سیاسی اخلاقیات پر مبنی سیاست


پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا مسئلہ اخلاقیات پر مبنی سیاست کا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں سیاست اور جمہوریت کا عمل بغیر کسی سیاسی اخلاقی اصولوں کے بغیر چل سکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ کیونکہ جو بنیادی اصول سیاسی اخلاقی معیارات کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں یا ان کی تشکیل کی جاتی ہے اسی بنیاد پر سیاست اور جمہوریت کی تصویر بھی بنتی ہے۔ لیکن کیونکہ یہاں جو سیاست اور جمہوریت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کو دیکھ کر عملاً ایسا لگتا ہے کہ سیاست سے جڑے اخلاقی اصول ہماری قومی سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ سیاست اور جمہوریت میں ہمیں سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن سیاست پر اخلاقی برتری کے اصول پس پشت چلے گئے ہیں۔ یہ مسئلہ کسی ایک جماعت یا قیادت کا نہیں بلکہ مجموعی طور پر پوری قومی سیاست کی تصویر اسی مسئلہ کے گرد گھومتی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہم نے سیاست سے جڑے اخلاقی اصولوں کو بس اپنے سیاسی نصاب، تقریروں، وعدوں، دعووں اور واعظ تک محدود کر دیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس عملی سیاست سے جڑے معاملات ان اخلاقی اصولوں سے متصادم یا تضادات پر مبنی ہیں۔

حال ہی میں لندن میں وفاقی وزیر مریم اور نگ زیب کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جس طرح سے ان کو کھڑا کر کے سخت تنقید یا نازیبا الفاظ کا تبادلہ کیا گیا اس کی ہر سطح پر مذمت ہونی چاہیے۔ کیونکہ سیاست اور جمہوریت میں اس طرز کے کلچر کی حمایت کسی بھی صورت میں نہیں کی جا سکتی یا نہیں کی جانی چاہیے۔ لیکن یہ واقعہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بھی ماضی اور حال میں ایسے واقعات کی کہانی بھری پڑی ہے جو تواتر کے ساتھ سیاسی کارکنوں، قیادت کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے اس سے بھی سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ منظر نامہ ظاہر کرتا ہے قومی سیاست ابھی بھی سیاسی، جمہوری اور اخلاقی اصولوں کے برعکس ہی آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے ذمہ دار محض جذباتی سیاسی کارکن نہیں بلکہ اس کے اصل ذمہ دار ہمارا سیاسی نظام اور اس کو چلانے والی سیاسی و مذہبی قیادت ہے۔ کیونکہ جو کچھ ہماری سیاسی قیادت خود کر رہی ہے اس کا ہی ہمیں عوامی ردعمل کی صورت میں ایسے منفی مناظر کو دیکھنا پڑتا ہے۔ سیاسی قیادتیں سمجھتی ہیں کہ ان کے حمایت یافتہ سیاسی کارکنوں کا یہ حق اور فرض بھی ہے کہ وہ ان کے سیاسی مخالفین پر جس حد تک منفی تنقید یا تضحیک کی جا سکتی ہے، ضرور کریں۔

لیکن کیونکہ اس وقت پاکستان میں ایک بڑی واضح سیاسی تقسیم ہے اور لوگ اسی تقسیم کی بنیاد پر اپنی رائے بناتے ہیں یا قائم کرتے ہیں۔ اس وقت بھی ایک بڑا طبقہ تحریک انصاف اور ان کے حامیوں پر شدید تنقید کرتا ہے اور یہ تنقید ہونی بھی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارا منفی کھیل محض تحریک انصاف سے جڑا ہوا ہے اور باقی جماعتیں، ان کی قیادت اور کارکن ان تمام معاملات سے بری ہیں۔ تو ایسا نہیں ہے۔ یہ اعتراف کیا جانا چاہیے یہ مسئلہ تمام جماعتوں اور قیادت سمیت کارکنوں کا ہے۔

جو لب و لہجہ ہماری سیاسی قیادت پہلے درجے سے لے کر نچلی درجہ کی قیادت کا ہے وہی لب و لہجہ نیچے سیاسی کارکنوں تک منتقل ہوتا ہے۔ ماضی میں بھٹو مخالفین اور بھٹو حامیوں نے جو کچھ اس ملک کی عملی سطح کی سیاست کے ساتھ طوفان بدتمیزی کی صورت میں کیا وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں سوشل میڈیا نہیں تھا اور نہ ہی اس طرح کا الیکٹرانک میڈیا وگرنہ ماضی کا کھیل آج کے کھیل سے مختلف نہیں تھا۔ یہاں تک کہ جو کچھ اس طوفان بدتمیزی میں ذاتیات پر مبنی کردار کشی جن میں عورتوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا ہماری سیاست کا خاصہ تھا۔

آج بھی عمران خان کے سیاسی مخالفین پی ٹی آئی کی سیاسی خواتین کارکنوں کو جس بڑی عیاشی، فحاشہ اور بدکرداری کے ساتھ جوڑ کر باتیں کرتے ہیں وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے ؑہر کی عورتوں کو بھی معاف نہیں کیا اور ان پر بھی وہ تمام الزام تراشیاں یا کردار کشی کی جو اصولی طور پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مولانا فضل الرحمن تو ان معاملات پر تنقید کرتے ہوئے تمام تر اخلاقی دامن کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور یہ کہانی ایسے فرد کی ہے جو دین اسلام کے نام پر سیاست کرتا ہے۔ ہماری صحافتی سیاسی تقسیم میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس سارے منفی کھیل کا الزام عمران خان پر ڈالتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے یا تو ان کی سیاسی تاریخ عمران خان سے ہی شروع ہوتی ہے اور ان ہی پر ختم بھی ہوتی ہے یا وہ شعوری طور پر کس خاص مقصد کو بنیاد بنا کر ان پر ہی تنقید کرتے ہیں۔

عمران خان سمیت کون سی سیاسی جماعت کی قیادت ہے جس نے اپنے ایسے سیاسی کارکنوں کو جوابدہ بنایا یا ان کا احتساب کیا یا ان کو سزا دی جو سیاسی تنقید میں ہوش کا دامن چھوڑ کر بدتمیزی پر اتر آتے ہیں۔ ایک طرف عوامی سطح پر ان پر تنقید کی جاتی ہے اور دوسری طرف ان کو بلا کر عملاً شاباش دی جاتی ہے تاکہ ان کو زیادہ پذیرائی دی جا سکے۔ کاش کوئی ایسا کمیشن بیٹھے جو آج کے تمام سیاست دانوں کی پہلے اور دوسرے سطح کی قیادت کی تقاریر سنیں اور ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔

محض ایک فرد کو تنقید کا نشانہ بنا کر آپ ان کے خلاف سیاسی اسکور تو کر سکتے ہیں مگر مسئلہ کا حل تلاش نہیں کرسکیں گے۔ اصل میں جب سیاسی قیادت دوسری جماعتوں کی قیادت پر سنگین اخلاق سے گری باتیں کریں گی، الزامات لگائیں گی یا ان کی ذاتیات پر مبنی سیاست کو موضوع بحث بنایا جائے گا تو اس کا ردعمل آنا بھی فطری امر ہے۔ اس لیے یہ جو سب کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار ہم سب ہی اہل سیاست سے جڑے افراد ہیں اور اس کو ایک سطح پر عوامی ردعمل کی صورت میں بھی دیکھنا چاہیے۔

سیاسی جماعتوں میں قیادت کی کوئی تربیت نہیں ہوتی تو سیاسی کارکنوں پر کیسا الزام لگایا جائے۔ جو ارکان اسمبلی مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں یا جن کے پاس وزارتیں ہیں ان کا سیاسی جلسوں میں لب و لہجہ یا ٹی وی ٹاک شوز میں میں مخالفین کے کپڑے اتارنے کے علاوہ کیا کام باقی رہ گیا ہے۔ یہ ہی کھیل میڈیا سے جڑے افراد بھی کر رہے ہیں جن کا مقصد ہنگامہ پیدا کرنا یا اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سیاسی تقسیم میں اور زیادہ شدت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ہمارا میڈیا تو ایسی ہنگامہ خیزی یا طوفان کی بنیاد پر ریٹنگ سیاست کا بھی شکار ہے اور اس کا بھی ہمیں اجتماعی طور پر کوئی حل نکالنا ہو گا۔

سیاسی اور مذہبی قیادتوں سمیت رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ اس کا علاج کسی ایک فرد کے پاس نہیں بلکہ اس پر ایک اجتماعی حکمت عملی یا دانش درکار ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کی سطح پر ایسا کوڈ آف کنڈکٹ پر اتفاق ہونا چاہیے کہ وہ سیاسی تنقید کو ذاتیات پر مبنی سیاست کا حصہ نہیں بنائیں گے اور تنقید اور تضحیک کے درمیان فرق کو سمجھ کر ہی اپنے سیاسی نظام کو آگے بڑھائیں گے۔ اسی طرح سیاسی تقسیم کا شکار ہونے کی بجائے میڈیا سمیت تمام اداروں کو ایسے لوگوں کو ہر صورت جوابدہ بنانا ہو گا جو سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے سیاسی اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔

کیونکہ جب تک سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا یا ان کا محاسبہ نہیں کیا جائے گا ہمارا سیاسی کلچر درست نہیں ہو سکے گا۔ مجموعی طور پر ہمارے کلچر میں کسی کی تضحیک کرنا یا ان پر جھوٹا الزام لگانا یا ان کی کردار کشی خاص طور پر جس انداز میں عورتوں پر کی جاتی ہے وہ قومی مزاج بنتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل کو دی جانے والی تعلیم میں تربیت کا عمل بہت دور کہیں کھو گیا ہے اور یہ عمل محض تعلیمی نظام میں ہی نہیں کھو گیا بلکہ ہمارے خاندانی، گھر اور معاشرے کے نظام سے بھی دور چلا گیا ہے۔

اخلاقی سیاست کی برتری اسی صورت میں ممکن ہوگی جب ہم اس مسئلہ کو سمجھیں کہ اس کا تعلق براہ راست سیاست اور جمہوریت کی کامیابی سے جڑا ہوا ہے۔ پہلے ہم کو خود اپنا احتساب کرنا چاہیے اور پھر دوسروں کا بھی احتساب کریں۔ لیکن یہ کام محض ٹکراؤ، نفرت یا تعصب کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس مسئلہ کو ایک خاص وابستگی کی بنیاد پر دیکھا جائے۔ مجموعی طور پر ہمیں اس پورے نظام کو جو اخلاقیات کے برعکس کھڑا ہے اس کو اسی سیاسی نظام میں موجود سیاسی فریقین میں چیلنج کرنا ہو گا تاکہ ہم ایک اچھی اور صاف ستھری سیاست کی طرف بڑھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments