پشاور: تعلیمی ادارے میں میوزک شو کے دوران گلوکارہ کے لباس پر تنازع، یونیورسٹی انتظامیہ کی معافی


پشاور کے ایک تعلیمی ادارے میں ہونے والے میوزک پروگرام کی متعدد ویڈیوز پاکستان کے سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں۔ ان ویڈیوز میں جہاں طلبا کو گلوکارہ کی کی پرفارمنس سے محظوظ ہوتے دیکھا جا سکتا ہے تو وہیں انٹرنیٹ پر معاملہ بالکل مختلف ہے۔

کئی صارفین یہ شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں کہ گلوکارہ کا لباس ’مناسب‘ نہیں اور یہ کہ ایک غیر ملکی گلوکارہ کو پشاور کی یونیورسٹی میں پرفارم کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔

تاہم کچھ صارفین ایسے بھی ہیں جن کی رائے میں غیر ملکی خاتون گلوکارہ کا پشاور میں آنا ’طالبان کے آنے سے بہتر ہے۔‘

اُدھر سوشل میڈیا پر ہوتی بے تحاشہ تنقید کو بھانپتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پروگرام کے انعقاد پر معذرت کی ہے اور کہا ہے کہ اس حوالے سے اُس نجی کمپنی کے منتظمین نے انھیں لاعلم رکھا تھا جسے اس کام کا کانٹریکٹ دیا گیا تھا۔

واقعہ ہے کیا؟

صوبہ خیبر پحتونخوا کے شہر پشاور میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) سے الحاق شدہ این سی ایس یونیورسٹی سسٹم میں ’ہنر میلا‘ نامی تقریب منعقد ہوئی جس میں ہونے والے میوزک پروگرام میں ایک غیر ملکی گلوکارہ نے پرفارم کیا۔

یہ طلبہ کے لیے ایک تفریحی سرگرمی تھی جہاں فنکار اپنا ہنر پیش کر رہے تھے اور مختلف کھانوں کے سٹال لگائے گئے تھے۔

اس تقریب کی کچھ ہفتوں پہلے سے تشہیر کی جا رہی تھی اور ٹکٹوں کی فروخت سے متعلق پوسٹوں میں بتایا گیا تھا کہ ہنر میلا میں موسیقی کے شو کے لیے دو انٹرنیشنل فنکار ’سیزر‘ اور ’مارز‘ آ رہے ہیں۔

عمومی طور پر جس طرح میوزک کنسرٹس میں ہوتا ہے، گلوکارہ مارز کی اس پروگرام میں دی گئی پرفارمنس کو طلبا نے ریکارڈ کیا اور ویڈیوز بنا کر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کیں۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر بعض حلقوں کی جانب سے اس پرفارمنس پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے ’گلوکارہ کے لباس پر احتجاج ریکارڈ کرایا‘

پشاور میں خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر محمد سلیم گنڈاپور نے ڈائریکٹر این سی ایس یونیورسٹی سسٹم کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تین روز میں وضاحت طلب کی ہے۔ اس خط میں لکھا ہے کہ وضاحت نہ دینے کی صورت میں ڈسپلنری ایکشن لیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں ادارے کا الحاق بھی ختم ہو سکتا ہے۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ڈانس کرتی ایک لڑکی کی ’غیر اخلاقی‘ ویڈیوز گردش کر رہی ہے۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے تعلیمی ادارے میں ان سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لیا ہے۔

‘کے ایم یو کا نام اور لوگو استعمال کر کے ایسی سرگرمیاں کروانا قابل اعتراض ہے۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں تعلیمی اداروں پر لازم ہے کہ اخلاقی اقدار اور تقدس کو برقرار رکھیں۔’

یہ بھی پڑھیے

پاکستان میں کنسرٹس میں ہراسانی: ’جو کچھ میرے ساتھ ہوا۔۔۔آئندہ کبھی ایسی تقریب میں نہیں جاؤں گی‘

’ہنزہ میں میوزیکل فیسٹیول کرایا، کوئی پارٹی نہیں‘

عورت مارچ کے خلاف وزیراعظم کو خط: ’ہم نہتی عورتیں بندوقیں اٹھا کر مارچ نہیں کرتیں‘

’افسوس کہ زیادہ تر مرد فیصلہ کرتے ہیں کہ خاتون کی برا یا پینٹی کیسی ہونی چاہیے‘

یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کی خواہش پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس واقعے کے بعد تعلیمی ادارے کو سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کا سامنا ہے اور ان کی ٹرولنگ کی جا رہی ہے۔ ’ایسے لوگ جنھیں علم نہیں وہ بھی ہمیں مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہمارے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ یونیورسٹی ہنر میلے کے اس حصے کی ذمہ داری لے رہی ہے جس میں ان کی اجازت موجود تھی اور اس میں 36 ثقافتی سٹالز وغیرہ شامل ہیں۔ ‘ہمیں بتایا گیا کہ یہ ہنر میلا ہے، مگر آخر میں میوزک پروگرام کیا گیا۔

‘میوزک کا حصہ اور خاتون کا سٹیج پر گانا اس کی اجازت ہم سے نہیں لی گئی تھی۔۔۔ جب معاملہ وائرل ہوا تو ہم نے اپنے ڈائریکٹر کا پیغام ریکارڈ کرایا۔‘

ڈائریکٹر این سی ایس یونیورسٹی سسٹم نے اس واقعے پر معذرت کرتے ہوئے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے۔

اس میں ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ روز این سی ایس میں ہنر میلے کے نام سے تقریب رکھی گئی تھی جس کا انتظام نجی ایونٹ کمپنی نے کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’غیر ملکی گلوکارہ نے ہمارے اقدار کے خلاف لباس پہن رکھا تھا۔ غیر ملکی خاتون گلوکارہ کا ہمارے پروگرام کا حصہ بننا ہمارے لیے حیران کن تھا، جس کے بارے میں منتظمین نے ادارے سے کوئی بات شیئر نہیں کی تھی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم ان تمام افراد سے معذرت خواہ ہیں جن کی اس پروگرام سے دل آزاری ہوئی۔‘

’ہمیں گلوکارہ کے بارے میں نہیں بتایا گیا، لوگ سوشل میڈیا پر کنٹرول نہیں ہوتے‘

یونیورسٹی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کی خواہش پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس واقعے کے بعد تعلیمی ادارے کو سوشل میڈیا پر خاصی تنقید کا سامنا ہے اور ان کی ٹرولنگ کی جا رہی ہے۔ ’ایسے لوگ جنھیں علم نہیں وہ بھی ہمیں مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ ہمارے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کے ایم یو کا نوٹس انھیں باقاعدہ طور پر موصول نہیں ہوا مگر سوشل میڈیا پر ان کی نظروں سے گزرا ہے اور وہ اس معاملے پر وضاحت دیں گے۔

’شکر ہے آج وہاں طالبان نہیں تھے‘

شمع جنیجو نامی صارف لکھتی ہیں کہ ’میں حیران ہوں کہ این سی ایس یونیورسٹی پشاور کے ڈائریکٹر نے اس پر معذرت کی۔ اگر گلوکارہ غیر ملکی ہیں تو کیا وہ اسے برقع پہننے پر مجبور کرتے؟ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وہاں طالبان نے گڑبڑ نہیں کی اور نہ ہی لوگوں کو پکڑ کر مارا۔‘

ذکی خالد نامی صارف نے کہا کہ یہ صرف ایک پرفارمنس ہے۔ بہت سے شرکا نے انٹرنیٹ یا گھروں میں تنہا ایسا ڈانس دیکھا ہو گا۔ یہ مجرا دیکھنے سے بہتر ہے۔‘

بلاگر امیمہ احمد نے یہ پیغام دیا کہ ’مجھے امید ہے یہ گلوکارہ اور تقریب کے منتظم محفوظ رہیں گے۔‘

یونیورسٹی حکام کے مؤقف پر ردعمل دیتے ہوئے عائشہ رزاق نامی صارف نے لکھا ’ناخوشگوار واقعہ؟ لگتا ہے یہی واقعہ پوری تقریب میں سب سے خوشگوار تھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32486 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments