موت کیسی بھیانک سچائی ہے، کسی بھی لمحے آ دھمکتی ہے


اس دن میری سرجری کی ایمرجنسی میں رات کی ڈیوٹی تھی۔ ڈیوٹی پہ پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی ایکسیڈنٹ کا شکار ہونے والا ایک جوان بندہ بہت بری حالت میں ہمارے پاس لایا گیا۔ اس کا جسم زخموں سے چور تھا اور بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے وہ ہوش و حواس کھو چکا تھا۔

اسے فوراً آپریشن تھیٹر میں لے گئے، ہاؤس آفیسرز کو خون کی بوتلیں لینے کے لیے دو بلڈ بینکس کی طرف بھگا دیا کہ اس کے بلڈ گروپ کی جتنی بھی خون کی بوتلیں ملتی ہیں لے آؤ۔

آپریشن شروع کیا تو پتا چلا اس کا جگر، تلی، آنتیں سب زخموں سے چور ہیں اور چوٹیں بھی شدید نوعیت کی لگی ہوئی ہیں۔

ایمرجنسی میں اس کے عزیزوں کا تانتا بندھ گیا تھا مگر مریض کی حالت سنبھلنے میں نہیں آ رہی تھی۔ مریض کے زخم سی کر آپریشن مکمل کر دیا گیا۔ اس کو ادویات سے لے کر مصنوعی سانس دینے تک ہر طرح کی محنت کر لی۔

اس ایک رات میں ہم نے اس مریض کو سترہ خون کی بوتلیں لگوا دیں لیکن اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی اور وہ آہستہ آہستہ ہمارے ہاتھ سے پھسلتا چلا گیا۔

میں مسلسل اس مریض کے ساتھ ہی رہا اور پوری رات اس پہ محنت کرتا رہا لیکن اس کے باوجود ہم اسے بچا نہیں پا رہے تھے۔

رات کے آخری پہر تھک ہار کے میں اس کے لواحقین کے پاس کھڑا تھا تو کہنے کو نہ میرے پاس کچھ تھا نہ ان کے پاس۔

ان میں سے ایک بتانے لگا کہ ”آٹھ دن پہلے اس کا نکاح ہوا ہے۔ اور اس نے نکاح بھی خاندان کے بہت سے لوگوں کی مخالفت اور ناراضگی مول لے کر کیا ہے۔“

پھر ایک خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
”وہ جو کالے برقعے میں خاتون مسلسل روئے جا رہی ہے، وہ اس کی منکوحہ ہے“

اس رات کا اختتام اس جوان آدمی کی زندگی کا اختتام ثابت ہوا اور میں سوچتا رہ گیا کہ زندگی کتنی بے ثبات چیز ہے، فقط ایک کڑا وار اس کا نشان تک مٹا کر رکھ دیتا ہے اور موت کیسی بھیانک سچائی ہے، کسی بھی لمحے آ دھمکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments