ابصار فاطمہ کی نئی کتاب: رشتوں اور جذبات کی نفسیات


آغاز ہوتا ہے کتاب کے ابتدائی صفحات پر درج ایک سوال سے کہ

” ہم رشتوں کی اہمیت کا صرف دعویٰ کرتے ہیں یا واقعی ہمیں احساس ہے کہ ہمارے اردگرد رشتے ہماری بقاء کے لیے کتنے ضروری ہیں؟“

ابصار فاطمہ کی کتاب ”رشتوں اور جذبات کی نفسیات“ ایک ماہر نفسیات کا بہترین تحفہ ہے۔ یہ چھوٹی سی کتاب پرسکون زندگی گزارنے کے بڑے بڑے راز سمیٹے ہوئے ہے۔ شہد کی مکھی کی مثال سے ایک چھوٹی سی مخلوق کے پوری دنیا کی بقاء میں اہم کردار ہونے کی وضاحت کے ساتھ معاشرتی زندگی میں چھوٹے چھوٹے انسانی تعلقات و معاملات کی اہمیت کو بخوبی اجاگر کیا گیا ہے۔ کتاب پڑھتے ایسا لگتا ہے جیسے ابصار صاحبہ آپ سے باتیں کر رہی ہیں اور عام الفاظ میں جذباتی صحت کا فلسفہ سمجھا رہی ہیں۔

مشکل ٹرمینالوجی سے اجتناب برتتے ہوئے کسی بھی شخص کی سمجھ میں آنے والے انداز میں نفسیاتی پیچیدگیوں اور مختلف حالات میں طرح طرح کے سماجی رویوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ والدین اور اولاد کے جذباتی تعلق سے لے کر، میاں بیوی اور اساتذہ شاگردوں کے جذباتی تعلق تک عمدگی سے دونوں اطراف سے دہرائے جانے والی غلطیوں کی نہ صرف نشاندہی کی گئی ہے بلکہ ان غلطیوں کی بجائے جن مناسب رویوں کو اپنا کر مسائل سے دور رہا جا سکتا ہے ان رویوں پر بھی تفصیل سے بات کی گئی ہے۔

اس کتاب کی ایک قابل تعریف بات یہ بھی ہے کہ ابصار صاحبہ نے کہیں پر بھی توازن خراب نہیں ہونے دیا۔ انتہائی مدلل انداز میں دونوں اطراف کے حالات کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب کے مضامین معاشرے میں رائج غلط طریقہ کاروں کو ٹکر دیتے ہیں۔ جیسے والدین کو ”سوپر نیچرل“ فگر بنا دینے کا رواج۔ جس سے وہ ہر طرح کے احتساب سے ممتاز ہوتے ہیں۔ حالانکہ اولاد کو دنیا میں لانے میں کیا اولاد کی اپنی مرضی شامل تھی؟ یہ مرضی اور فیصلہ والدین کا تھا۔

اس لیے اولاد کی تمام ابتدائی مالی و معاشرتی ضروریات کے ساتھ ساتھ جذباتی ضروریات پوری کرنا والدین کا ”احسان“ نہیں ”فرض“ ہے۔ جسے بطور احسان اولاد کے منہ پر مارا جاتا ہے اور اولاد پیدا کرنا ہے جانے کتنا بڑا کارنامہ دکھایا جاتا ہے۔ چاہے وہی اولاد والدین کے اور دوسروں کے کئی غلط فیصلے بھگتتی رہی ہو۔ یوں ”سوپر نیچرل“ کرداروں کو جب سائنسی انداز میں چیلنج کیا جائے تو یقیناً احتساب کے دروازے کھلتے ہیں اور ہم بہتری کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف وہ مختلف صورتوں میں اولاد کے رویوں کی بھی نشاندہی کرتی ہیں۔

ہمارے ہاں مشہور ہے کہ نکاح سے خود بخود دلوں میں محبت کا سیلاب آ جاتا ہے گویا کہ آسمانوں پر ڈیوٹی دیتے فرشتے بے تاب ہوں کہ کب کسی کاغذ پر دستخط ہوں اور زبانیں ایک لفظ تین مرتبہ دہرائیں اور ہم محبتوں کے سیلاب بھیج دیں۔

ابصار فاطمہ اپنی کتاب میں شادی کے ادارے کے نفسیاتی پہلوؤں کو زیر بحث لائی ہیں۔ بطور ماہر نفسیات وہ کسی بھی جوڑے میں ڈائریکٹ ازدواجی تعلق کی بجائے پہلے دوستانہ اور صحت مند جذباتی تعلق کی اہمیت کو اجاگر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

تعلیمی اداروں اور اساتذہ اور شاگردوں کے درمیان اچھے انٹر ایکشن پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ رٹے اور انتہائی سخت قوانین کا بچوں کے سیکھنے کے عمل پر منفی اثر اور اس کے متبادل راستے سے متعارف کرایا گیا ہے۔

ابصار فاطمہ میرے پسندیدہ لکھاریوں میں سے ہیں۔ ان کی تحریروں میں توازن اور دلیل دونوں دکھائی دیتے ہیں۔ مشکل موضوعات پر بھی عمدہ الفاظ کے انتخاب سے آرام سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ جس سے ان کے قاری آسانی سے ان کے نکات سمجھ پاتے ہیں۔ میں ابصار صاحبہ کو اس قیمتی کتاب کو لکھنے اور شائع کرانے پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ یہ کتاب انسانیت کو ایک ذہین ماہر نفسیات کا خوبصورت تحفہ ہے۔ ایسی لکھاری خواتین اپنی ذہانت سے پدرسری نظام کے قائم کردہ فضول تصورات کہ ”عورت آدھی عقل والی ہوتی ہے“ کا منہ توڑ جواب ہیں۔ کیسے عمدگی سے مشکل فلسفوں کو سمیٹتی ہیں۔ جیتی رہیں ابصار!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments