نعمت کا عذاب


تمام تر جانداروں کو آخر فنا ہی ہونا ہے اذیت تو پیچھے رہ جانے والوں کے لئے ہے پیدائش سے لے کر آج تک اپنی نظروں کے سامنے بہت بڑے بڑے قدرتی آفات کو وقوع پذیر ہوتے اور ان سے نکلتے دیکھا ہے زندگی سنبھل ہی جاتی ہے کیونکہ اسے گزارنا ہی ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان کے جن علاقوں میں پانی کا عذاب آیا اس لمحے کی وقتی پریشانی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا مگر اس سانحہ کے بعد آج تک بچنے والوں کے لیے مسلسل اذیت ہے۔ پانی کی نکاسی کھانے پینے کا مسئلہ اور وبائی امراض جو پانی کھڑے ہونے کی وجہ سے وہاں پر پھوٹ پڑے بچنے والوں کے لیے اپنے چلے جانے والوں کے دکھ سے بڑھ کر زندہ بچ جانے والوں کو اس حال میں دیکھنا بہت تکلیف دے ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان پہلے ہی ترقی پذیر ممالک میں شمار رکھتا ہے اور اس پر ایسی قدرت کی آزمائش۔

مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو ہم نے اپنے لئے سہولت بنا کر کھڑا کیا وہ ہمارے مشکل وقت میں کام کیوں نہیں کر سکے بدقسمتی سے کوئی بھی ڈیم، بند، بیراج بنانے سے پہلے مستقبل کی طرف نہیں دیکھا جاتا ہے۔ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کئی علاقوں میں سیلاب کے بعد کسانوں کی زرعی زمینیں پانی کھڑا ہونے کے باعث فصل اگانے کے قابل نہیں رہی ہیں مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ کئی علاقوں میں پانی کی کمی کی وجہ سے فصلیں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

جس زمین پر پانی کھڑا ہے اس پر کاشت اس وقت ممکن ہو گی جب اس پر پانی اتر جانے کے بعد اس کو چار، پانچ ہفتے کا وقت ملے گا۔ ’

بارشیں کم اور مون سون ختم ہو چکا ہے۔ موسم اس وقت اپنے معمول کی تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے گلیشیئر اب کم پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے اب دریاؤں میں پانی کم ہے۔ اب پانی کی قلت پورا کرنے کے لیے ذخائر کی مدد بھی لے لی جا سکتی ہے۔

جنوبی پنجاب کے علاوہ سندھ کے مغربی، شمالی اور وسطی علاقوں میں اوسط سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں تو وہ پانی عذاب بن گیا ہے کیونکہ اس وقت وہ نہ تو سمندر میں جا رہا ہے اور نہ دریا میں۔

بدقسمتی سے کوئی بھی ڈیم، بند، بیراج بنانے سے پہلے مستقبل کی طرف نہیں دیکھا جاتا ہے۔ تحقیق اور تجزیے کی کمی ہوتی ہے جس کے نتائج پوری قوم کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ ’منگلا ڈیم بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ جب اس کی توسیع کا منصوبہ پیش ہوا تو اس وقت محکمہ موسمیات پاکستان سمیت کئی حلقوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔‘ سندھ اور جنوبی پنجاب کے جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں پر کوئی نکاسی آب کے زیادہ ذرائع نہیں ہیں۔ چار تربیلا ڈیموں جتنا پانی سندھ کے علاقوں میں کھڑا ہے۔

سندھ کے جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے ان علاقوں میں دریائے سندھ کی وجہ سے پرانی اور تاریخی آبادکاری ہے، ان علاقوں میں ڈھلوانیں بہت ہی کم ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ بارشوں کا پانی ڈھلوان سے دریا اور پھر سمندر میں گر جاتا ہے مگر اب سمندر کی طرف جانے والے راستے پر کینال کے بند ہیں۔ پانی جہاں پر کھڑا ہے وہاں پر کینال کے بند اوپر ہیں۔

پہلے صورتحال یہ ہوتی تھی کہ لوگوں کے درمیان پانی حاصل کرنے کے لیے مسائل پیدا ہوتے تھے، اب پانی نکالنے پر مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ’

اس وقت کی صورتحال سیلابی آفت کے بعد ایک اور آفت جیسی ہی ہے جس سے ہر موسم اور وقت میں فصلوں پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

سیلاب سے متاثرہ سندھ کے تمام ہی اضلاع میں سیلابی پانی مچھروں کی افزائش کا سبب بن رہا ہے، جس سے ملیریا اور ڈینگی پھیل رہے ہیں، دادو کے سول ہسپتال میں مریضوں کی آمد میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ مریضوں کو سنبھالنا اب ڈاکٹروں اور دستیاب طبی عملے کے لیے دشوار ہو چکا ہے۔

دادو ضلع کی تین تحصیلیں خیرپور ناتھن، میھڑ، جوہی، بھان، سید آباد سیلاب اور بارش سے متاثر ہیں اور متاثرین میں سے اکثریت نے دادو میں پناہ لے رکھی، ان میں گیسٹرو، ٹائیفائیڈ، جلدی امراض اور ملیریا عام ہے بلکہ ملیریا تو چلینج بن چکا ہے۔ ’

پینے کے صاف پانی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بچے ڈائیریا اور ہیضے کا شکار ہو رہے ہیں۔

بچوں میں سے کچھ نے جسم پر کچھ نہیں پہنا ہوا تھا تو کچھ بے لباس تھا۔ ان کی ایک بڑی تعداد غذائی قلت کا شکار بھی نظر آتی ہے۔ ابھی یہ مسلسل عذاب باقی ہے۔ ابھی زندگی کو معمول پر لانے میں بہت وقت لگے گا تب تک ہم سب کو اپنے بھائیوں کے ساتھ تعاون کرنا ہے زندگی کو نارمل ہونے تک۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments