سانحہ کارساز!


جناب ذوالفقار علی بھٹو شہید ایک نظریہ کا نام ہے اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی ان کی باتوں اور شخصیت کا سحر لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔ یہ وہ نام ہے جو آج بھی پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان ہے۔ میرے ایک عزیز عمرہ کرنے کے لئے گئے تو رات کو ہوٹل کے کمرے سے باہر نکل کر سگریٹ پی رہے تھے اسی وقت ایک غیر ملکی آدمی سے ملاقات میں (جب اس آدمی نے میرے عزیز سے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں ) تو میرے عزیز کا کہنا تھا پاکستان۔

اتنا سنتے ہی اس غیر ملکی نے کہا ( بھٹو ) جس پر میرے عزیز نے بہت فخر محسوس کیا جی ہاں بھٹو! پاکستان پیپلز پارٹی ایک خاندان ہے اور شہید بھٹو کے خاندان پر جو ظلم ہوا اس کی مثال پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی بھٹو شہید کے اس خاندان پر ضیاء الحق سے لے کر آج تک کی پاکستان پیپلز پارٹی مخالف قوتوں نے جی بھر کر ظلم کیے ۔ ضیاء دور میں جب بھٹو شہید کو گرفتار کیا گیا تو اس وقت 16۔ 16 سال کے لڑکے جو ان کے حق میں نکلے ان پر بھی تشدد کی ایک مثال قائم کی گئی میرے والد صاحب جب پہلی دفعہ جیل میں گئے اس وقت ان کی عمر تقریباً 16 سال ہی تھی۔

اس طرح جہاں ایک طرف بھٹو کے بچوں اور بیٹی پر ظلم ہوا وہاں دوسری طرف بھٹو کے چاہنے والوں کو بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کوڑے مارے گئے ان کو قید کیا گیا۔ بھٹو شہید کے بعد ان کی بیگم اور پھر بعد میں جب ان کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے پارٹی کی کمان سنبھالی تو انہوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی پارٹی میں موجود ورکرز جیالوں اور تمام لوگوں کو ایک جگہ متحد کیا ملک سے باہر بھی جاتیں تو پاکستان میں پارٹی اور پاکستان کے حالات پر مکمل نظر رکھتی اور ورکرز کے ساتھ ای میل یا کال کے ذریعے رابطہ بنائے رکھتی۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے بھٹو شہید کے بعد اپنے قائد کے مشن کو پورا کرنے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز حاصل کرنے والی محترمہ شہید آٹھ سال کی جلاوطنی ختم کر کہ جب پاکستان میں واپس آئیں تو کراچی ائر پورٹ پر ان کا شاندار تاریخی استقبال ہوا۔ پاکستان کی عوام اپنی قائد کی واپسی پر خوشیاں منا رہے تھے ہر شخص اس بات پر خوش تھا کہ ان کی قائد ان کے درمیان آ گئیں ہیں۔ سانحہ کارساز اس وقت رونما ہوا جب 2007 میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے جلوس پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں محترمہ شہید تو محفوظ رہی لیکن ان کو دیکھنے اور ان کے ساتھ ریلی میں موجود 200 کے قریب ورکرز شہید ہوئے اور ہزاروں زخمی۔

اس حملے کے وقت ہی محترمہ کے ورکرز جو ان پر جان دینے کے لئے بھی نہ ڈرے وہ محترمہ شہید کی ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے۔ محترمہ شہید اپنے باپ کی طرح بہادر تھیں ان کو مسلسل دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ پاکستان سے واپس چلی جاؤ لیکن وہ اپنی عوام اور پاکستان کی بقاء کے لئے پاکستان میں رہیں۔ اس کارساز کے فوراً بعد محترمہ شہید کو خفیہ ایجنسیز نے دوبارہ عوام میں جانے سے منع کیا لیکن آپ اسی وقت پھر اپنے ورکرز کی عیادت کے لئے ان کے پاس پہنچی اور جو شہید ہوئے ان کے وارثوں کے پاس جا کر غم کا اظہار کیا۔ حقیقت تو یہ ہے اس وقت آمر

جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی اور ملک کا نظام غیر منتخب لوگوں کے ذریعے چلانے کی کوشش کی جا رہی تھی جسے دیکھتے ہوئے طویل جلاوطنی کے بعد سابق وزیراعظم پاکستان محترمہ بینظیر بھٹو نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ خبر سن کر حکومت اور سیاست میں مفاداتی گروہ پر ایک لرزہ سا طاری ہو گیا اور انہوں نے محترمہ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش شروع کردی۔ مگر جرات کی داستانیں رقم کر نے والے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بیٹی نے، جسے جرات مندی ورثے میں ملی تھی، ان رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے 18 اکتوبر 2007 کو وطن واپسی کا اعلان کر دیا۔

اس پر حکومتوں میں بیٹھے لوگوں نے سازشوں کے تانے بانے بننے شروع کر دیے جبکہ پیپلز پارٹی کے کارکنان میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے اپنی قائد کے استقبال کے لیے زور شور سے تیاریاں شروع کر دیں۔ چونکہ محترمہ بینظیر بھٹو نے کراچی آنے کا فیصلہ کیا تھا، لہذا کارکنان نے پورے شہر کو دلہن کی طرح سجا دیا۔ شہر بھر کی عمارتوں پر رنگ برنگے برقی قمقمے جگمگانے لگے جبکہ تمام سڑکوں، شاہراہوں، گلی کو چوں میں پیپلز پارٹی کے سہ رنگے پر چم لہرانے لگے۔ شہر میں جابجا بڑے بڑے بورڈز نصب کر دیے گئے جن پر ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی تصاویر نمایاں تھیں۔

بینظیر بھٹو کا قافلہ ائر پورٹ سے براستہ کارساز گزر رہا تھا۔ جب پہلا دھماکہ ہوا مگر لوگ دور نہیں بھاگے بلکہ اپنوں کے قریب آئے، یہی وجہ تھی کہ دوسرے دھماکے سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔ دھماکوں کے بعد ہر کارکن کے لبوں پر حیرت انگیز طور پر یہی سوال تھا، ”بی بی سلامت ہیں؟ انہیں کچھ ہوا تو نہیں؟“ دراصل وہ جان نثاران بے نظیر تھے جو 3 مختلف صفوں میں بی بی کو حصار میں لیے کھڑے تھے۔ سانحے کے بعد کئی لاشوں کی شناخت نہیں ہو پائی، ان کے اعضا کو سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے کارکنوں کے ساتھ لاڑکانہ میں دفنا یا، وہ سب شہید بھٹو تھے۔

کہا جاتا ہے کہ سانحہ کارساز پی پی پی کی جماعت کے لئے ایک بہت بڑی سازش تھی، جس میں اندرونی اور بیرونی دونوں ہاتھ ملوث تھے۔ سانحے کے شہدا کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے اپنی قائد بینظیر بھٹو کے لئے تاریخی قربانی دی تھی۔ سانحہ کارساز کے سالوں سال مکمل ہونے کے بعد بھی اس سانحے میں ملوث افراد کو بے نقاب نہیں کیا جا سکا، سانحے میں شہید ہونے والے افراد کے خاندان آج بھی انصاف ملنے کے منتظر ہیں۔ پارٹی قیادت نے جہاں ملک و قوم کے لئے اپنی جان قربان کی وہاں دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنوں ورکرز جیالوں نے بھی اپنی پارٹی سے وفا کرتے ہوئے قائد کے مشن کو جاری رکھا ظلم و تشدد کا نشانہ بنے اور ہر دور میں جان کا نذرانہ دیتے رہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments