ڈم کالونی


کلاس تو بتائیں، کثرت زچگی سے کون سے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور کیا علامات آئیں گی۔ سو نفوس سے بھرا ہوا لیکچر تھیٹر مگر مکمل سناٹا۔ پروفیسر نے کتنی ہی بار سوال دہرایا، جواب ندارد۔ صبح کے آٹھ بجے ہیں، آخری سال کے طلبہ جو پاس آؤٹ ہونے ہی والے ہیں، بن ٹھن کر تیار ہوئے، آئے ہیں مگر کسی سوال پر بولتے نہیں۔ ابھی کل کی بات ہے، سپورٹس ویک کی اختتامی تقریب پر ان کے فلک شگاف نعروں سے کالج لرز جاتا تھا۔ آخر دوسرے پروفیسر آئے اور انہوں نے ایک دلچسپ بات بتائی۔

مضبوط جسم، لمبے تڑنگے جوانوں کی بستی جن کی ذہنی استعداد بس پوری سی ہے مگر طبعی طاقت بھرپور ہے، وہ اقوام عالم میں اپنا لوہا کیسے منوائے گی۔ اس مثال سے پروفیسر نے بلڈ کینسر کو عام فہم بنایا۔ پروفیسر صاحب نے اسے ڈم کالونی کا نام دیا۔ ہمیں بے اختیار ہنسی آ گئی، اب کیا بتائیں، ان کی تشخیص ایک دم نشانے پر لگی ہے۔ آنکھوں کے سامنے اس لفظ کا سارا سیاق و سباق گھوم گیا۔ ڈم کالونی میں کیسے لوگ رہتے ہیں۔ چلیں ہم سمجھاتے ہیں، ان سے ملیے یہ آج بھی گرم دوا، اور ٹھنڈی تاثیر کے قائل ہیں، خود بھی ڈاکٹر ہیں، یہ دوسرے ہیں، ان کی واحد خوبی گالیاں بکنا اور ٹوٹے دیکھنا ہے۔ مگر دوسروں پر فتوے لگانے میں پیش پیش۔ ان سے بھی ملیے، اپنے تئیں، دانشور ہیں، سیلف پروکلیمڑ جینئس، مگر ان کی تان آخر عورت پر ہی ختم ہوتی ہے۔ دوسروں کے پاجاموں میں جھانکنے میں پی ایچ ڈی ہیں۔ ڈم کالونی مطلب اپنی ہی بستی کی بات ہو رہی ہے۔

جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے خلوت خانہ دل کے مکینوں میں

منظر بدلا تو ہم گلے میں طبی آلہ لٹکائے، اسپتال کے آئی سی یو میں موجود تھے، جہاں ہمیں ایک مریضہ کا معائنہ کرنا تھا۔ چاروں جانب غل غپاڑہ چل رہا ہے، کوئی صاحب دھکم پیل کر رہے ہیں، کوئی کرسی پر استراحت فرما رہے ہیں۔ اوہو پروفیسر آئے، تم ہسٹری بتاؤ، تم ہی معائنہ پریزنٹ کرو۔ گیند آخر شریف آدمی کی ہی گود میں گری۔ آپ بھی شرم سار ہو، ہمیں بھی شرم سار کر۔ آخر ینگ ڈاکٹرز کی تعلیمی قابلیت پر پر سب کو شک کیوں ہے، این ایل ای لگانے کا مقاصد کیا ہے، ہمیں بڑی مشکل سے سمجھ آیا۔

آپ ان نے تعلیم، سکلز کا گلہ مت کریں، آپ ان کے رویے دیکھیں، یقین جانیں اپنے کسی عزیز کے ساتھ آپ مایہ ناز اسپتال آئے ہیں، آپ کا سابقہ جن ینگ ڈاکٹرز سے ہو گا، ان کی فکری، ذہنی، تعلیمی حالات بہت زبوں حالی کا شکار ہے۔ میں یہ اس لیے کہتا ہوں، کیونکہ میں اسی ٹولے کا حصہ ہوں۔ میرے ساتھ ایسے شاہکار طلبہ پڑھتے ہیں، جنہیں اپنڈکس، یرقان، مہلک امراض تو کجا، نزلہ زکام کا بھی علم نہیں، جو آج بھی کورونا کی ویکسین نہ لگوانے پر فخر کرتے ہیں، استاد کو ٹیز کرنے، مغلظات بکنے پر سینہ چوڑا کر کے کول ڈوڈ بنتے ہیں۔ آخر سوال یہ ہے کہ ایک شہزادہ جس نے میرے سامنے چار سال کتاب کو چھوا تک نہیں، وہ پاس بھی ہوا اور وہ آپ کے بچے کا علاج بھی کرے گا، اور مطالبات کے لیے ہڑتال بھی کرے گا۔ منشیات والے تو اس سے بھی بعید ہیں

کتنے سال ہم نے اسکول کے دھکے کھائے، اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کیں، آج کوئی ہم سے رائے مانگے تو ذہن خالی، نہ سوچنے کے طریقے سے واقفیت نہ رسمی تعلیم کے اخلاقیات پر کوئی نتائج۔ ہم استاد جی کا دامن کھینچتے ہیں، مگر وہ روٹھے، منہ موڑے بیٹھے ہیں، ان کی تعلیم کسی ایک چیز پر بھی موزوں نہیں بیٹھتی۔ کہاں گئی، فصل خریف، نہری نظام، میلہ بوٹیاں، صلح حدیبیہ، یا زو اضعاف عقل۔ یہ ہی تعلیم تھی، جس کے لیے ہم بچپن میں مرغا بنتے تھے، رٹے لگاتے تھے۔

آج تک ہمیں، افسانوی کتب سے دور رکھا، اخلاقی کہانیاں سنائی، اور عظمت رفتہ کے بوگس قصے سنائے، آج ملک کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری ہم پر ہے، حالانکہ کروڑوں سرکار آپ ہضم کر گئے، ہم ملک میں رہ کر خدمت کریں، اور آپ باہر کاروبار کھڑے کریں۔ ہر چیز، ہر جگہ ایک مافیا کا اجارہ ہے اور شریف آدمی کے لیے محض ڈھکوسلے۔ مولانا کو یہ بھی اعتراض ہے کہ نوجوان نسل مذہب، ملت، ملک سے بدظن ہو گئی ہے۔ حضرت کو یہ علم نہیں، کہ اب تیر کمان سے نکل چکا۔

اوہو پھر پٹری سے اتر گئے۔ ابھی کالج سے واپس آئے، لائبریری میں سستائے نکلے کہ کیا دیکھتے ہیں، زینے سے چند ڈاکٹر لگی بیٹھی ہیں، اول ناک میں شاید کچھ ڈھونڈھ رہی ہیں، یا شاید معائنہ کر رہی ہوں، مگر عرف عام میں تو اس سرگرمی سے چوہے ہی برآمد ہوتے ہیں، دوم گھوم پھر رہی ہیں مگر نیفہ بار بار پھسل جاتا ہے، اور وہ اندھیرا اجالا کے جمیل فخری کی طرح بار بار کھینچتی ہیں مگر ٹک نہیں رہا۔ عام آدمی کی چولیں تو پہلے ہی ڈھیلی تھیں مگر اب بیچارہ نیفے سے بھی گیا۔ طبیعت مکدر ہو گئی، کبھی ہم ڈاکٹرنیوں کے بڑے معتقد تھے، مگر مشاہدہ یہی کہتا ہے، ادھر بھی معاملہ مختلف نہیں۔ بے ادبی کی معافی چاہتے ہیں، مگر میلہ خوب رنگ پر ہے۔ آئیں اور دھوکہ کھائیں۔ اب ہمیں بھی میڈیسن کی کتاب کھول ہی لینی چاہیے۔ کاٹھے دانشور تو پہلے ہی بہت ہیں مگر ہمارا امتحان سر پر ہے۔ رب راکھا۔

عثمان ارشد
Latest posts by عثمان ارشد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments