہاں وہ آج کل پروفیسر ہیں۔ یہ نوبل انعام انہیں ”انٹینگلڈ فوٹونز کے تجربات، بیل عدم مساوات کی خلاف ورزی کو قائم کرنے اور کوانٹم انفارمیشن کی سائنس کی بنیاد ڈالنے“ پر دیا گیا ہے۔ اس مختصر مضمون میں ہم اس شعبے کے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

کوانٹم میکانیات کی تشکیل کے وقت یعنی بیسویں صدی کی دوسری سے تیسری دہائی میں دنیا بھر کے طبیعات دانوں میں واضح طور پر دو طرح کی تقسیم سامنے آ گئی تھی۔ ایک گروہ جن میں نیلز بوہر اور ہائزنبرگ نمائندہ تھے اور دوسری جانب شروڈنگر اور آئن سٹائن تھے۔ بوہر اور آئن سٹائن چونکہ اس وقت تک باقاعدہ فزکس میں جدید نظریات کے پیش رو ہونے کی وجہ سے قدآور شخصیات بن چکی تھیں، اس لئے بسا اوقات تاریخ دان اسے بوہر۔ آئن سٹائن مباحث کے نام بھی یاد کرتے ہیں۔

بوہر کے نزدیک کوانٹم میکانیات کی تشریح جو ہائزنبرگ اور میکس بورن کی طرف سے پیش کی گئی تھی وہ سائنسی جواز رکھتی تھی اور اسے باقاعدہ سائنس تصور کیا جا سکتا تھا۔ اس تشریح میں ایک مسئلہ یا ابہام یہ تھا کہ حقیقت کا ادراک جیسی کہ وہ ہے، اس بات پر منحصر ہے کہ اس کا مشاہدہ کیا جائے۔ اس کے پس پردہ منطقی اثباتیت (Logical Positivism) کا فلسفہ کام کر رہا تھا جس کے مطابق معنی خیز بات وہی ہے جو مشاہدے میں آ سکے اور یا منطقی اعتبار سے ثابت شدہ ہو۔

اسی لئے ہائنبرگ اور بوہر وغیرہ چاہتے تھے کہ صرف مشاہدہ ہو سکنے والی شے کو حقیقت مان کر کوانٹم میکانیات کی تشریح کی جائے۔ جیسے کہ ویوفنکشن (Wave Function) ، جو کہ اس گروہ کے مخالف شروڈنگر کی دریافت ہے، چونکہ خود مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا اس لئے اس کو حقیقت کا ترجمان قرار دینے والی کسی بات میں کوئی اہمیت تب تک حاصل نہ ہوگی جب تک کہ اس کا مشاہدہ نہ کر لیا جائے لیکن مشاہدہ کرنے سے یہ ویوفنکشن اپنی کسی ذیلی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے۔

لیکن اس پیمائش کے عمل سے کسی خاص متغیر (variable) کی قیمت میں ایک عدم تیقن پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے ہائزنبرگ نے ”اصول عدم تیقن“ پیش کیا (Uncertainty Principle) جو کچھ خاص متغیرات کے جوڑوں کو ایک باہمی عدم تیقن کی صورت میں باندھ دیتا ہے۔ اس طرح کہ ایک کی قیمت اگر یقین سے معلوم کر بھی لی جائے (جیسے کہ الیکٹران کی پوزیشن) تو اس کے دوسرے فرد میں عدم تیقن زیادہ ہوجاتا ہے (جیسے کہ الیکٹران کی رفتار) ۔ اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں حقیقت کے تمام پہلوؤں کا مکمل یقینی ادراک نہیں ہو سکتا۔ اس سے بوہر اور ہائزنبرگ حقیقت پسندی کی ضد کی حمایت میں چلے گئے اور یہ کہنے لگے کہ حقیقت وہی ہے جو براہ راست تجربے سے سامنے آئے۔ یوں تین صدیوں بعد مغرب میں پھر بارکلے (Berkeley) کی صدا سنائی دینے لگی۔ (جنگل میں درخت گرے اور مجھے اس کی آواز نہ سنائی دے یا دیکھ نا سکوں تو گویا درخت گرا ہی نہیں ) ۔

بوہر اور ہائزنبرگ کے برعکس آئن سٹائن کا خیال تھا کہ حقیقت ایک کل کی مانند ہے اور مطلق طور پر قابل فہم ہے یعنی علم مشاہد پر منحصر نہیں ہے۔ ویو فنکشن کی پیمائش سے اس کا اپنی کسی ذیلی شکل میں تبدیل ہونا دراصل ایک ایسا عمل ہے جس سے کچھ معلومات ہماری نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ معلومات فی نفسہ فطرت میں موجود ہی نہیں یا کہ پیمائش سے قبل یہ معدوم تھی۔ گویا ہائزنبرگ کے اصول عدم تیقن کی فزکس میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ہاں اگر کہیں پیمائش میں عدم تیقن پایا بھی جاتا ہے تو اس کی وجہ فطرت نہیں بلکہ ہمارے آلہ جات میں نقص یا شماریاتی انحراف (Statistical Uncertainty) ہے۔ فطرت اپنی ذات میں مکمل طور پر قابل فہم ہے۔ لہذا بوہر اور ہائزنبرگ کا کوانٹم نظریہ نامکمل (Incomplete) ہے۔ منطقی اعتبار سے مسئلہ یہ بنتا ہے کہ کیا دیے گئے بدیہیات (axioms) سے تمام منطقی حقائق ( لسانی اعتبار سے کسی ترکیب کے جملہ معنی) اخذ کیے جا سکتے ہیں؟ یا معنی نامکمل رہتا ہے؟ اس ضمن میں ڈیوڈ ہلبرٹ (David Hilbert) کے ریاضیاتی منطق پر دیے گئے خطابات کو دیکھنا باعث دلچسپی ہے۔ یاد رہے کہ کوانٹم نظریہ کی ریاضیاتی بنیاد ہلبرٹ کی ریاضی سے نکلتی ہے۔

1930 ء کی سالوے کانفرنس کے دوران آئن سٹائن نے ایک خیال پیش کیا۔ اگر ایک ڈبے میں ایک گھڑی کو کسی ایٹم کے ساتھ رکھ دیا جائے جو کہ ایک متعین توانائی (definite energy) کے فوٹان کو خارج کرتا ہو، تو یہ ممکن ہے کہ اس گھڑی پر اس متعین توانائی کے فوٹان کے اخراج کا وقت بھی متعین ہو سکے۔ یعنی ایک ہی وقت میں توانائی اور وقت مکمل طور پر متعین ہوسکتے ہیں جو کہ ہائزنبرگ اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس خیال کو اپنے دو شاگردوں پوڈولسکی (Podolsky) اور روزن (Rosen) کی مدد سے آئن سٹائن نے ایک تحقیقی پرچے کی شکل میں 1935 ء کو شائع کروایا۔ یہ پرچہ کوانٹم نظریہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ اہم اور مشہور ثابت ہوا اور اسے ”ای پی آر پیراڈاکس“ (EPR Paradox) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس پرچے کا بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ مادی حقیقت کے ہر عنصر کو ایک مادی نظریے میں جگہ ملنی چاہیے۔ منطقی طور پر ان کے دلائل کچھ یوں تھے :

1۔ کوانٹم نظریہ ایک نامکمل نظریہ ہے۔ (یعنی کہ یہ مکمل مادی حقائق کا نمائندہ نہیں ہے )

2۔ عدم مطابقت رکھنے والی مقداریں بیک وقت حقیقی نہیں ہو سکتیں۔ (یہاں حقیقی سے مراد تجربے میں کسی مقدار کی حاصل ہونے والی متعین قیمت ہے )

اگر اول درست ہے تو ثانی اس کا نتیجہ ہے۔ اور اگر اول درست نہیں تو ثانی بھی درست نہیں ہے۔ یہاں سے وہ حقیقت کے متعلق اپنا جواز پیش کرتے ہیں کہ اگر کسی سسٹم میں بیرونی طور پر دخل دیے بغیر کسی مادی مقدار کو مکمل متعین کر لیا جائے (یعنی کہ اس کی پرابیبلٹی سو فیصد ہو) ، تو وہ مقدار حقیقت کا ایک عنصر کہلائے گی۔ اب چونکہ کوانٹم نظریے کے مطابق اگر دو فوٹونز کسی وقت میں ایک دوسرے کے قریب کسی تعلق میں بندھے ہوئے تھے، یعنی اینٹگلڈ تھے، تو انہیں جتنا بھی ایک دوسرے سے دور کر دیا جائے ان کے درمیان یہ تعلق ختم نہیں کیا جا سکتا۔

یعنی ایک وقت میں انٹیگل ہونے والے دو ذرات ہمیشہ انٹیگل رہ سکتے ہیں۔ (اسکی ایک مثال یوں لیجیے کہ ایک ہی شے کو اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اس کے دونوں اجزاء میں قائم تعلق علیحدہ ہونے کے بعد بھی موجود رہے گا، جیسے کسی صفر بار کے ذرے کو دو مخالف برقی بار یعنی الیکٹران نفی اور پوزیٹران مثبت میں تقسیم کرنے کے باوجود سسٹم کا ٹوٹل بار صفر ہی رہے گا ) ۔ دور لے جانے کے بعد اب اگر ان میں سے کسی ایک پر تجربہ کر کے کسی مادی مقدار کی پیمائش کی جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم نے دوسرے پر ”تجربہ کیے بغیر“ اس کی مادی مقدار کا بھی تعین کر لیا ہے۔ گویا ما قبل تجربہ ہی پیمائش ہو گئی اور دونوں کے اجزائے حقیقی متعین کر لئے گئے۔ پس ماقبل پیمائش بھی مقداریں حقیقی ہوتی ہیں نا یہ کہ ویوفنکشن کی پیمائش انہیں حقیقی بناتی ہے۔ یہاں سے تناقض کی ابتداء ہوتی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت کسی شے کی رفتار کو روشنی کی رفتار سے زیادہ ہونے کی اجازت نہیں دیتا، تا یہ کہ وہ قانون علیت (causality) کو توڑ دے۔ لیکن مندرجہ بالا صورت میں ایک فوٹان کی پیمائش نے دوسرے کی مادی حالت پر لمحہ بھر میں اثر کیا ہے جس کا معنی یہ ہوا کہ پہلے فوٹان کی معلومات دوسرے فوٹان تک روشنی کی رفتار سے تیز ہو کر پہنچی ہے! اب فوٹان تو خود روشنی کا ذرہ ہے تو وہ روشنی سے زیادہ تیز کیسے ہو سکتا ہے؟

یہ ایک غیر مقامی (non local) مظہر ہے لیکن کوانٹم نظریہ چونکہ مقامیت (locality) پر قائم ہے اس لیے اضافیت (یا قانون علیت ) سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ کوانٹم نظریہ میں روشنی کی رفتار کے متعلق کوئی حد قائم نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں قانون علیت کارگر ہے۔ یہی تناقضہ ہے جسے ای پی آر پیراڈاکس کہتے ہیں۔ یعنی کوانٹم نظریہ نامکمل ہے اس لیے حقیقت کے ایک عنصر ( یعنی علیت) کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ کوانٹم نظریہ ایک دوسرے اہم نظریے یعنی اضافیت سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اس تناقض کو حل کرنے کے لئے آئن سٹائن نے کچھ اضافی پیرامیٹرز کو کوانٹم نظریہ میں داخل کرنے کی تجویز پیش کی جنہیں اب ”مخفی متغیرات“ (Hidden variables) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا مفروضہ یہ تھا کہ ہر شے کے ساتھ کچھ مخفی متغیرات موجود رہتے ہیں جو کسی تجربے میں متعین ہوتے ہیں۔ یہ متغیرات مقامی ہوتے ہیں۔ مختلف تجربات میں ہم ان متغیرات کو جان سکتے ہیں۔ یوں آئن سٹائن نے حقیقت پسندی اور مقامیت کے درمیان مطابقت قائم کرنے کی کوشش کی۔

(بوہر کو شاید یہ فلسفہ نہیں بھاتا تھا اور وہ غیر مقامیت اور عدم مطابقت کا حامی تھا اور ایسے ہی ہائزنبرگ جو کہ منطقی اثباتیت کا دلدادہ تھا) ۔ بوہر اور ہائزنبرگ کی عدم تعین کی میکانیات اور آئن سٹائن کے مخفی متغیرات دونوں ایک نظریاتی یا مجرد بحث کے طور پر مزید تین دہائیوں تک چلتے رہے اور اس میں ہر دور کے بڑے دماغوں نے دونوں میں کسی ایک طرف کو جھکاؤ ظاہر کیا۔ لیکن اصل چیلنج تو کسی ایسے تجربے کی صورت گری کرنا تھا جس سے ان دونوں کے مابین کوئی فیصلہ کن نتیجے تک پہنچا جا سکے۔

1964 ء میں آئرلینڈ کے جان بیل (John S Bell) نامی طبیعات دان نے ایک ایسی تجویز پیش کی جو اس مسئلے کو تجرید سے تجربے تک لے جانے میں مددگار ثابت ہوئی۔ فرض کریں کہ کوانٹم ذرات اضافیت سے مطابقت رکھتے ہیں۔ تو ہم ایک تجربہ کر سکتے ہیں کہ ایک جسم کے دونوں سمت ایک قطار میں دائیں اور بائیں دو ایک جیسے آلات یا انٹینا نسب کیے جائیں۔ اب ایک ہی وقت میں دونوں جانب دو ذرات بھیجے جائیں جو دائیں اور بائیں انٹینا پر موصول ہوں اور وہاں ان کی پیمائش کی جائے۔

یہ تجربہ کئی بار دہرایا جائے اور ہر دفعہ اس کے نتائج دونوں جانب جمع کر لئے جائیں۔ تو بیل کے مطابق ان نتائج کے درمیان ایک خاص عدم مساوات (Bell inequality) کا تعلق ہو گا۔ جب تک ہم مقامیت کی شرط قائم رکھیں گے تب تک یہ عدم مساوات قائم رہے گی۔ اگر کسی تجربے میں اس عدم مساوات کی خلاف ورزی ہو جائے، وہاں ہم مقامیت کی نفی اور بوہر کے کوانٹم نظریہ کا اثبات کر سکیں گے۔ اسے بیل تھیورم (Bell Theorem) کہتے ہیں۔

بیل تھیورم کی بنیاد پر ہمارے اس سال کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان جان کلاؤزر نے دو فوٹونز کی پولرائزیشن کو استعمال کرتے ہوئے 60 ء اور 70 ء کی دہائی میں تجربات کیے۔ ان تجربات نے ثابت کیا کہ دراصل بیل کی عدم مساوات کی خلاف ورزی (violation of Bell inequality) دو ذرات کے انٹینگلڈ ہونے سے ہوجاتی ہے۔ یعنی ان تجربات نے آئن سٹائن کی مقامیت اور مخفی متغیرات کی نفی کی اور بوہر کی کوانٹم کے درست ہونے کے پہلے شواہد مہیا کیے۔ لیکن ان تجربات میں استعمال ہونے والے آلات اس قدر جدید نہیں تھے کہ وہ نتائج کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر سکیں اور یوں ایک ابہام موجود رہتا تھا کہ شاید تجربے میں صرف وہی نتائج زیادہ مل رہے ہیں جہاں مقامیت کی نفی ہو رہی ہے۔

اس ابہام کو دور کرنے میں ہمارے دوسرے نوبل انعام یافتہ سائنسدان الین آسپکٹ نے مدد کی اور انہی تجربات کو نئے آہنگ سے ترتیب دیا اور مزید بہتر انداز سے فوٹانز کی پولرائزیشن کی پیمائش کی اور دوبارہ کلاؤزر کے نتائج کو تقویت ملی۔ اس کے بعد ہمارے تیسرے نوبل انعام یافتہ سائنسدان انٹن زیلنگر نے دو سے زیادہ فوٹانز پر یہی تجربات دہرائے اور پھر سے گزشتہ نتائج ہی ملے۔ جس کے بعد ایک طرح سے بوہر اور ہائزنبرگ کی کوانٹم میکانیات کو تجرباتی جواز مل گیا اور مخفی متغیرات کے مفروضے کو غلط ثابت کر دیا گیا۔ کوانٹم میکانیات واقعی غیر مقامی اور اضافیت ( یا علیت) سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اس کے بعد سے کوانٹم انفارمیشن نامی ایک شاخ نے جنم لیا جس نے اب کوانٹم کمپیوٹر، کوانٹم معلومات کی نئی ٹیکنالوجی، کوانٹم ٹیلی پورٹیشن اور نجانے کتنی اہم دریافتیں سامنے آ رہی ہیں۔

لیکن اس سے آئن سٹائن کے اٹھائے گئے فلسفیانہ سوالات ابھی تک قابل بحث ہیں۔ کیا بارکلے درست ثابت ہو گیا؟ کیا کوانٹم نے حقیقت پسندی کو مات دے دی؟ کیا حقیقت واقعی مشاہد پر منحصر ہے؟ کیا معلومات انٹگلڈ ذرات کے مابین روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز پہنچتی ہے؟ کیا اضافیت کا کلاسیکی قانون علیت فطرت کا اصول ہے یا کہ کائنات کا ایک مظہر جو کبھی لاگو ہوتا ہے کبھی نہیں؟ یا ہمیں ایک نئے سرے سے کائنات کی تشریح درکار ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).