پشتونخوا ملی عوامی پارٹی: خود احتسابی


تاریخی طور پر پشتونوں میں قوم پرست سیاست کا اہم کردار رہا ہے۔ پاکستان کی آزادی سے پہلے اور پھر بعد میں خان عبدالغفار خان (باچا خان) اور عبدالصمد خان اچکزئی صف اول کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے بننے کے وقت بلوچستان کے پشتونوں کو نظرانداز کرنے کے مسئلے پر جب خان عبدالصمد خان اچکزئی نے نیپ سے اپنی راہیں جدا کر لی تو پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کی تشکیل کی جو بعد میں مزدور کسان پارٹی کے انضمام سے پشتنونخوا ملی عوامی پارٹی بنی۔

تاریخی طور پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی خان عبدالصمد خان اچکزئی کے مزاحمتی بیانیے کا پرچار کرتی رہی ہے اور پاکستان میں پشتونوں کے متحدہ صوبے کے لئے تحریک چلاتی رہی ہے۔ اور پشتونوں میں شعور پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرف مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اس کا بیانیہ پارٹی کارکنوں کی ذہن سازی کا اہم نکتہ رہا ہے تو دوسری طرف پارٹی کارکنوں کو حقیقی جذبے کے ساتھ جمہوریت پر یقین رکھنے کی تربیت دی گئی جس کے لیے محمد عثمان خان کاکڑ جنہیں پارٹی کے تنظیمی سیٹ اپ کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے، جس نے جمہوری رویوں کو پارٹی کے نچلی سطح تک یونٹ لیول تک پہنچایا۔

پارٹی کا منشور جمہوریت کے فروغ اور آمریت کے خلاف اس کے بیانیے کو ظاہر کرتا ہے دوسری طرف وہ پشتون سرزمین میں بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف بھی اپنا نکتہ نظر پیش کرتی رہی ہے۔ ساتھ ساتھ میں اس کے کارکنوں کی جاگیرداری کے خلاف ذہن سازی کیا گیا۔ 1973 میں عبدالصمد خان اچکزئی کی شہادت کے بعد ان کے بیٹے محمود خان اچکزئی نے پارٹی کی کمان سنبھالی اور 49 سال سے پارٹی کی سربراہی سنبھالے ہوئے ہے۔

تاریخی طور پر یہ اس وقت تک پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی سیاست مزاحمتی رہی جب بھی پارٹی نے مخلوط حکومت میں حصہ لیا۔ جس سے ایک طرف اس کے مزاحمتی سیاست اور بنیادی نظریے کو نقصان پہنچا تو دوسری طرف پارٹی کے اندر مفادات کی وجہ سے اختلافات بڑھتے گئے۔ 1990 کی دہائی میں اور 2013 میں جب پارٹی صوبے میں اتحادی تھی، تو پارٹی اندرونی طور پر ڈگمگا گئی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں نے پارٹی کو اندرونی طور پر کھوکھلا کیا۔ پارٹی میں تلخی کی موجودہ لہر چونکا دینے والی اور سنگین ہے جو کہ پارٹی میں مفاہمت کی صلاحیت رکھنے والے محمد عثمان خان کاکڑ کی شہادت کے بعد مزید تشویشناک ہو گئی ہے۔

اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ ہوچکے ہیں جہاں تلخی اور اختلافات گلی کوچوں کی سیاست تک پہنچ چکے ہیں۔ اختلافات کی موجودہ لہر پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی کے بھائی محمد خان اچکزئی کی گورنر بلوچستان نامزدگی کے فوراً بعد شروع ہو گئے۔ اس اقدام کی محمد عثمان خان کاکڑ اور پھر پارٹی کے سیکرٹری جنرل اکرم شاہ لالہ نے شدید مخالفت کی ( اکرم شاہ لالا نے بعد میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی اور اس سے دہائیوں پرانی وابستگی ختم کر دی) ۔

پارٹی کے اختلافات اب اجتماعات تک بھی پہنچ گیا ہے جہاں ایک دوسرے کی مخالفت اور مذمت کرنا معمول کی بات ہے۔ ایک طرف، ایک طبقہ غیر علانیہ طور پر جس کی قیادت خوشحال خان کاکڑ کر رہے ہیں، جو محمد عثمان خان کاکڑ کے نوجوان بیٹے ہیں، جنہیں بڑے بڑے لوگوں (پارٹی، صوبائی اور مرکزی ایگزیکٹو ممبران) کی زبردست حمایت حاصل ہے خوشحال خان کاکڑ اپنی والد کی طرح بڑا اجتماع منعقد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور طالبان کے بارے میں ان کے مزاحمتی بیانات (جو ماضی میں PKMAP کا بیانیہ رہا ہے ) نے انہیں پارٹی کارکنوں میں ہردلعزیز بنا دیا ہے۔ ایک اجتماع میں طالبان پر پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق صوبائی وزیر عبیداللہ جان بابر کی تنقید کے بعد پارٹی چیئرمین کا یہ کہنا کہ مجھے غصہ نہ دلایا جائے ورنہ میں طالبان کا وزیر خارجہ بنوں گا۔ ثابت کرتا ہے کہ پارٹی میں بیانیے کی جنگ چھڑ چکی ہے اور یہ کہ بیانیے کے حوالے سے سب اچھا نہیں۔

اختلاف رائے کے باوجود یہ گروپ ابھی تک محمود خان اچکزئی کی قیادت پر متحد اور متفق ہے جس نے ابھی تک محمود خان اچکزئی کی چیئرمین شپ کو چیلنج نہیں کیا۔ اس سال پارٹی کی قومی کانگریس کے دوران اختلافات اپنے عروج پر پہنچ گئے جب پارٹی کے سینئر نائب صدر کے انتخاب پر اندرونی خلفشار ہوئی کچھ خفیہ ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ قیادت کی اکثریت محمود خان اچکزئی کے صاحبزادے کو صوبائی ایگزیکٹو کمیٹی میں شامل کرنے کے خلاف تھی جو اس وقت برطانیہ میں زیر تعلیم ہیں اور ان کی پارٹی میں کوئی عملی خدمات نہیں ہیں۔ وہ اسے لانچنگ پیڈ سمجھتے ہوئے اسے جمہوری اصولوں کے خلاف بڑھتے ہوئے موروثیت کے رجحان کا ایک حربہ قرار دیتے ہیں۔ جس کے مطابق خود پارٹی کے چیئرمین نے انہیں جمہوری جدوجہد اور رویوں کے بارے میں سکھایا ہے۔

ایک اور مایوسی جو بہت سے پارٹی کارکنوں میں محسوس ہوتی رہی ہے وہ متوسط ​​طبقے کے بہت سے رہنماؤں کو نظرانداز کرنا ہے مثلاً دو بار ایم پی اے رہنے والے جناب نصراللہ خان زیرے جو طالب علمی کے زمانے سے ہی سیاست میں رہے ہیں جن کا ایک غیر متزلزل کیریئر ہے۔ انہیں صوبائی سیکرٹری نامزد کیا گیا ہے جبکہ وہ اس سے زیادہ کے مستحق تھے۔ ایک عام مشاہدہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پارٹی چیئرمین کے خاندان کے تین افراد کی صوبائی ایگزیکٹو میں شمولیت کو مثبت انداز میں نہیں دیکھا گیا۔

پی کے میپ کی جمہوریت کے لیے مزاحمت اور پشتون قوم میں بیداری پیدا کرنے کی ایک بہترین تاریخ رکھتی ہے۔ بے شمار خامیوں کے باوجود یہ آج بھی پشتون قوم کی ایک بہت بڑی آواز ہے۔ اس کی موجودہ اندرونی گروہ بندی مہلک ہے اور اگر اس کا علاج نہ کیا گیا تو یہ پشتون معاشرے میں ملا ازم اور بنیاد پرستی کو مزید تقویت دے گی جو پہلے ہی اسے دیمک کی طرح لپیٹے ہوئے ہیں۔ خود احتسابی کا عمل اب نہیں تو کبھی نہیں والی نہج پر پہنچ چکی ہے۔ کیا پارٹی لیڈرشپ اس نکتے پر دھیان دے سکے گی؟ موجودہ طرزعمل کو دیکھتے ہوئے جواب غیر واضح اور غیر یقینی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments