ایران کا سفر: ’ارے آپ تو اکیلی لڑکی ہیں، آپ ایران کیسے جا سکتی ہیں؟‘

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


ایران
’ارے، آپ تو اکیلی لڑکی ہیں، پھر سنی ہیں اور اوپر سے بلوچ بھی، آپ ایران کیسے جا سکتی ہیں؟ کوشش کریں کہ زیارت پر چلی جائیں اور اگر وہ اجازت دیں تو باقی کا ایران بھی دیکھ لینا۔‘

یہ الفاظ کراچی کے ایم اے جناح روڈ پر واقع امام رضا امام بارگاہ کے پاس بیٹھے ٹریول ایجنٹ کے تھے۔

آج سے تقریباً آٹھ سال پہلے کی بات ہے جب مجھ پر ایران دیکھنے کا بھوت سوار تھا جو اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

اُس وقت جتنے بھی لوگوں سے بات کی تقریباً سبھی نے ایران جانے سے منع کیا۔ اِکا دُکا لوگ جنھوں نے کوشش جاری رکھنے کو کہا یہ وہ لوگ تھے جو مختلف ممالک کا سفر کرتے رہتے ہیں اور دنیا دیکھنے میں کسی طرح کا بھید بھاؤ نہیں کرتے۔

لیکن مجھے جتنا لوگ منع کرتے یا ڈراتے، میرا ایران دیکھنے کا شوق اتنا ہی بڑھتا جا رہا تھا کیونکہ یہ بات میرے ذہن میں نہیں آ رہی تھی کہ ایسا کیوں ہے کہ صرف ایران جانے پر اس قسم کی قدغن ہے؟ اور قدغن ہے بھی یا نہیں، یا صرف سنی سنائی باتیں ہیں جنھیں سچ بتا کر پیش کیا جارہا ہے۔

خیر، میں نے ہمت نہیں ہاری اور گذشتہ برسوں میں ایران جانے کے کئی راستے ڈھونڈے۔ جو سامنے ہوتے ہوئے بھی ایران تک پہنچنے کا باعث نہ بن سکے۔ ہاں، یہ بھی کہا گیا کہ ’اگر آپ ایران گئیں تو یورپ اور امریکہ کا ویزا نہیں ملے گا اور اگر ملا تو کافی سوالوں کا جواب دینا پڑے گا۔‘

آخر کار اس سال اگست میں بغیر کسی پلاننگ یا خیال کے ایران جانے کا اچانک موقع ملا۔ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے ایک ٹریول ایجنٹ ایران کے مختلف شہروں کا ٹوؤر پلان کر رہے تھے اور ان سے بات کرنے پر پتا چلا کہ وہ 10 اگست کو چند لوگوں کا گروپ لے کر جا رہے ہیں۔

پہلے تو لگا چھٹی نہیں ملے گی لیکن پھر پتا چلا کہ میرے پاس چھٹیوں کا ایک انبار موجود ہے۔ تو پھر دیر بس اس بات کی تھی کہ میں پلان بناؤں اور جن تین شہروں کو میں دیکھنا چاہتی تھی انھیں آخر کار دیکھ لوں۔

ایران

ایران جانے کے لیے بہترین طریقہ مذہبی ویزے پر جانا ہے تاکہ آپ لگے ہاتھوں وہ تمام مقدس مقامات بھی دیکھ آئیں جن کے بارے میں، میں اور بہت سے لوگ سنتے آئے ہیں۔ اس کے بعد باری آئی تمام تر دستاویزات جمع کروانے کی۔

مجھے بتایا گیا کہ ایران جانے کے لیے والد یا محرم کی اجازت بھی درکار ہوتی ہے۔ میرے والد خاصے خوش نظر آئے کیونکہ پہلی بار ان سے کہیں جانے کے لیے لکھ کر اجازت مانگی جا رہی تھی۔

تقریباً ایک روز میں ویزا وصول کرنے کے بعد پتا چلا کہ ایران کے لیے فلائٹس یا تو کراچی سے جاتی ہیں یا پھر لاہور سے۔ کراچی سے تہران کی فلائٹ کا انتخاب کر کے رات کے بارہ بجے جب خالی ایئرپورٹ پر بیٹھی ہوئی تھی تب جاکر خوشی ہوئی کہ اب میں آخر کار ایران جارہی ہوں۔

یہ پتا نہیں تھا کہ ایرانی بھی مجھے دیکھ کر اتنی خوشی کا اظہار کریں گے یا نہیں لیکن سفر کرنے کی یہی خوبصورتی ہے کہ آپ لوگوں کو وہ جیسے ہوں ویسے ہی قبول کرلیتے ہیں اور چند دن کے لیے اپنی من پسند جگہ کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔

سکارف ٹھیک سے پہننے کا ڈر

رات کو ڈیڑھ بجے ایئر ایران کی پرواز تقریباً چار بجے تہران پہنچی۔ میں نے جو سکارف پہنا تھا اسے بلاوجہ صحیح کیا۔ تھوڑا سا ڈر یہ تھا کہ شاید کوئی پکڑ کر سکارف صحیح سے پہننے کو کہے گا۔ پھر کیا پتا مجھے امیگریشن سے آگے نہ جانے دیں یہ کہہ کر کہ تم اکیلی کیوں آئی ہو؟

ایران

خیر، یہ سب خیال ذہن میں لے کر میں ایئرپورٹ کے اندر پہنچی اور بیس منٹ میں امیگریشن سے باہر بھی آ گئی۔ ایران کے لیے الیکٹرانک ویزا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آپ کے پاسپورٹ پر کہیں مہر لگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ آپ کو ویزا کی یہ سلِپ یا کاغذ امیگریشن پر دینا ہوتا ہے اور وہ اسے آپ کے پاسپورٹ پر کوئی مہر لگائے بغیر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ مجھ سے کسی بھی قسم کے اضافی سوالات کیے بغیر جانے کو کہا گیا۔

ایئرپورٹ سے باہر نکل کر ایک الگ ہی دنیا نظر آئی۔ جہاں چند خواتین خاصی ماڈرن جبکہ دیگر چادر پہنے ہوئے تھیں اور جیسا کہ زیادہ تر بڑے شہروں میں ہوتا ہے، لوگوں کے پاس زیادہ وقت نہیں تھا، ہر کوئی جلدی میں اپنے اپنے کاموں کی طرف یا گھر کی طرف پہنچنا چاہتا تھا۔

مجھے پہلی بار پتا چلا کہ ایران کے مختلف شہروں میں یورپی طرز کے ہاسٹل بھی ہیں۔ جہاں مختلف ممالک کے لوگوں سے بات کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے کیونکہ عام تاثر یہی رہا ہے کہ شاید زیادہ تر غیر ملکی افراد ایران کا رُخ نہیں کرتے، جو کہ غلط ہے۔

میرا ایران کے تین مختلف شہر جانا ہوا، جن میں تہران، اصفہان اور شیراز شامل ہیں۔ چاہے وہ تہران کا گولستان محل ہو، اصفہان کا ہشت بہشت محل یا پھر شیراز میں سعدی شیرازی یا حافظ کا مقبرہ ہر مقام پر ایک نفاست اور خوبصورتی کا عنصر موجود تھا جو کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتا۔

ایران

اور پھر ان تمام تر جگہوں پر ایرانی گانے اور غزلیں اور ان دھنوں کا ان جگہوں کو چھوڑنے تک آپ کا ساتھ نہ چھوڑنا یہ سب ذہن میں بیٹھ گیا۔

ان تینوں شہروں میں ایک بات یکساں تھی اور وہ یہ کہ ایران کے لوگ خود پر انحصار کرتے ہیں۔ اقتصادی پابندیوں کے باوجود خود کفیل ہیں۔ میٹرو سے لے کر سڑکوں کے نظام تک ہر چیز اپنے وقت پر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بہت سی گاڑیاں بھی یہ خود بناتے ہیں، جو کہ دِیکھنے میں بیشک پرانی لگتی ہوں لیکن ایران میں زیادہ تر لوگوں کا کام ایسے ہی چل رہا ہے۔

ان تینوں شہروں تک ٹرین، بس اور گاڑی سے سفر کرنے کا موقع ملا جس کے نتیجے میں کئی ایرانی افراد سے بات کرنے کا موقع ملا۔ شروع شروع میں تقریباً تمام تر لوگ خاموشی سے مجھے اور میرے ساتھ آئے ٹریول ایجنٹ کو دیکھتے رہے لیکن تھوڑی سی فارسی زبان بولنے پر باتوں کا ایسا پٹارا کھلتا جو منزل تک پہنچنے کے باوجود بند ہونے کا نام ہی نہ لیتا۔

زیادہ تر ایرانی افراد معاشی بحران سے تنگ نظر آئے۔ اسی موضوع پر بات چیت کے دوران پتا چلا کہ کئی لوگوں کے رشتہ دار امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں مقیم ہیں اور وہ انھیں جتنی ہو سکے مالی مدد کرتے ہیں لیکن ایک بڑا مسئلہ پیسے ایران منتقل کرنے کا ہے کیونکہ کوئی بینک غیر ملکی کرنسی قبول نہیں کرتا۔ اس لیے ایران میں بینک اپنی کرنسی ہی قبول کرتے ہیں۔

ان کے علاوہ جو ملا، وہ اسی خیال میں الجھا ہوا ملا کہ کوئی ایران کیوں آنا چاہے گا؟

یہ بھی پڑھیے

سعودی عرب کا تیل کے کنویں پر ہوٹل اور صحرا میں شہر بسانے کا خواب کب پورا ہوگا؟

پاکستان میں خواتین کی محفوظ سیاحت: ’ان کے ساتھ سفر کریں، جن پر اتنا اعتماد ہو جتنا والدین پر ہے‘

’پاکستان سفر کرنے کے لیے آسان ملک نہیں‘

ایران

’آپ نے ایران ہی کیوں چُنا؟‘

شیراز جاتے ہوئے ٹرین میں ایک لڑکی اور اس کے ساتھ ایک بوڑھے شخص سے بات کرنے کا موقع ملا، انھوں نے بات چیت شروع ہوتے ہی پوچھا کہ ’سفر کرنے کے لیے ایران ہی کیوں چنا؟‘

اب یہ بڑا عجیب سوال لگا لیکن میں نے انھیں بتایا کہ ایران دنیا کا سب سے خوبصورت ملک ہے اور اسے دیکھے بغیر دنیا کے کسی بھی ملک کا سفر ادھورا ہے۔

اتفاق سے یہی سوال مجھ سے تین اور لوگوں نے تین مختلف مقامات پر پوچھا۔ جن میں طالبعلم، ٹیکسی ڈرائیور اور ایک دکاندار شامل تھے۔

نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ملی جن کے حالات اور مسائل پاکستانی نوجوانوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ کم عمر لوگ روایتی اور ادھیڑ عمر حکمرانوں کے تابع نہیں رہنا چاہتے۔ یہ پیغام تہران، اصفہان اور شیراز کی حد تک تو خاصے واضح طور پر نمایاں تھا اور اس کی عکاسی اِن شہروں کی دیواریں بھی کر رہی تھیں۔

ایرانی طلبا سے اصفہان کے نقشِ جہاں سکوائر میں ملاقات ہوئی۔ میں نے ان بچوں کی ٹیچر سے اپنی تصویر کھینچنے کو کہا تھا جس کے نتیجے میں ہماری بات چیت ہوئی اور انھوں نے کہا کہ آپ میری سٹوڈنٹس سے ضرور مل کر جائیں۔ ان بچیوں سے بات کر کے ایسا لگا جیسے میں خود اپنے بچپن میں پہنچ گئی ہوں۔

وہی باتیں کہ کیسے دنیا گھومی جائے، پیسے کیسے بچائے جائیں (جو سچ بات ہے کہ اس عمر میں کبھی نہیں بچتے) اور کیسے زندگی میں کچھ کیا جائے۔

میں نے انھیں کتابیں پڑھنے اور دنیا گھومنے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ کسی کام کی نیت باندھ کر اسے کچھ وقت کے لیے چھوڑ دینے سے بھی اکثر چیزیں ہو جاتی ہیں۔ اس سے زیادہ اس مختصر ملاقات میں بات نہیں ہو سکی۔

ایران

ایرانی خواتین ہر طرح سے خود اعتماد اور مضبوط نظر آئیں۔ چاہے وہ کوئی بھی کام ہو اسے بخوبی کرتے ہوئے دکھائی دیں۔ تہران میں سنا تھا کہ جگہ جگہ ’مورل پولیس‘ کھڑی ہوتی ہے جو سکارف صحیح نہ ہونے پر ٹوکتی ہے۔

مجھے یہ پولیس دکھائی تو نہیں دی لیکن سکارف پہننے کی شرط کتنی بڑی بحث اور احتجاج کی شکل اختیار کر لے گی یہ ہم سب اس وقت دیکھ رہے ہیں۔

شیراز پہنچتے ہی خیال آیا کہ یہاں سے تقریباً 50 کلومیٹر کی دوری پر پرسیپولس یا تختِ جمشید ہے۔ قدیم فارس کی اس یادگار کی دیکھ بال فرانسیسی معمار یا آرکیٹیکٹ کے علاوہ ایران کی حکومت بھی کر رہی ہے۔

ایران

میں نے ایران میں سات دن گزارے اور ان سات دن میں اتنی باتیں، تجربات اور نئے رشتے بنا لیے کہ سوچا دوبارہ ضرور جاؤں گی۔

بہت سے لوگ حیران ہوئے کہ گھومنے کی غرض سے ایران جانا ایک غیر معمولی انتخاب ہے۔

لیکن اگر دیکھا جائے تو ایسے ممالک میں جانے سے زیادہ سیکھا جا سکتا ہے، جہاں جانے سے آپ کو ڈرایا جائے کیونکہ کتابوں اور اخباروں کو پڑھ کر کوئی بھی رائے قائم کر لینا قدرے آسان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments