ایرانی پنڈلیاں


پہلی بار جب میں تہران میں ڈور ٹو ڈور مارکیٹنگ کے لئے نکلا تو میں کافی اپ سیٹ اور کنفیوز تھا۔ وجہ اجنبی ملک، شہر، زبان، لوگ، ایک لحاظ سے مجبوراً خود پر مسلط کیے ہوئے کام کی نوعیت اور کچھ دیگر ذاتی وجوہات تھیں۔

جبکہ دوسرا متحیر و خوش کن تاثر جدید فیشن کے مغربی لباس میں ملبوس اس قدر کثیر تعداد میں رنگ ہائے تصویر کائنات بھی پہلی بار دیکھ رہا تھا اور میرے کام کا براہ راست تعلق بھی انہی سے بننا تھا لہذا بیک وقت حیرت، استعجاب، تجسس اور جھجک سب ہی کچھ تھا۔ یہ کائناتی گل ہائے رنگا رنگ مجھے بہت بھلے لگ رہے تھے۔

فطرت اور جبلت الوطنی کے عین مطابق میں حسن پرست تو ہوں ہی، دل پھینک بھی کافی ہوں مگر ایک اور خوبی یا خامی کا حامل بھی ہوں۔ جھجک اور شرم کے معاملے میں اس بابت میں اکثر اوقات خواتین کو بھی مات دیتا ہوں۔

بہرحال جناب ایرانی خواتین کی خوبصورتی، متناسب الاعضاء ہونے اور جاذبیت کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی محسوس اور غیر محسوس انداز میں عجیب لگ رہا تھا مگر ذہن میں واضح نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کیا ہے؟

کم و بیش پندرہ بیس روز میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ جو ان خواتین میں مجھے کچھ منفرد اور عجیب لگ رہا ہے وہ سکن ٹائٹ جینز میں ان کی کسی ہوئی پنڈلیاں ہیں۔ واقعتاً عجیب سی تراشیدہ یا جیسے کسی مخصوص سانچے میں ڈھالی ہوئی پنڈلیاں جو پاکستان میں شاید میں نے کم ہی دیکھی ہیں۔

اب فطری شرم کے پیش نظر میں ان کی بابت کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا۔
کسی سے یہاں مراد، کسی پاکستانی دوست سے ہے۔

ویسے بھی وہاں کی پاکستانی کمیونٹی کے احباب قریشی ہاشمی ہونے کی نسبت سے حسن ظن رکھتے ہوئے مجھے مرشد، پیر سائیں اور بابا جی کہہ کر مخاطب ہوتے تھے۔

اب بھلا میں ان کے اپنے بارے میں حسن ظن کو روندتے ہوئے ان سے ”حسن زن“ سے متعلق کوئی بھی سوال کیونکر پوچھ سکتا تھا؟

یقین مانیے میں ان کی پنڈلیوں کے بارے میں کم و بیش چھ ماہ تک متجسس ہی رہا اور یہ سوچ کر مطمئن رہا کہ مخصوص تراش کی یہ پنڈلیاں ایرانیوں کو خدا کا پیدائشی تحفہ ہیں۔

چھ ماہ بعد جبکہ ایک دو پاکستانیوں سے کچھ کھل کھلا ہوا تب بھی میں نے خود پر مصنوعی متانت طاری کر کے ان سے پنڈلیوں کی بابت دریافت کیا تو علی پور کے عرفان نے یہ عقدہ وا کیا کہ حضرت! یہ خواتین باقاعدگی سے جمنازیم جاتی ہیں اور پنڈلیوں کی یہ شیپ بنانے کی مخصوص ورزش کرتی ہیں۔

تب ہم نے اپنی کامن سینس کو طلب کیا کہ اس سے باز پرس کی جائے کہ اس قدر طویل عرصہ تم نے ہمیں پنڈلیوں کے راز کے بارے میں اندھیرے میں کیوں رکھا تو موصوفہ گویا ہوئیں کہ خواتین سے متعلقہ جملہ معاملات میں مرد حضرات مجھے کبھی بھی درخور اعتنا نہیں جانتے۔ لہذا میں ( کامن سینس ) بے بس ہی رہی۔

حقیقت واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایران بھر میں باقاعدگی سے جسمانی ورزش کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ہر ہر شہر میں مرد و خواتین کے لئے مساوی تعداد میں ورزش گاہیں موجود ہیں۔

جہاں ایران میں اپنے ابتدائی قیام کے ایام میں فدوی کو کثیر تعداد میں فقط پنڈلیاں نظر آئیں تھیں بعد کے ایام میں اسی قدر ہی کثیر تعداد میں ڈولے ( مردانہ ) بھی نظر آئے۔

یقین کیجئے ہر دوسرا مرد مجھے تن ساز نظر آیا اور ہر پہلا بھی ورزشی یا کسرتی جسم کا ہی مالک تھا الا قلیل۔

ایرانی ایک صحتمند اور خوش خوراک قوم ہیں۔ ان کی زندگی گزارنے کی تقریباً جملہ سرگرمیاں صحت مندانہ اور ان کے مشاغل تعمیری اور تخلیقی ہیں۔ سست الوجود اور کاجل فقط کچھ نشئی ہی نظر آئے۔ ان کے بوڑھے بوڑھیاں بھی زندہ دل ہیں اور وہاں کی زندگی ہلچل سے بھرپور ہے۔

بالخصوص ہر لمحہ چہل قدمی کرتی اور چہل پہل مچاتی مخصوص تراش کی ایرانی پنڈلیاں دل و ذہن میں ہلچل بپا کیے رکھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments