طاقت ور اشرافیہ کا پاکستان


پاکستان کا بنیادی مسئلہ عام آدمی کی طاقت سے جڑا ہوا ہے۔ یہ طاقت اسے آئین پاکستان میں حاصل ہے جو اس کے بنیادی حقوق کی عملی طور پر ضمانت دیتا ہے۔ عام آدمی کو سب سے بڑی توقع ہی اس ریاستی نظام میں موجود ان بنیادی حقوق سے ہوتی ہے جو اسے معاشرے کی سطح پر باعزت زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ عام آدمی یا کمزور آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اگر اس کے حالات معاشی آسودگی کا شکار ہیں مگر ریاست اس کے ساتھ کھڑی ہے تو اس کے دکھوں کا مداوا ہوجاتا ہے۔

کیونکہ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ان مشکلات میں سیاسی طور پر تنہا نہیں بلکہ ریاست کا مجموعی نظام اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ ہی سیاسی، جمہوری، قانونی اور آئینی نظام ہی معاشرے میں اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کرتا ہے اور عام لوگوں کا نظام پر اعتماد کو بحال کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔ بنیادی طور پر معاشرے میں جو سیاسی، معاشی، سماجی اور ملک میں انصاف کے نام پر جو تفریق یا دوہرا معیار یا طبقاتی فرق ہے اسے ختم کر کے ہی ہم ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کو کم کر سکتے ہیں۔

لیکن عملی سیاست میں پاکستان کا مقدمہ بہت کمزور ہے۔ یہ ملک جو کہ اس میں رہنے والے ہر فرد کا ہے اور اس پر تمام لوگوں کا حق اتنا ہی بنتا ہے جتنا کے مخصوص طبقہ جو اس کا دعوے دار ہیں۔ لیکن پاکستان میں طاقت ور اشرافیہ چاہے اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو اس کے اور عام آدمی کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ عام یا کمزور آدمی یہ سمجھ رہا ہے کہ اس کی حیثیت کو معاشی بنیادوں پر دیکھا جا رہا ہے اور اگر اس کی عملی طور پر معاشی حالت درست نہیں تو وہ اس طاقت ور اشرافیہ کے لیے کچھ بھی نہیں۔

یہ سوچ اور فکر بھی عام ہوتی جا رہی ہے کہ ملک کے طاقت ور طبقات خوشنما نعروں، جذباتی باتوں، تقریروں یا خوبصورت لفاظی کی مدد سے ان کا ہر سطح پر استحصال کر رہے ہیں۔ جمہوریت اور سیاست اسی صورت میں اپنی ساکھ قائم کرتی ہے جب وہ لوگوں کی مشکلات کے درمیان نہ صرف کھڑی ہو بلکہ ان کے مسائل پر جمہوریت اور سیاسی عمل براہ راست مخاطب اور مسئلہ کے حل کی طرف پیش رفت بھی کر رہا ہو۔ لیکن یہاں سیاست اور جمہوریت کا عمل میں بدقسمتی سے سیاسی سطح پر موجود تقسیم کے ساتھ کھڑا ہے۔

اگر جمہوریت اور سیاست کا مقصد ایک مخصوص طبقہ کی سیاسی اجارہ داری یا خاندان کی بالادستی ہے یا ایسے طبقہ جو معاشی طور پر بہت مضبوط ہو اور اس نظام پر اس کی گرفت ہو وہی ہے تو پھر عام یا کمزور آدمی کا مقدمہ کون لڑے گا۔ کیونکہ اب یہ تلخ سی حقیقت ہے کہ موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی نظام میں عام یا کمزور آدمی کا حصہ بہت کم ہے اور فیصلہ سازی سمیت ملنے والی مراعات میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

آپ اس ملک کی اشرافیہ کو دیکھیں چاہے وہ کسی بھی شعبہ سے ہو ان کی زندگی کا شاہانہ انداز، طرز عمل، حاصل کردہ مراعات، آسائشیں، مہنگی پرتعیش زندگی سے کتنے مالا مال ہیں۔ مسئلہ محض اس بڑے طاقت ور طبقہ کی انفرادی عیاشی کا نہیں بلکہ اس سے بھی بڑا دکھ یہ ہے کہ یہ سب کچھ عوام کی قیمت یعنی سرکاری وسائل کی لوٹ مار، اقربا پروری، حاصل کردہ مراعات یا سہولتوں سے جڑا ہوا ہے۔ یقین کریں اگر اس سوال کو ہم نے بہتر طور پر سمجھنا ہے کہ تو ہمیں اپنے ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کی موجودہ حکمرانی کے طور طریقوں کا تجزیہ کرنا چاہیے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو معاشی طور پر بہت کمزور ہے یا معاشی بدحالی کا شکار ہے وہاں ریاستی یا حکومتی یا ادارہ جاتی وسائل پر اس طاقت ور طبقہ کی سیاسی ڈکیتی کا جواب کون دے گا۔ ہمارا مکمل انتظامی ڈھانچہ عیاشی کے میناروں پر کھڑا ہے اور حد سے زیادہ انتظامی ڈھانچے پر مبنی نظام اور اداروں کی مضبوطی کی بجائے اداروں پر ادارے بنانے کی پالیسی نے سوائے ریاستی لوٹ مار کے کھیل کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔

اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ وہ ممالک جو معاشی طور پر طاقت ور ہیں کیا ان کی حکمرانی کا نظام اسی شاہانہ انداز پر قائم ہے جیسے ہم نے اختیار کیا ہوا ہے تو جواب نفی میں ہو گا۔ روزانہ کی بنیادوں پر ہمیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت ریاست کے مختلف اداروں کی جانب سے خود کو دی جانے والی مراعات کا تماشا دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں مقصد ملک پر حکمرانی کرنے یا اسے شفاف بنانے کا نہیں بلکہ اپنی ذاتیات پر مبنی خواہشوں کی تشکیل کا نام ہے۔

یہ بحران کسی ایک حکومت، کسی ایک جماعت یا قیادت کا نہیں ہے۔ اس حمام میں سیاسی یا غیر سیاسی حکومتیں یا ریاستی ادارے سب ہی شامل ہیں۔ جو بھی جماعت ملک میں فلاحی سیاست کے نام پر سیاست کرتی ہے یا مذہب کو سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے اس کو جہاں جہاں وفاقی یا صوبائی سطح پر حکمرانی کا موقع ملا اس نے اچھی حکمرانی کی مثالیں قائم کرنے کی بجائے پہلے سے جاری لوٹ مار کے کھیل مزید حصہ ڈالا ہے۔ مہنگی مہنگی سرکاری رہائش گاہیں، ان کی آرائش و ترین، بڑی بڑی گاڑیاں، ملازموں کی بڑی تعداد اور سیکورٹی کے نام پر ہونے والے بڑے اخراجات کی تفصیلات یا ان کے علاج و معالجہ یا سفری اخراجات کی تفصیلات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہم حکمرانی کے نظام میں کہاں کھڑے ہیں۔

جو بھی حکومتیں آتی ہیں وہ نظام کی تبدیلی یا نظام میں موجود خرابیوں کو ختم کر کے مضبوط اصلاحات لانے کی بجائے خود اپنی مراعات پر سمجھوتہ کر لیتی ہیں اور عام آدمی کی زندگی کو اور زیادہ مشکل میں ڈال دیتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے عام آدمی کو مضبوط بنانے کی بجائے پہلے سے موجود طاقت ور طبقہ کو مضبوط کیا ہے۔ براہ راست ٹیکس کا نظام موثر اور شفاف بنانے کی بجائے بالواسطہ ٹیکس لگا کر عام آدمی کو اور زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں بجلی، گیس اور پٹرول یا ڈیزل کے نام پر جس وحشیانہ انداز سے ریاستی و حکومتی سرپرستی میں عام آدمی پر ڈاکا ڈالا گیا ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں حکمرانی کا نظام مجرمانہ ذہنیت بھی رکھتا ہے۔

عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں طاقت ور طبقہ کا اپنا ایک سیاسی کلب ہے۔ اس کلب میں تمام شعبہ جات کے طاقت ور افراد کا ایسا گٹھ جوڑ ہے جو ایک دوسرے کے سیاسی اور معاشی مفادات کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ کلب عام آدمی کو محض جذباتیت کی سیاست میں الجھا کر اپنی مفاد پر مبنی سیاست اور معیشت کو ترجیح دیتا ہے۔ وسائل کی تقسیم ہو یا بجٹ کی سیاست اس میں آپ کو مراعات یافتہ طبقہ کی سیاسی اجارہ داری کی شکلیں ہی دیکھنے کو ملیں گی اور عام آدمی کا حصہ خیراتی طرز کے پروگراموں یا کی صورت میں ملے گی۔

یعنی ہم کمزور لوگوں کی سیاسی و معاشی حیثیت کو تبدیل کرنے کی بجائے ان کو اپنا محتاج بنانا چاہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب یہ بات مسلمہ ہے کہ موجودہ انداز میں چلنے والا سیاسی اور معاشی یا قانونی نظام ہمارے مسائل کا حل نہیں۔ یہاں انصاف بھی طبقاتی ہے اور امیر اور غریب کی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ انصاف پر مبنی معیارات رکھتا ہے جو تفریق کے کئی پہلووں کو نمایاں کرتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں۔ کیا محض ماتم ہی ہماری زندگی میں رہ گیا ہے یا واقعی کچھ تبدیل بھی ہونا ہے۔ اگر کچھ تبدیل ہونا ہے تو وہ کسی بھی صورت میں روایتی اور فرسودہ طور طریقوں سے ممکن نہیں ہو گا۔ غیر معمولی حالات غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ لیکن کیا اس ملک کا طاقت ور طبقہ اپنے مفادات کو قربان کر کے ریاستی یا عوامی مفادات پر مبنی نظام کو لانے کے لیے تیار ہے۔ ایک ایسا نظام جو طاقت ور طبقہ کے ہاتھوں عملاً یرغمالی ہو گیا ہے اس کے لیے ایک متبادل سیاسی اور معاشی نظام کیسے قائم کیا جائے گا۔

یہ وہ سوال ہے جو اس ملک کے فیصلہ ساز یا سنجیدہ افراد کا موضوع بحث ہونا چاہیے۔ لیکن ہماری سیاست، جمہوریت اور صحافت سمیت اہل دانش کا بڑا طبقہ عملی طور پر ان ہی طاقت ور اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ کیونکہ یہ طبقہ بھی معاشرے میں اپنی سطح پر کوئی بڑا مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے اسی طاقت ور سطح کی اشرافیہ کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنے مفادات کا خیال کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں مثبت تبدیلیوں کے امکانات کم رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اس وقت عملاً موجودہ نظام کے مقابلے میں ایک متبادل نظام کی تلاش پر بحث کرنی چاہیے کہ وہ کیسے سیاسی، جمہوری اور شفافیت پر مبنی نظام ہو گا جو عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہو گا۔

آج بھی عمران خان کے سیاسی مخالفین پی ٹی آئی کی سیاسی خواتین کارکنوں کو جس بڑی عیاشی، فحاشہ اور بدکرداری کے ساتھ جوڑ کر باتیں کرتے ہیں وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے ؑہر کی عورتوں کو بھی معاف نہیں کیا اور ان پر بھی وہ تمام الزام تراشیاں یا کردار کشی کی جو اصولی طور پر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مولانا فضل الرحمن تو ان معاملات پر تنقید کرتے ہوئے تمام تر اخلاقی دامن کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور یہ کہانی ایسے فرد کی ہے جو دین اسلام کے نام پر سیاست کرتا ہے۔ ہماری صحافتی سیاسی تقسیم میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس سارے منفی کھیل کا الزام عمران خان پر ڈالتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے یا تو ان کی سیاسی تاریخ عمران خان سے ہی شروع ہوتی ہے اور ان ہی پر ختم بھی ہوتی ہے یا وہ شعوری طور پر کس خاص مقصد کو بنیاد بنا کر ان پر ہی تنقید کرتے ہیں۔

عمران خان سمیت کون سی سیاسی جماعت کی قیادت ہے جس نے اپنے ایسے سیاسی کارکنوں کو جوابدہ بنایا یا ان کا احتساب کیا یا ان کو سزا دی جو سیاسی تنقید میں ہوش کا دامن چھوڑ کر بدتمیزی پر اتر آتے ہیں۔ ایک طرف عوامی سطح پر ان پر تنقید کی جاتی ہے اور دوسری طرف ان کو بلا کر عملاً شاباش دی جاتی ہے تاکہ ان کو زیادہ پذیرائی دی جا سکے۔ کاش کوئی ایسا کمیشن بیٹھے جو آج کے تمام سیاست دانوں کی پہلے اور دوسرے سطح کی قیادت کی تقاریر سنیں اور ان کا پوسٹ مارٹم کیا جائے کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔

محض ایک فرد کو تنقید کا نشانہ بنا کر آپ ان کے خلاف سیاسی اسکور تو کر سکتے ہیں مگر مسئلہ کا حل تلاش نہیں کرسکیں گے۔ اصل میں جب سیاسی قیادت دوسری جماعتوں کی قیادت پر سنگین اخلاق سے گری باتیں کریں گی، الزامات لگائیں گی یا ان کی ذاتیات پر مبنی سیاست کو موضوع بحث بنایا جائے گا تو اس کا ردعمل آنا بھی فطری امر ہے۔ اس لیے یہ جو سب کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار ہم سب ہی اہل سیاست سے جڑے افراد ہیں اور اس کو ایک سطح پر عوامی ردعمل کی صورت میں بھی دیکھنا چاہیے۔

سیاسی جماعتوں میں قیادت کی کوئی تربیت نہیں ہوتی تو سیاسی کارکنوں پر کیسا الزام لگایا جائے۔ جو ارکان اسمبلی مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں یا جن کے پاس وزارتیں ہیں ان کا سیاسی جلسوں میں لب و لہجہ یا ٹی وی ٹاک شوز میں میں مخالفین کے کپڑے اتارنے کے علاوہ کیا کام باقی رہ گیا ہے۔ یہ ہی کھیل میڈیا سے جڑے افراد بھی کر رہے ہیں جن کا مقصد ہنگامہ پیدا کرنا یا اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سیاسی تقسیم میں اور زیادہ شدت پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ہمارا میڈیا تو ایسی ہنگامہ خیزی یا طوفان کی بنیاد پر ریٹنگ سیاست کا بھی شکار ہے اور اس کا بھی ہمیں اجتماعی طور پر کوئی حل نکالنا ہو گا۔

سیاسی اور مذہبی قیادتوں سمیت رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ اس کا علاج کسی ایک فرد کے پاس نہیں بلکہ اس پر ایک اجتماعی حکمت عملی یا دانش درکار ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کی سطح پر ایسا کوڈ آف کنڈکٹ پر اتفاق ہونا چاہیے کہ وہ سیاسی تنقید کو ذاتیات پر مبنی سیاست کا حصہ نہیں بنائیں گے اور تنقید اور تضحیک کے درمیان فرق کو سمجھ کر ہی اپنے سیاسی نظام کو آگے بڑھائیں گے۔ اسی طرح سیاسی تقسیم کا شکار ہونے کی بجائے میڈیا سمیت تمام اداروں کو ایسے لوگوں کو ہر صورت جوابدہ بنانا ہو گا جو سیاسی مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے سیاسی اخلاقیات کا دامن چھوڑ دیتے ہیں۔

کیونکہ جب تک سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا یا ان کا محاسبہ نہیں کیا جائے گا ہمارا سیاسی کلچر درست نہیں ہو سکے گا۔ مجموعی طور پر ہمارے کلچر میں کسی کی تضحیک کرنا یا ان پر جھوٹا الزام لگانا یا ان کی کردار کشی خاص طور پر جس انداز میں عورتوں پر کی جاتی ہے وہ قومی مزاج بنتا جا رہا ہے۔ نوجوان نسل کو دی جانے والی تعلیم میں تربیت کا عمل بہت دور کہیں کھو گیا ہے اور یہ عمل محض تعلیمی نظام میں ہی نہیں کھو گیا بلکہ ہمارے خاندانی، گھر اور معاشرے کے نظام سے بھی دور چلا گیا ہے۔

اخلاقی سیاست کی برتری اسی صورت میں ممکن ہوگی جب ہم اس مسئلہ کو سمجھیں کہ اس کا تعلق براہ راست سیاست اور جمہوریت کی کامیابی سے جڑا ہوا ہے۔ پہلے ہم کو خود اپنا احتساب کرنا چاہیے اور پھر دوسروں کا بھی احتساب کریں۔ لیکن یہ کام محض ٹکراؤ، نفرت یا تعصب کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس مسئلہ کو ایک خاص وابستگی کی بنیاد پر دیکھا جائے۔ مجموعی طور پر ہمیں اس پورے نظام کو جو اخلاقیات کے برعکس کھڑا ہے اس کو اسی سیاسی نظام میں موجود سیاسی فریقین میں چیلنج کرنا ہو گا تاکہ ہم ایک اچھی اور صاف ستھری سیاست کی طرف بڑھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments