ضمنی الیکشن میں فتح اور ممکنہ لانگ مارچ


پاکستان میں سیاست اس وقت شطرنج کے کھیل کی طرح چالیں تبدیل کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت پر الزام لگایا جاتا رہا کہ اس نے اپنی پسند کے چند حلقوں سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کے استعفی الیکشن کمیشن کو کہہ کر منظور کروائے تھے ان حلقوں میں پی ڈی ایم کی پارٹیوں کو یہ باور ہوا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کو ہرا سکتے ہیں غالباً ان حکومتوں میں سروے کروائے گئے ہوں گے مگر عمران خان نے پی ڈی ایم کی یہ چال ان کے اوپر اس وقت الٹ دی جب ان تمام حلقوں سے انھوں نے خود امیدوار بننے کا اعلان کر دیا۔

ان الیکشنز کو سیلاب کے پیش نظر ایک دفعہ ملتوی کر دیا گیا اس کے باوجود با الاخر ان الیکشنز کو منعقد کرانا پڑا اور ان الیکشنز میں عمران خان سات میں سے چھ سیٹوں پر منتخب ہو گئے، ایک سیٹ وہ کراچی سے ضرور ہارے جہاں غالباً سندھی بولنے والے ووٹرز کی اکثریت ہے۔ اس طرح واحد سیٹ ملتان کی تھی جس پر عمران خان نے خود الیکشن لڑنے کی بجائے شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی کو الیکشن لڑوایا جو گیلانی فیملی کے سپوت علی موسی گیلانی سے بھاری اکثریت سے شکست سے دوچار ہوئیں اس میں گیلانی خاندان کا ملتان کی تعمیر و ترقی کے لئے ماضی میں کروائے گئے کام کا اہم کردار رہا۔

دوسرے اس سے ایک بات یہ آشکار ہوئی کے ووٹرز پی ٹی آئی کے اس مقبولیت کے ریلے کے باوجود امیدواروں کی اپنی کارکردگی کی بھی جانچ کرے گا۔ اس طرح اب لوگ موروثی سیاست کو بھی پسند نہیں کرتے۔ پی ٹی آئی کو بھی سوچ سمجھ کر میرٹ پر ٹکٹ دینے پڑیں گے۔ فیصل آباد جو کبھی نون لیگ کا گڑھ تھا وہاں شریف فیملی کے قریبی اہم رہنما عابد شیر علی بڑی شکست سے دوچار ہوئے۔ فیصل آباد کی مقامی سیاست میں فرخ حبیب نے کامیاب کمپین چلا کر اپنا قد کاٹھ کافی اونچا کر لیا ہے حالانکہ ان کی پارٹی کے ہی کچھ مقامی رہنما یہ توقع کر رہے تھے کہ شاید خان صاحب یہاں سے شکست سے دوچار ہوں گے اور فرخ حبیب کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مگر فرخ حبیب کا ایک عام کارکن سے بڑے سیاسی لیڈر بننے کا سفر کامیابی سے جاری ہے اور ان کا شمار پارٹی کے چند مقبول نظریاتی رہنماؤں میں ہونے لگا ہے۔ فیصل آباد جیسے اہم شہر میں شکست یقیناً نون لیگ کے لئے لمحہ فکریہ ہے پارٹی کے اندر سے اس اہم موقع پر مریم نواز کے لندن چلے جانے پر بھی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اسی طرح حالیہ دنوں میں حمزہ شہباز بھی سیاسی افق سے غائب پائے گئے ہیں اور پنجاب کی سیاست پر دن بدن پی ٹی آئی کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ پنجاب کے تجربہ کار وزیراعلی پرویز الہی بھی اچھے طریقے سے صوبہ چلا رہے ہیں اور نون لیگ کو ٹف ٹائم مل رہا ہے۔ حال ہی میں انھوں نے کئی نئے ڈسٹرکٹ اور ایک نیا ڈویژن بنانے کا اعلان کیا ہے جس سے آئندہ الیکشن میں ان نئے اضلاع سے نون لیگ کو جیتنے کے لئے بہت زور آزمائی کرنی پڑے گی۔

اس وقت سیاست میں جو گرما گرمی پیدا ہو رہی ہے وہ عمران خان کا ممکنہ لانگ مارچ ہے۔ پنجاب اور کے پی میں موجود فرینڈلی انتظامیہ اس لانگ مارچ کی کامیابی میں کیا کردار ادا کرتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر حکومت اس وقت کنفیوژن کا شکار نظر آتی ہے کبھی تو وہ پنجاب حکومت کو گرانے کی ترکیبیں سوچتے ہیں اور پھر دھمکیاں لگائی جاتی ہیں کہ اگر ان صوبائی حکومتوں نے لانگ مارچ کا ساتھ دیا تو ان کے خلاف فیڈریشن پر چڑھائی کے الزام میں آئینی کارروائی کی جا سکتی ہے یہ غالباً گورنر راج کی ڈھکی چھپی دھمکی ہے مگر اس میں بہت سی آئینی رکاوٹیں ہیں عدلیہ آئین کی عملداری کی خاطر فعال ہے اور چوہدری پرویز الہی اپنی حکومت کو بچانے کے گر جانتے ہیں اور انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی ابھی نہیں بگاڑ پیدا کیا۔

مسلم لیگ نون کو امید تھی کہ اسحاق ڈار کے بطور وزیر خزانہ واپسی کے بعد معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے اور وہ عوام کو ریلیف دے کر پی ٹی آئی کی مقبولیت پر روک لگا لیں گے! شروع میں تو ڈالر نیچے بھی گیا مگر مجموعی طور پر معیشت میں زیادہ سدھار نہیں آ پایا ہے۔ کسانوں کے دھرنے کو ختم کرنے کے لئے وعدہ کیا گیا تھا کہ کسان پیکج کا اعلان ہو گا۔ زراعت کے لئے سستی بجلی مہیا کی جائے گی مگر وزیراعظم اپنا یہ وعدہ بھی ابھی تک پورا نہیں کر پائے ہیں۔

عمران خان نے اپنے دھواں دھار جلسے جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کی پارٹی نے اپنے کارکنوں کو متحرک کرنا شروع کر دیا ہے ایسا لگتا ہے کہ پچیس جولائی کے لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد اس دفعہ پوری تیاری کے ساتھ یہ مارچ پلان کیا جا رہا ہے۔ مشورے جاری ہیں کہ کیسے حکومت کو اس مارچ اور دھرنے کے ذریعے انڈر پریشر لاکر نئے الیکشن کا اعلان کروایا جا سکتا ہے۔ اور تصادم کی صورت میں کس طرح سے سیکورٹی کے اداروں کے ساتھ نبٹا جائے گا۔

اسی لئے اس مارچ کے اعلان میں تاخیر کی جا رہی ہے اس طرح پرویز الہی کی بھی کوشش ہو گی یہ لانگ مارچ نہ ہی ہو تاکہ ان کی حکومت قائم دائم رہے اور پارٹی کے اندر سے بھی کچھ لوگ ہیں جو بالکل ہی ساری کشتیاں نہیں جلانا چاہتے۔ ان کے مطابق عوام کو متحرک رکھا جائے اور ایک سال سے کم عرصہ میں جنرل الیکشن ہونے ہیں تو ان میں فتح حاصل کر کے مضبوط حکومت بنائی جائے اور طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے بھی تعلقات کو ازسر نو استوار کیا جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments