تعلق کا نادیدہ بوجھ (2)


 

علیحدگی کو چھ ماہ سے اوپر ہو گئے۔ طلاق ابھی فائل ہی نہیں کی گئی تو فائنل کیا ہوتی۔ دونوں طرف کے وکیل کوئی معقول سی دستاویز بنائیں گے۔ پھر وہ اس پر سائن کریں گے۔ پھر فائل کی جائے گی لیکن لگتا تھا دونوں میں سے کسی کو کوئی جلدی نہیں اور نہ ہی وقت ہے۔ کم سے کم فہد کے پاس تو بالکل وقت نہیں۔ اس کے ہاتھ میں کئی کیس تھے۔ سارا دن کورٹ میں گزرتا اور رات گئے دیر تک وہ کیس کی اگلی پیشی کی تیاری کرتا۔

فہد ایک کامیاب وکیل تھا۔ امیگریشن لاز اس کا شعبہ تھا۔ والدین شکاگو میں ہی رہتے تھے لیکن اس کی شادی سے کچھ سال قبل ریٹائرمنٹ ملنے کے بعد دوبارہ پاکستان جا بسے۔

ایک تقریب میں وہ سونیا سے ملا تو اسے لگا یہ لڑکی شادی کے لیے مناسب ہے، میریج میٹریل ہے۔ اس کا اپنا خیال تھا کہ اسے سونیا سے عشق بھی ہو گیا۔ شادی ہو گئی۔ بچے بھی ہو گئے۔ خوشحال گھرانا تھا۔ ہر طرح سے پرفیکٹ۔ شادی محبت کی تھی۔ دونوں طرف سے دھواں دھار پیار کی برکھا برسی تھی۔ پھر یہ ہوا کیا؟ پتہ نہیں ان کے بیچ اتنی دوریاں کیسے پڑ گیں؟ کب وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو گئے؟ تعلقات سرد پڑ گئے۔ بے جان سا بندھن بوجھ لگنے لگا۔ لا تعلقی بڑھ گئی۔ بات چیت ضرورت کی حد تک ہوتی اور اب تو سونیا کی آواز بھی سر پر ہتھوڑے کی طرح لگتی۔

پھر بیچ میں یہ میگی آ گئی۔ اس کے ساتھ فہد کا کوئی افیئر نہیں تھا بس ہلکا سا فلرٹ تھا۔ فہد کو اہمیت کیا ملی کہ اسے لگا جوانی پلٹ آئی۔ سونیا تو کب کی اس سے بے پرواہ ہو چکی تھی۔ ان کے بیڈ رومز تک الگ تھے وہ بھی سونیا کے ہی کہنے پر۔

”تم بہت خراٹے لیتے ہو میری نیند خراب ہوتی ہے مجھے صبح پانچ بجے اٹھنا ہوتا ہے“

وہ خاموشی سے تکیہ اٹھائے گیسٹ روم میں چلا گیا اور وہیں سونا شروع کر دیا۔ پھر وہاں سے بھی نکالا گیا۔ سونیا نے اسے میگی سے فون پر بات کرتے سن لیا تھا۔ فہد جانتا تھا کہ سونیا سن رہی ہے۔ اس نے بھی پرواہ نہیں کی۔ ضروری سامان لیا کچھ دن ہوٹل میں گزارے پھر اپنا ایک اپارٹمنٹ لے لیا۔ سونیا کو شک تھا کہ وہ میگی کے ساتھ رہ رہا ہے۔ ایسا نہیں تھا لیکن اس نے جان کر سونیا کی غلط فہمی دور نہیں کی۔

گھٹن کے ماحول سے نکل کر وہ کافی خوش رہا۔ زندگی کا ڈھب بدل گیا اب کوئی روک ٹوک نہیں۔ جہاں دل چاہا گلاس اور کافی کا مگ رکھ دیا۔ زمین پر تولیہ پھینک دیا۔ بیئر کے گلاس کے ساتھ کیوبن سگار کا دھواں اڑایا۔ اونچی والیم سے جاز میوزک سنی۔ رات دیر تک دفتر میں کام کیا۔ دوستوں کے ساتھ محفلیں جمائیں اور تنہائی کا بھی لطف اٹھایا۔

کبھی کبھی وہ سوچتا کہ آخر ان دونوں کو ایک دوسرے سے شکایات کیا تھیں؟ سونیا کیوں اس سے الجھتی تھی؟ کیوں اتنی جلی کٹی باتیں کرتی تھی؟ پھر اسے بھی ایسے ویسے جواب دینے پڑ جاتے۔ کس شوق سے اس نے پیانو خریدا تھا۔ بجانا بھی آتا تھا۔ کبھی کسی شام ڈنر کے بعد وہ بجاتا تو سونیا کانوں پر ہاتھ رکھ کر کمرے سے نکل جاتی۔

” کتنی بدذوق ہو تم۔ میوزک اچھی نہیں لگتی تمہیں“ وہ ناراض سا کہتا۔

” میں بدذوق نہیں ہوں۔ میوزک بہت پسند ہے مجھے اگر میوزک ہو تو“ ۔ فہد جانتا تھا وہ ایسا اسے چڑانے کے لیے کہتی۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اچھا خاصا بجا لیتا ہے۔ اس کی بات پر وہ بھی بھنا گیا۔

” تم باخ اور شوپن کو کیا جانو۔ تم بھنگڑا میوزک سننے والی“

لیکن ایک دن جب وہ ”واٹ اے ونڈرفل ورلڈ“ پیانو پر بجا رہا تھا تو وہ ساتھ ساتھ گنگنانے لگی۔ فہد نے مسکرا کر دیکھا تو اس نے فوراً منہ پھیر لیا۔ ہم ساتھ ساتھ خوش نہیں ہو سکتے کیا؟ جب گھر چھوڑ کر جا رہا تھا تو وہ بولی

”تان سین اپنا باجا لے جاؤ“ ۔ کیسی دل توڑنے والی باتیں کرتی تھی وہ۔

الگ تو ہو گئے سیپریشن بھی رجسٹر کر لی لیکن طلاق کا مطالبہ نہ اس کی طرف سے آیا نہ فہد نے ذکر کیا۔ ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ برقرار تھا۔ ملنا جلنا ہوتا ریتا۔ کئی ضروری باتیں کہنی اور بتانی ہوتیں۔ بچوں سے بھی وہ باقاعدگی سے ملتا۔ ویک اینڈ میں ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی آؤٹنگ ہوتی۔

فہد کو یاد تھا کہ ایک بار سونیا کے ساتھ لنچ کیا تو یونہی پوچھا لیا کہ بھئی مجھے یاد کرتی ہو؟ مس کرتی ہو؟ تو اس نے کیسے فضول جواب دیے۔ پھر اسے بھی کڑوی باتیں کرنی پڑیں۔ وہ ریموٹ کنٹرول کی بات دل پر لے کر بیٹھی ہے۔ جانتی تھی کہ کرکٹ کا سیمی فائنل آ رہا ہے۔ پاکستان اور انڈیا کھیل رہے ہیں مجھے میچ دیکھنا تھا اور وہ ”دا بولڈ اینڈ دا بیوٹی فل“ کی شاید دس ہزارویں قسط دیکھنے بیٹھ گئی۔ میں نے ریموٹ لے کر چینل بدل دیا۔ ابھی تک دل میں کینہ رکھا ہوا ہے۔ حد ہے بھئی۔

پھر اس نے بھی پوچھا کہ مجھے مس کرتے ہو؟ میں نے کہا تمہاری کوکنگ بہت مس کرتا ہوں۔ حالانکہ وہ کوئی اچھی کک نہیں تھی پھر بھی میں نے تعریف کی لیکن وہ پھر بپھر گئی مجھے گھٹیا آدمی کہا۔ پتہ نہیں کسی طور خوش نہیں ہوتی۔

اس دن جب وہ سخت اداس تھا اسے میسج کیا کہ ذرا مل لو۔ وہ آ گئی۔ آتے ہی بولی۔
”کیا ہوا۔ مرنے والے ہو کیا؟“
” ایک بہت اہم کیس ہار گیا ہوں۔ ایک امیگرنٹ فیملی کو ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ آ گیا۔ میں بہت دکھی ہوں۔“

”اوہ۔ سوری“ سونیا نے اس کا ہاتھ تھام لیا تو فہد کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس دل چاہا وہ سونیا کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دے لیکن وہ میز کی دوسری طرف بیٹھی رہی۔

” تم پر بھی کوئی سخت گھڑی آئی ہے اپنے جاب پر؟“

” ہاں اکثر۔ جب کسی بچے کے والدین کو بتانا ہوتا ہے کہ ان کا بچہ ایک موذی مرض میں مبتلا ہے اور اس کے پاس اب بہت زیادہ وقت نہیں“ اس کی آنکھیں بھی بھیگ گیں۔ فہد نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ کچھ دیر دونوں اسی کیفیت میں رہ کر واپس آ گئے۔

”تمہارے لیے ڈونٹس لایا ہوں“ فہد نے نکال کر ایک اسے دیا تو کتنی بے رخی سے اس نے کہا تھا۔
”مجھے ڈونٹس سخت ناپسند ہیں“
” ہائیں؟ اچھا؟ ’فہد حیران ہی رہ گیا۔“ تم نے کبھی بتایا ہی نہیں سویٹ ہارٹ ”

” کتنے تم مجھ سے بے خبر رہے ہو سویٹ ہارٹ۔ پھر بھی تمہارا دل رکھنے کو چکھ لیتی ہوں“ سونیا نے ذرا سا ٹکڑا ہاتھ سے توڑا اور منہ بنا کر کھایا۔ ذرا سی دیر میں وہ پھر اجنبی بن گئی۔ فہد کا دل کچھ ٹوٹ سا گیا۔ کیا بگڑتا اگر ہنس کر کھا لیتی؟

اس دن شاید کچھ بدل جاتا جب وہ کچھ کتابیں اور کپڑے لینے گیا تو وہ گھر میں اکیلی اداس بیٹھی تھی۔ فہد کا دل چاہا کچھ دیر اس کے پاس بیٹھ جائے لیکن اس نے تو چابی واپس مانگ لی کہ اب تم یہاں نہیں رہتے۔ فہد بھی دل جلا تھا۔ اسے فیس بک پر مصروف دیکھ کر کہہ ہی دیا

” محتاط رہنا۔ نیٹ پر لوگ بڑی عمر کی اکیلی خواتین کو نشانہ بناتے ہیں۔ خاص طور پر اگر وہ خوبصورت بھی ہوں اور مالدار بھی۔ اور تم ایک پرفیکٹ ٹارگٹ ہو“ ۔ فہد کو سمجھ ہی نہیں آیا کہ اس میں اتنا برا منانے کی کیا بات تھی۔

کڑوی اتنی کہ ہر بات کا الٹا جواب۔ تعریف بھی کرو تو بگڑ جاتی ہے۔ فہد کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا کیوں کرتی ہے۔ ایک بار اس نے مذاق میں اسے مدھوبالا کہہ دیا تو کیسا گھور کر دیکھا۔ فہد نے دوبارہ یو ٹیوب پر غور سے مدھو بالا کو دیکھا تو سوچتا ہی رہ گیا۔ اتنی خوبصورت تھی مدھوبالا۔ پھر سونیا خوش کیوں نہیں ہوئی؟ تعریف نہ کرو تو کم ظرف، کرو تو بے ہودگی۔ وہ کسی طرح خوش نہیں ہوتی۔

پھر سونیا کی سالگرہ آ گئی۔ پھولوں کی دکان پر وہ خود گیا۔ وہاں لڑکی نے پوچھا پھول کسے بھجوانے ہیں؟ فہد نے گڑبڑا کر کہا بیوی کو۔ اچھا ان کا پسندیدہ پھول کون سا ہے؟ فہد پھر گڑبڑا گیا۔ شاید گلاب۔ یا شاید للیز۔ تنگ آ کر اس نے کہا ملے جلے پھول بھیج دو۔ لیکن دیر تک حیران ہوتا رہا کہ اسے کیوں علم نہیں کہ سونیا کو کون سے پھول اچھے لگتے ہیں۔ پھر اسے یاد آیا کہ سونیا بھی تو اس سے اتنی ہی بے خبر ہے۔ سالگرہ پر گفٹ ضرور دیتی تھی لیکن مجال کبھی کوئی ایک بھی ڈھنگ کی چیز دی ہو۔ پچھلے سال عنابی رنگ کی شرٹ اسے دی۔ اتنے برسوں میں اسے یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ میں ایسے رنگ نہیں پہنتا۔

وہ ڈنر پر بہت اہتمام سے تیار ہو کر آئی اور بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
” بہت اچھی لگ رہی ہو۔“
”تم بھی“ ۔

ڈنر خوشگوار فضا میں تمام ہوا۔ دونوں کو کھانا پسند آیا۔ عام طور پر تو سونیا کوئی نہ کوئی مین میخ نکالتی تھی لیکن آج خوش رہی۔

دونوں نے بہت باتیں کیں۔ بہت ہنسے۔ جام ٹکرائے۔ ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ نئی شروعات کی امید کی بات کی۔ فہد کو لگا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن کہہ نہیں پا رہی۔ کچھ کھوئی کھوئی سی اسے دیکھتی رہی۔ وہ بھی جیب میں بار بار ہاتھ ڈالتا۔ ابھی دے دوں یا کچھ دیر بعد ؟ پتہ نہیں اس کا ردعمل کیا ہو گا؟ کہیں بگڑ نہ جائے۔ اتنی حسین شام کہیں ڈوب نہ جائے۔

ڈنر کے بعد وہ باہر آئے تو اس نے پوچھا ”کہیں کافی پینے چلیں یا تمہیں گھر چھوڑ دوں؟“

اس نے کہا کہ اسے کوئی پک کرنے آ رہا ہے۔ اور کوئی آ بھی گیا۔ سنہرے بالوں والا ایک جوان سا مرد۔ فہد کا ہاتھ جیب میں پڑے جیولری بکس کو سہلاتا رہ گیا۔ وہ گاڑی میں بیٹھی پھر لپک کر اتری اپنا چھوٹا سا بٹوا کھولا اور کچھ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ فہد نے دیکھا وہ گھر کی چابی تھی۔ ”کبھی کبھار آ جایا کرو“ وہ مسکرائی اور دوبارہ گاڑی میں جا بیٹھی۔ فہد نے جس جیب میں جیولری بکس تھا اسی میں چابی بھی رکھ لی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments