جناب صدر آپ نے فرائض منصبی پورے نہیں کیے


صدر محترم آپ نے 10 اکتوبر کو ایک ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے گویا اس بات کا اعتراف کر لیا کہ بطور صدر پاکستان آپ نے اپنے فرائض منصبی پورے نہیں کیے بلکہ آپ نے اپنے فرائض منصبی سے روگردانی کی۔ میں اس کے لئے یہی نرم سے نرم الفاظ استعمال کر سکتا ہوں۔ آپ نے اس گفتگو میں عمران خان کے سازشی بیانیے کو مشکوک قرار دیا۔ آپ نے نے فرمایا کہ آپ اس سے ”کنوینس“ نہیں ہوئے۔ آپ کے الفاظ ہیں کہ آپ کو یقین نہیں کہ امریکا نے عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے لئے کوئی سازش کی۔

اس واقعے پر آدھا برس گزرنے کو ہے اور آپ اس بات کا اعتراف آج کر رہے ہیں۔ اس تمام عرصے میں عمران خان نے ملک و قوم کو سازشی بیانیے کی سولی پر ٹانگے رکھا اور آپ ایوان صدر میں اپنی شادی کی سال گرہ مناتے رہے۔ آپ نے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا کہ پوری قوم کو ایک من گھڑت کہانی سنا سنا کر گمراہ کیا جا رہا ہے اور دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ اب آپ فرما رہے ہیں کہ اپریل میں جب عمران خان کو نکالا گیا تو عمران خان ”فرسٹریٹ“ ہو گیا۔

اور اب اپنے بیانات کے لئے اسے بطور پارٹی چیئر مین ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ اسمبلی کے بائیکاٹ کا فیصلہ عمران خان کا تھا اگر اس نے مجھ سے پوچھا ہوتا تو میں کچھ اور تجویز کرتا۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ میں ”بروکر“ نہیں ہوں لیکن میں پھر بھی یہ چاہتا ہوں کہ تمام رہ نما لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کے سلسلے میں اتفاق رائے پیدا کریں۔ رہا فوج کا معاملہ تو فوج کو نیوٹرل ہی رہنا چاہیے لیکن اس نیوٹرل کی اصطلاح کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔

آپ نے صریح غلط بیانی کی کہ اس سے قبل کبھی آرمی چیف کی تعیناتی کے لئے حزب اختلاف سے بھی مشورہ کیا گیا۔ آپ اپنے اس دعوے کی کوئی مثال پیش نہیں کر پائے اور آپ اس کے لئے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کی مثال دینے لگے حالانکہ یہ ایک بالکل ہی الگ معاملہ تھا اس موقع پر اپوزیشن کو اس لئے حکومت سے تعاون کرنا پڑ گیا تھا کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یہ معاملہ لٹک جاتا اور آرمی چیف فوج اور حکومت کے لئے سبکی کا سبب بنتا۔

یہ آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ ہر گز نہیں تھا۔ آپ کے منصب کا تقاضا ہے کہ آپ حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان نہ کریں۔ آپ نے بار بار مذاکرات پر بھی زور دیا ہے۔ پارٹی کو اپنا ماضی قرار دے کر ایک اچھا ماضی قرار دیا کاش آپ اسے اپنے لئے قابل فخر بھی قرار دے سکتے۔ آپ نے مزید کہا کہ ایک صدر ہی اختلافات کی خلیج کو پاٹ سکتا ہے۔

صدر محترم آپ نے اس انکشاف پر آدھا سال لگا دیا کہ آپ کو امریکی سازش والی کہانی پر اعتبار نہیں تھا لیکن قوم کو چھ ماہ تک بے وقوف بنایا جاتا رہا اور آپ کو خیال تک نہیں آیا کہ قوم کو حقائق سے آگاہ کرنا آپ کے منصب کا تقاضا ہے۔ آپ نے منصب صدارت سنبھال کر ایک دن کے لئے بھی پاکستان کا صدر بننے کی کوشش نہیں کی آپ کا کردار پی ٹی آئی کے ادنٰی کارکن سے آگے نہ بڑھ سکا آپ فواد چوہدری اور شہباز گل کے مرتبے سے اوپر نہیں اٹھ سکے حالاں کہ آپ سے پہلے اکثر صدور نے یہ منصب سنبھالا تو واضح طور پر اعلان کیا کہ اب وہ پوری قوم کے صدر ہوں گے۔

ہو سکتا ہے اس کے باوجود اس پر کماحقہ عمل نہ ہوسکا ہو لیکن آپ نے تو رسماً بھی ایسا کچھ نہیں کہا۔ اب آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ عمران خان کے امریکی سازش کے بیان پر آپ کو اعتبار نہیں تھا پھر بھی آپ نے اس حقیقت کو چھپایا کیوں کہ عمران خان اس بیانیے سے پوری دنیا اور ساری قوم کو بے وقوف بنا رہا تھا عدم اعتماد کے آئینی عمل سے فراغت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھا اور آپ اس کی خاموش تائید کر رہے تھے۔ آپ نے صرف اس حقیقت کو ہی نہیں چھپایا بلکہ پی ڈی ایم کی حکومت کی راہ میں روڑے اٹکائے سپیکر وزیر اعظم اور گورنروں سے حلف لینے سے گریز کیا۔ آپ نے نئی حکومت کو زچ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، اور معیشت کی بہتری کے لئے کی جانے والی کوششوں کو اپنی پارٹی کے ہاتھوں سبوتاژ ہوتا دیکھتے رہے۔

آج آپ کو لڑکھڑاتی معیشت کی فکر کھائے جا رہی ہے اور آپ اس پر اتفاق رائے کے متمنی ہیں لیکن جب معاملات پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہے تھے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے کا مرحلہ درپیش تھا اور آپ کی پارٹی اور پارٹی کے دو وزراء خزانہ آئی ایم ایف کو پاکستان سے معاہدہ کرنے سے روکنے کی سازش کر رہے تھے تب بھی آپ خاموش رہے آپ پاکستان کے حق میں نہیں بولے حالاں کہ آپ پاکستان کے صدر تھے لیکن خاموش رہ کر آپ نے پارٹی کے پاکستان دشمن عمل کو تقویت پہنچائی۔

آج جب آئی ایم ایف سے معاملات طے پا گئے ہیں کئی قرض خواہ پاکستان کو قرض کی ادائیگی کے لئے مزید مہلت دینے کو تیار ہیں اور ڈالر کی اڑان قابو میں آ گئی ہے تو آپ کو معیشت کی اتنی فکر ہو رہی ہے کہ آپ اس پر اتفاق رائے کے لئے مذاکرات کرانے کو تڑپ رہے ہیں۔ آپ کن سے مذاکرات کرانا چاہتے ہیں جو آئی ایم ایف کو خطوط لکھ رہے تھے یا حماد اظہر اور اسد عمر جنہیں ناکام ہونے پر فارغ کر دیا گیا تھا؟

آپ فرماتے ہیں کہ اسمبلی کے بائیکاٹ کا فیصلہ عمران نے کیا آپ سے پوچھا جاتا تو آپ کچھ اور تجویز کرتے لیکن آپ نے کبھی اشارے کنائے میں بھی عمران خان کو جتایا کہ اسمبلی کے بائیکاٹ کا فیصلہ غلط ہے آپ تو الٹا ان تمام اقدامات کی خاموش تائید کرتے رہے جو اس سلسلے میں عمران خان کرتے پھر رہے تھے۔ آپ کو تو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ مسجد نبویﷺ میں پی ٹی آئی کے غنڈوں کی بدتمیزی کی بری بھلی مذمت ہی کر دیتے۔

اب آپ بروکر نہ ہو کر بروکر شپ کے لئے بے تاب کیوں ہو رہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ فوج کو نیوٹرل ہونا چاہیے لیکن عمران خان نیوٹرلز کو جانور کہتے ہیں میر صادق اور میر جعفر کہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں نیوٹرل ازم کا اظہار بڑھ چڑھ کر نہ کیا جائے آخر کیوں؟ عمران خان فوج کو دباؤ میں لاکر چاہتے ہیں کہ فوج انہیں کسی طرح پھر اقتدار پر فائز کردے تو آپ بھی کیا یہی چاہتے ہیں آپ سیاسی عمل کو آئینی طور پر آگے بڑھنے دینے کی بجائے فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کے لئے کیوں ہلکان ہو رہے ہیں؟

آپ فرماتے ہیں کہ اختلافات کی خلیج کو ایک صدر ہی پاٹ سکتا ہے جی ہاں لیکن اگر وہ صدر اڑھائی کروڑ پاکستانیوں کا صدر ہوا اگر وہ ایک پارٹی کا صدر ہو اور اسے اب بھی پارٹی سے تعلق پر ناز ہو تو وہ کیسے غیر جانبدار بن کر کوئی کردار ادا کر سکتا ہے جس نے اب تک کبھی ایسا نہ کیا ہو وہ آج کے بعد کیا کرے گا اور اس سے کسی خیر کی توقعات کیسے وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ اب صاف ظاہر ہے کہ آڈیو لیکس سے عمران خان جس دلدل میں پھنس گیا ہے آپ اسے اس دلدل سے نکالنے کے مذاکرات کا کھیل رچانا چاہتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ ایک بار پھر فوج کو سیاست میں گھسیٹ کر عمران خان کی سر پرستی کرنے پر قائل کر دیں۔ یہ ایک صدر کے شایان شاں ہرگز نہیں۔

جناب صدر افسوس صد افسوس آپ نے اب تک اپنے عہدے اپنے حلف اور اپنے فرائض منصبی سے کوئی انصاف نہیں کیا اور اب بھی آپ اپنے پارٹی چیئرمین کو بند گلی سے نکالنے کے لئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔ اگر آپ کو اپنے منصب کی عزت کا پاس نہیں تو یہ نہایت افسوس ناک امر ہے بہتر ہو گا کہ آپ اس منصب سے مستعفی ہوجائیں تاکہ عمران خان کا پیدا کردہ انتشار ختم ہو سکے، آپ کا قوم پر بہت احسان ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments