منطق کا ایک ابتدائی سبق


میرے میٹرک کے اردو کے نصاب میں مولانا الطاف حسین حالی کی کتاب ”یادگار غالب“ کا ایک اقتباس شامل تھا جس میں غالب کے کچھ اشعار کی شرح بیان کی گئی تھی۔ ایک شعر کے متعلق کہا گیا تھا کہ اس کے پہلے مصرع میں دعویٰ ہے اور دوسرے میں دلیل بیان کی گئی ہے۔ ان دونوں الفاظ کا مطلب معلوم نہیں تھا اور شاید ہمارے استاد محترم کو بھی پتہ نہیں تھا۔

اس قسم کے جملے اکثر پڑھنے سننے کو ملتے ہیں، فلاں نے اپنی بات کا کوئی ثبوت نہیں دیا؛ اپنی بات کے حق میں کوئی دلیل نہیں دی یا دلیل تو پیش کی ہے لیکن دلیل بہت کمزور ہیں۔ میرا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ان لوگوں سے جب ثبوت اور دلیل کا مفہوم پوچھا جاتا ہے تو کوئی معقول جواب دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔

امریکہ میں 11 ستمبر کو ہونے والے واقعات کا الزام امریکی حکومت نے اسامہ بن لادن پر عاید کیا گیا۔ اس وقت سے بہت دانشمند لوگوں سے ایک بات سننے کو ملتی رہی کہ امریکہ نے اسامہ کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیا۔ میں یہ بات سن کر ایک استفسار کیا کرتا تھا آپ ثبوت کس چیز کو کہتے ہیں تاکہ اگر وہ پیش کر دی جائے تو پھر آپ تسلیم کر لیں گے؟ اس کا کبھی کوئی جواب نہیں ملا تھا۔

دلیل کے لفظی معنی رہنما کے ہیں۔ علامہ اقبال کا مصرع ہے :
دلیل صبح روشن ہے ستاروں کی تنک تابی

یعنی ستاروں کی چمک کا ماند پڑنا اس بات کی طرف رہنمائی کر رہا ہے کہ صبح اب زیادہ دور نہیں۔ اسی طرح دوارکا داس شعلہ کے اس مصرع میں لفظ دلیل واضح طور پر رہنما اور گائیڈ کے معنی دے رہا ہے :

تجھ کو تو ظالم دلیل رہرواں سمجھا تھا میں

دلیل علم منطق کی اہم اصطلاح ہے۔ منطق فلسفے کی ایک شاخ ہے جس کا کام دلائل کی جانچ پرکھ کرنا، ان کے صحیح یا غیر صحیح ہونے کا فیصلہ کرنا ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ چند بنیادی اصطلاحات کا مفہوم بیان کر دیا جائے۔

منطقی اصطلاح میں ان جملوں کو دلیل کہا جاتا ہے جن سے کوئی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ دلیل بیان کرنے والے جملوں کو مقدمات کا نام دیا گیا ہے۔ مقدمات اور نتیجے کے مجموعے کو استدلال کہتے ہیں۔ انھی معنوں میں ایک اور لفظ حجت بھی بولا جاتا ہے۔

استدلال یا حجت چند خبر یہ جملوں کا مجموعہ ہوتا ہے جن میں ایک یا ایک سے زیادہ جملوں سے ایک نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ اگر منطقی استدلال درست ہو گا تو نتیجہ مقدمات سے لازمی طور پر برآمد ہو رہا ہو گا۔ یعنی ہم یہ نہیں کر سکتے کہ مقدمات کو تو درست تسلیم کر لیں لیکن نتیجے سے انکار کر دیں کیونکہ اس صورت میں ہم خود تردیدی کا شکار ہو جائیں گے۔ مثلاً ان دو سادہ سے مقدمات کو دیکھیے جن کو سمجھنے میں کسی کو کوئی دشواری نہیں ہو گی۔

الف، ب سے بڑا ہے
ب، ج سے بڑا ہے

ان دو جملوں سے ایک تیسرا جملہ، جسے ہم نتیجہ کہتے ہیں، لازمی طور پر برآمد ہو رہا ہے۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ دو جملے اس جملے تک ہماری رہنمائی کر رہے ہیں کہ الف ج سے بڑا ہے۔ اب ہمارے پاس یہ چوائس نہیں کہ ہم مقدمات کو تو تسلیم کر لیں لیکن نتیجے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں۔ درست منطقی استدلال میں نتیجہ خود کو مسلط کرتا ہے۔

اگر نتیجہ مقدمات سے لازمی طور پر برآمد ہو رہا ہے تو اس استدلال کو ہم صحیح کہتے ہیں اور اگر اس کے برعکس ہو تو استدلال غیر صحیح ہو گا۔ اسی طرح صحیح استدلال میں اگر مقدمات سچ ہیں تو نتیجہ بھی لازماً سچ ہو گا۔ سادہ زبان میں اس کا مطلب یہ ہے کہ سچ ہمیں گمراہ نہیں کرتا۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم سچے مقدمات سے چلتے ہوئے جھوٹے نتیجہ تک پہنچ جائیں۔ اگر ایسی صورت ہو گی تو ہمارا استدلال غیر صحیح ہو گا۔ استدلال کی یہ صحت فارمل ہوتی ہے۔ یعنی استدلال کی صحت کا دارو مدار اس پر ہوتا ہے کہ بات کس طرح کہی گئی ہے، نہ کہ کیا کہا گیا ہے۔

میں منطقی استدلال کی ایک خاص قسم کی چند مثالیں بیان کر کے یہ سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ کون سا استدلال صحیح ہے اور کون سا غیر صحیح۔

ایک مثال دیکھیے۔ ایک کسی قدر غیر حاضر دماغ پروفیسر واش روم میں گیا۔ اچانک اس کے دل میں وہم اٹھا کہ شاید وہ لیڈیز واش روم میں گھس گیا ہے۔ وہ تیزی سے واپسی کے لیے پلٹ رہا تھا کہ اس کی نظر یورینل پر پڑ گئی۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا کہ وہ مردانہ واش روم ہی تھا۔ اس احساس کو ہم منطقی انداز میں یوں بیان کر سکتے ہیں :

اگر اس واش روم میں یورینل نصب ہے تو یہ مردانہ واش روم ہے
اس واش روم میں یورینل نصب ہے
لہذا، یہ مردانہ واش روم ہے۔

اس استدلال کا پہلا جملہ شرطیہ کہلاتا ہے جس کے دو اجزا ہیں۔ جزو اول کو، جو اگر کے بعد ہے، ہم مقدم اور جزو دوم کو موخر کہہ لیتے ہیں۔ ویسے اس کے لیے پرانی اصطلاح تالی ہے لیکن میں موخر کو ترجیح دے رہا ہوں جو زیادہ عام فہم ہے۔ شرطیہ جملے پر مبنی استدلال میں اگر مقدم سچ ہو گا تو موخر بھی لازماً سچ ہو گا۔ گویا مقدم کے سچ ہونے سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ موخر بھی سچ ہے۔ اس طرز استدلال کو بطریق اثبات کہا جاتا ہے۔ البتہ اس کے برعکس درست نہیں ہو گا کیونکہ موخر کے سچ ہونے سے ہم یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ مقدم بھی سچ ہے۔

چنانچہ مندرجہ بالا استدلال کو تھوڑا سا الٹ کر دیکھتے ہیں :
اگر اس واش روم میں یورینل نصب ہے تو یہ مردانہ واش روم ہے
یہ مردانہ واش روم ہے
لہذا، اس واش روم میں یورینل نصب ہے۔

پہلا استدلال درست ہے دوسرا نادرست۔ یعنی یورینل کے ہونے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ مردانہ واش روم ہے کیونکہ یورینل صرف مردانہ واش روم میں نصب کیے جاتے ہیں۔ لیکن مردانہ واش روم ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ اس میں لازما یورینل بھی نصب ہو گا۔ ہمارے ہاں اکثریت مذہبی بنیادوں پر یورینل کی مخالفت کرتی ہے۔ دوسرا استدلال ایک مغالطہ پر مبنی سے جسے مغالطہ اثبات موخر کہا جاتا ہے۔

شیدا اور گاما دو دوست ہیں جنھوں نے لاہور میں قذافی سٹیڈیم میں کرکٹ میچ دیکھنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ صبح سٹیڈیم روانہ ہونے سے پہلے شیدا کہتا ہے کہ میچ کینسل ہو گیا ہے کیونکہ رات بارش ہوئی ہے۔ اس کو ہم منطقی صورت میں یوں بیان کریں گے :

اگر بارش ہوئی تو میچ کینسل ہو جائے گا۔
بارش ہوئی ہے
لہٰذا میچ کینسل ہو گیا ہے۔
مندرجہ بالا استدلال درست ہے لیکن مندرجہ ذیل درست نہیں ہے :
اگر بارش ہوئی تو میچ کینسل ہو جائے گا۔
میچ کینسل ہو گیا ہے۔
لہٰذا، بارش ہوئی ہے۔

یہ استدلال اس بنا پر نادرست ہے کہ میچ کے کینسل ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ بارش ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ رات کے وقت مالی پانی کا نل بند کرنا بھول گیا ہو اور اس وجہ سے گراؤنڈ میں پانی بھر گیا ہو یا ہو سکتا ہے کچھ شرپسندوں نے پچ اکھاڑ دی ہو جیسا کہ ایک بار دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ سٹیڈیم میں ہوا تھا۔ یہ بھی مغالطہ اقرار موخر کی مثال ہے۔

عراق پر حملہ کرنے سے پہلے امریکی حکومت کا استدلال اسی مغالطے پر مبنی تھا:
اگر کوئی گروہ القاعدہ کی حمایت کرتا ہے تو وہ دہشت گردی کا حامی ہے
عراقی حکومت دہشت گردی کی حامی ہے،
لہٰذا، عراقی حکومت القاعدہ کی حامی ہے۔

یعنی دہشت گردی کا حامی ہونے کے لیے القاعدہ کا حامی ہونا ضروری نہیں۔ دنیا میں بہت سے گروہ دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں حالانکہ ان کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

استدلال کی ایک اور صورت ہے جسے بطریق انکار کہا جاتا ہے۔ مثلاً،
اگر شیدے نے امتحان کی اچھی طرح تیاری کی تو اسے اے گریڈ ملے گا۔
شیدے کو امتحان میں اے گریڈ نہیں ملا۔
لہٰذا شیدے نے امتحان کی اچھی طرح تیاری نہیں کی تھی۔
ایک اور مثال دیکھ لیجیے :
اگر ستارہ خدا ہے تو وہ غروب نہیں ہو گا۔
ستارہ غروب ہو گیا ہے۔
چنانچہ ستارہ خدا نہیں ہے۔

یعنی موخر کے انکار سے مقدم کا انکار لازم ہو جاتا ہے۔ یہ بہت موثر طریق استدلال ہے جس کا ریاضی اور سائنس میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ کارل پوپر کے نزدیک تو سائنس کا منہاج دراصل اسی طریق استدلال کا اطلاق ہے۔

البتہ مقدم کے انکار سے ہم موخر کا انکار اخذ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ یہ استدلال غیر صحیح ہو گا۔
اگر شیدے نے امتحان کی اچھی طرح تیاری کی تو اسے اے گریڈ ملے گا۔
شیدے نے امتحان کی اچھی طرح تیاری نہیں کی تھی
لہٰذا، شیدے کو امتحان میں اے گریڈ نہیں ملا۔

اکثر تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اچھی طرح تیاری نہ کرنے کے باوجود کچھ لوگ بعض گفتہ اور ناگفتہ اسباب کی بنا پر اے گریڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اسے مغالطہ انکار مقدم کہتے ہیں۔

اوپر جو مثالیں بیان ہوئی ہیں انھیں مخلوط شرطیہ قیاس کہا جاتا ہے کیونکہ ان میں صرف ایک مقدمہ جملہ شرطیہ ہے۔ اگر مقدمات اور نتیجہ سبھی شرطیہ جملے ہوں تو وہ خالص شرطیہ قیاس کہلائے گا۔ اس کی مثال یہ ہے :

اگر امریکی صدر نے جنگی قیدیوں پر تشدد کرنے کی اجازت دی تو اس نے جنیوا کنونشن کو پامال کیا
اگر صدر نے جنیوا کنونشن کو پامال کیا تو اس نے جنگی جرم کا ارتکاب کیا۔
لہذا، اگر امریکی صدر نے جنگی قیدیوں پر تشدد کرنے کی اجازت دی ہے تو اس نے جنگی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔

اس انداز کے دلائل سے ہمیں عام زندگی میں اکثر واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ کبھی ہم درست نتیجہ اخذ کرتے ہیں، کبھی غلط۔ مثلاً فضل احمد کریم فضلی کا یہ شعر دیکھیے

وقت وعدہ کل کسی کے پاؤں کی آئی صدا
خوش خیالی کا برا ہو میں یہ سمجھا آپ ہیں

شعر کو منطق کی سان پر چڑھانے کی بد ذوقی پر معذرت طلب کرتے ہوئے صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات ہماری خوش خیالی ہمیں گمراہ کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ سادہ منطقی انداز میں بات کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔

اگر وہ مجھے ملنے آئے گا تو گلی میں پاؤں کی صدا آئے گی۔
گلی میں میں پاؤں کی صدا آ رہی ہے۔
لہٰذا وہ آ گیا ہے۔

اگر شاعر کو مغالطہ اقرار موخر سے آگاہی ہوتی تو وہ پاؤں کی صدا آنے سے یہ نتیجہ نہ نکالتا کہ جس نے آنے کا وعدہ کیا تھا وہ آ گیا ہے۔

ان مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے مذہبی واعظوں کے بیانات اور سیاسی رہنماؤں کی تقریروں کا تجزیہ کر کے بہت آسانی کے ساتھ جان سکتے ہیں کہ وہ کہاں کہاں کن کن منطقی مغالطوں کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم یہ فہم حاصل کر لیں گے تو چرب زبان لوگ ہمیں آسانی سے گمراہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments