تیرا تو رنگ گورا ہے۔۔۔


یہ تحریر پڑھتے ہوئے خیال آیا کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کی دل آزاری اور رسوا کرنے کا کوئی بھی موقع ضائع نہیں جانے دیا جاتا بلکہ کوشش کی جاتی ہے کہ اس طرح کی ”ہراسانی“ اور ”تشدد“ کو نارملائز کیا جائے۔

جنوبی ایشیا کی زیادہ تر آبادی کا رنگ ”گندمی“ یا ”سانولا“ ہے کچھ لوگ زرد اور کم لوگ ایسے ہیں جن کی رنگت ”گوری“ ہو۔ لیکن نا جانے ہماری اور بھارت کی فلم انڈسٹری کو کیا سوجھی کہ ہیروئن کے لئے ”مثالی“ رنگت ”گوری رنگت“ ٹھہری، ہو سکتا ہے کہ نو آبادیت کا اثر ہو لیکن اب تو پون صدی بیت چکی لیکن یہ اثر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔

دوسرا اہم سوال ہے کہ ہیرو کے لئے مثالی رنگت ”گوری رنگت“ کیوں نہیں؟ اب ذکر کچھ ایسے گانوں کے بول کا جن میں ”گوری رنگت“ کو خوبی کے طور پر پیش کیا گیا ہے یا پھر دوسرے الفاظ میں خوبصورتی کا معیار قرار دیا گیا ہے۔

1۔ گورے رنگ کا زمانہ ہو گا نہ کبھی پرانا
2۔ گورے گورے مکھڑے تے کالا چشمہ
3۔ گوری ہیں کلیاں تو لے دے مجھے
4۔ یہ کالی کالی آنکھیں یہ گورے گورے گال
5۔ گوری تیرے پنگھٹ سے
6۔ چرا کر دل میرا گوریا چلی

اس کے علاوہ ان گنت گانے ایسے ہیں جن میں ”گوری رنگت“ کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نفسیاتی طور پر ان گانوں کا ان خواتین پر کیا اثر ہوتا ہو گا جن کی رنگت گوری نہیں؟ عین ممکن ہیں ان خواتین نے اپنی رنگت گوری کرنے کے لئے مختلف ٹوٹکے اپنا کر اپنی جیب اور اپنے چہرے کا ستیاناس کر لیا ہو اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ بیت ساری خواتین تمام عمر اس ”احساس کمتری“ سے باہر نا نکل سکیں ہوں۔

اگر معاشرتی پہلو کا جائزہ لینے کی کوشش کریں تو اس بات کے قوی امکان موجود ہیں کہ سانولی یا گندم رنگت کی خواتین کو معاشرے میں ایڈجسٹ ہونے میں دقت پیش آتی ہے انہیں خواہ مخواہ یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں نا کہیں ان میں کچھ کمی موجود ہے۔ عورت کی عزت نفس کو اس وقت بہت ٹھیس پہنچتی ہو گی جب ”رشتہ بریگیڈ“ زور دے کر مطالبہ کرتی ہیں کہ لڑکی کی رنگت گوری ہونی چاہیے باقی خوبیاں تو اضافی ہیں۔ دنیا ترقی کی منازل طے کر کے مریخ تک پہنچ گئی اور ہم ابھی ”رنگت“ کے کمپلیکس سے باہر نہیں نکل سکے۔

ابھی بھی پرائم ٹائم ڈرامے میں سب سے زیادہ اشتہار ”بیوٹی پروڈکٹس“ کے ہی ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو شبہ گزرتا ہے کہ ہماری میڈیا انڈسٹری عورت کو بھی ایک ”پروڈکٹ“ کے طور پر دیکھتی ہے اور اس سے زیادہ سے منافع کمانے کی کوشش کرتی ہے۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کب تک ہم مختلف حیلے بہانوں سے عورت کی تذلیل کرتے رہیں گے، کب وہ دن آئے گا جب عورت کو ”چیز“ ”جائیداد“ اور ”عزت و غیرت“ کی بجائے انسان سمجھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments