جنرل مشرف کے روشن خیال دیوانے کہاں ہیں؟

محمد حنیف - صحافی و تجزیہ کار


زندگی میں اسلام آباد جانے کا بہت کم اتفاق ہوا ہے لیکن ہمیشہ وہاں کی فضاؤں میں کچھ نشہ سا محسوس ہوتا تھا۔ پہلے سمجھا کہ امام بری کی برکت ہوگی یا مارگلہ کی پہاڑیوں کے آگے سبزے کی وجہ سے ایسا ماحول ہے لیکن اسلام آباد کے سینیئر صحافی ساتھیوں سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ طاقت کے مرکز سے قربت کا نشہ ہے۔

وہی سرُور جو دیوان خاص کی دیواروں سے کان لگا کر اندر سے آتے قہقہے سن کر ہوتا ہے، غلام گردشوں کے وہ مناظر دیکھ کر ہوتا ہے جہاں خدمت گار قندیلیں اٹھا کر دوڑ رہے ہوتے ہیں کہ آج یہاں کچھ نیا ہونے والا ہے۔ اسلام آباد کی ہر دعوت میں پھیلائی جانے والی ہر افواہ اپنے آپ کو تاریخ کا نیا ورق بتاتی ہے۔

جنرل مشرف کے عروج کے زمانے میں اسلام آباد کے ایک سینیئر روشن خیال جمہوریت پسند اور ہر رخ سے لبرل لگنے والے ایک دانشور نے لطیفہ سنایا کہ بتاؤ خدا اور مشرف میں کیا فرق ہے بس یہی کہ خدا اپنے آپ کو مشرف نہیں سمجھتا۔ میرے سینیر دوست شاید مشرف کا مذاق اڑانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن مذاق بھی ایسا کہ جنرل مشرف کے سامنے کیا جائے تو وہ بھی تھوڑا سا سینہ پھلا کر ہنس دیتے۔

ہمارے بہت سے لبرل، روشن خیال اور جمہوریت پسند اب اب مان کر نہ دیں گے لیکن انھوں نے جنرل مشرف کو اپنے خوابوں کا مسیحا مانا اور قوم سے بھی منوانے کی کوشش کی۔

انھیں نواز شریف سے نفرت تھی کیونکہ وہ لاہور کا تاجر ڈکٹیٹر کی گود میں پلا، کھابے کھانے والا اور کھلانے والا بندہ تھا جو اب امیرالمومنین بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اکثر کے دل میں بے نظیر بھٹو سے کچھ انس موجود تھا لیکن زرداری کا کیا کریں کسی کو پتہ نہیں کہ اس نے مشرق کی بیٹی کو مایا میم صاحب بنا دیا ہے۔ باقی ساری مولویوں کی جماعتیں تو ویسے ہی جنرل ضیا کی پیداوار تھیں۔

تو ملک میں 20 سال سے جو ہو رہا تھا وہ اصل میں جنرل ضیا کا پھیلایا ہوا گند تھا۔ ہمارے سویلین اسے صاف ہی نہیں کر سکتے تھے تو میرے لبرل بھائیوں کا خیال تھا کہ جس عسکری ادارے نے ہمیں جنرل ضیا جیسا مرد مومن، مرد حق دیا تھا اب اسی ادارے نے ہمیں جنرل مشرف کی شکل میں ایک روشن خیال ڈکٹیٹر دیا ہے، ہمارے نصیب جاگ اٹھے ہیں۔

احتجاج
اپریل 2014: پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد ہونے کے خلاف سابق صدر کے حامیوں کا کراچی میں مظاہرہ

اوپر سے یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ ہم جمہوریت چاہتے ہیں لیکن اگر یہ بھٹو، یہ زرداری، یہ شریف، یہ مولوی ملک کو اتنا برباد نہ کر تے تو ایک کمانڈو جنرل کو ایک اغوا شدہ طیارے سے ملک کی باگ ڈور نہ سنبھالنی پڑتی۔۔۔ دیکھو لوگ گلیوں میں ایسے تو مٹھائیاں نہیں بانٹ رہے۔ ہمیں یہ بتانا بھول گئے ہیں کہ جو جنرل بغیر گولی چلائے ایک حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے وہ تھوڑی بہت مٹھائی بھی تقسیم کر سکتا ہے۔ مجھے نہیں علم کہ واقعی مشرف کے آنے پر مٹھائیاں بٹی یا نہیں لیکن تیرہ اکتوبر کو مشرف کی گود میں کتے دیکھ کر میرے لبرل جمہوریت پسند بھائیوں اور بہنوں کو لگا آخر ہمیں ہمارا اتاترک مل گیا ہے۔

ہم اگلے کئی سال تک جنرل مشرف کی بانٹی ہوئی مٹھائی کھاتے رہے۔۔۔ دیکھو دیکھو غزلیں سننے والا ڈکٹیٹر، فلمی میلوں میں جانے والا ڈکٹیٹر، اپنی سرکاری رہائش گاہ پر فیشن شو کرنے والا ڈکٹیٹر، پاکستان میں پرائیویٹ چینلز کی رونق لگانے والا ڈکٹیٹر، ڈنڈے والا لیکن دل کا کھلا ڈکٹیٹر۔

اپنے فنکار بھائیوں کا تو کیا شکوہ انھیں تو گلے سے گانے کی تربیت ملی ہے کٹوانے کی نہیں لیکن ہمارے صحافی، ہمارے دانشور، ہمارے ذہن ساز جنرل مشرف کے سواگت میں سب سے آگے تھے۔

آخر نو سال بعد جب عوام نے اپنے روایتی ہتھکنڈے استعمال کر کے یعنی مشرف کی بےعزتی کر کے، وردی اتروا کر، مزید بےعزتی کی دھمکی دے کر جان چھڑوائی تو پورا وطن لہو لہوتھا۔

پہلے عوام کی بے اعتنائی سے، پھر سزائے موت کے خوف سے جنرل مشرف ملک سے باہر گئے تو یہی کہتے پائے گئے کہ مجھے یہ پرواہ نہیں تھی کہ ٹارچر کرتے ہوئے کتنے بور کی ڈرل مشین استعمال کرتے ہو میں تو کہتا تھا کہ بس کام ہونا چاہیے۔

ہمارے لبرل بھائی دل کے نرم لوگ ہیں وہ بھی ڈرل مشین کا بور نہیں جاننا چاہتے تھے لیکن آج کل بھی اسی امید میں ہیں کہ جس طرح جنرل ضیا کا گند جنرل مشرف نے صاف کیا تھا اسی طرح جنرل باجوا کا گند آنے والا سپاہ سالار صاف کرے گا۔

شاید ہم لبرل، جمہوریت پسند، روشن خیال بہنوں اور بھائیوں کو یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ ہمارا پھیلایا ہوا گند دھند کون صاف کرے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments