پریم چند کے افسانے ”کفن“ کا تجزیہ


پریم چند ”کفن“ میں دو گاؤں والے، گیسو اور مادھو، مادھو کی بیوی کی موت کے سامنے ان کی مضحکہ خیز رد عمل کو پیش کرتے ہیں۔ پریم چند ”کفن“ میں مزاحیہ لب و لہجہ اختیار کر کے انسانیت کے حاشیہ کے تحت گھومتی ہوئی اجنبی کی درماندگی، اور انسانی زوال کے دور میں جرت، خود فراموشی اور پچھتاوے کے درمیان انتخاب کے سامنے انسانوں کی تذبذب و ہچکچاہٹ کو پوری طرح سے پیش کرتے ہیں۔ پریم چند کے افسانے اس سوال کے حوالے سے ہمشہ قارئین کو دعوت دیتے ہیں کہ لوگوں سے ہماری اخلاقی توقع کس حد تک غیر ضروری ہے، اگر جابرانہ نہیں۔

پریم چند اپنے کاموں میں اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ تقدیر کی لعنت میں الجھے ہوئے لوگ اپنی حدود پر قابو پانے کے بجائے توہم پرستی پر بھروسا کرتے ہیں۔ خاص طور پر، جب کہ وہ اس بات میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ کس طرح پسماندہ طبقے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ذات پات کے نظام تیار کیا گیا ہے، وہ مانتے ہیں کہ اس کھیل میں کوئی بھی فاتح نہیں ہے۔ پریم چند ”کفن“ میں خاندان کی طرف خواتین کی لگن اور معاشرے کی جانب سے دی گئی سماجی توقعات کے سامنے مردوں کی بے حسی کے درمیاں ایک واضح موازنہ پیش کرتے ہیں۔ جبکہ پریم چند گھیسون اور مادھو دونوں کرداروں کی بے غیرتی پر تنقید کرتے ہیں، وہ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا ایسے ذلیل لوگ معاشرے کے طفیلی ہیں جنہیں اپنے ذاتی مفاد کے سوا کوئی دوسری فکر نہیں، یا معاشرے کے شکار ایسے لوگ ہیں جو اپنی کامیابی کے مواقع سے انکاری ہیں؟

ادبی حقیقت پسندی پریم چند کے افسانے کی ایک امتیازی خصوصیت ہے۔ ”کفن“ میں، وقت، جگہ، آواز اور منظرکشی کو اس طرح ملایا جاتا ہے کہ سامعین، دیہاتی ماحول میں جذب ہو جاتے ہیں۔ ہم پہلے حصے میں دیکھ سکتے ہیں کہ راوی مادھو کی بیوی کی قربانی اور مادھو کے بے رحمی کے درمیان تضاد کو تصور اور آوازوں کے ذریعہ پیش کرتے ہیں۔ مثلاً بجھے ہوئے الاؤ ”کے تین اشارتی مفہوم ہیں : بیوی کی کمزوری، گھیسو اور مادھو کی مایوسی اور انسانیت کا زوال۔ اس کے علاوہ، ہم کرداروں کے“ پھٹے چیتھڑوں ”اور کھانے کے ساتھ ان کی جنونی رغبت سے ان کی مسکین حالت کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہم بھی بیوی کی دکھ بھری شکایات کو ان کی“ پتھرائی ہوئی آنکھیں ”سے محسوس کر سکتے ہیں جو مادھو اور ہندو معاشرے کی طرف دکھ بھری نظروں سے گھور رہی ہے۔

اس افسانے کا مزاحیہ مزاج تنقید کی طاقت کو کم کرنے کے بجائے پریم چند کے پیغام کی تابناکی اور شدت کو بڑھاتا ہے۔ مثلا، وہ گھیسو اور مادھو کی ”آدام طلب اور آلسی“ کو بیان کرنے کر لئے ”بڑے بڑے اژدھا کنڈلیاں“ کی تشبیہ کو استعمال کرتے ہیں۔ پریم چند مزاحیہ مزاج کو طنزیہ زبان سے چڑھاتے ہیں جب گھیسو کا ”زاہدانہ انداز“ کی طرز زندگی اور مادھو گھیسو کے نقش قدم کی تسلسل کے لئے اس کی ”سعادت“ کو بیان کرتے ہیں۔ آخر میں، طفلانہ سوالات کے استعمال سے کرداروں کی جہالت اور توہم پرستی کو ظاہر کیا جاتا ہے، جسے ”کیوں دادا ہم لوگ بھی تو وہاں ایک نہ ایک دن جائیں گے ہی“ ۔

” کفن“ میں ہمہ گیر نقطہ نظر اختیار کیا جاتا ہے جس کے ذریعہ قاری کرداروں کے شعور اور نفسیاتی کشمکش میں جھانک سکتا ہے۔ یہ آسان ہے کہ قارئین کرداروں کے بارے میں منفی تاثر رکھتے ہیں کیونکہ وہ ظاہری بے شرمی، تہیی دماغ اور جاہل ہیں۔ لیکن جیسا کہ راوی ان متنازعہ کرداروں کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کو پیش کرتے ہیں، اب ہم انہیں صرف معاشرے کے طفیلی کے طور پر دیکھنے کے بجائے انہیں معاشرے کے ہارے ہوئے لوگوں کے طور پر تصور کر سکتے ہیں۔

راوی کہتے ہیں : ”جس سماج میں رات دن محنت کرنے والوں کی حالت ان کی حالت سے کچھ بہت اچھی نہ تھی اور کسانوں کے مقابلے میں وہ لوگ جو کسانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا جانتے تھے کہیں زیادہ فارغ البال تھے، وہاں اس قسم کی ذہنیت کا پیدا ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی“ ۔ جبکہ راوی کو ان دونوں کرداروں سے بہت زیادہ ہمدردی نہیں ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ خواہ وہ کتنی ہی کوشش کر لیں، نہ ہی ”تہیی دماغ جمعیت“ میں شامل ہونے والے کسان نہ ہی گھیسو اور مادھو، جن کے ”سادگی اور بے زبانی“ ان کی اپنی بقا کی حکمت عملی ہے، سر غنہ اور اشرافیہ کے ظلم سے تو بچ سکتے ہیں۔ راوی ایک باریک بین ن‍‍ظریہ پیش کرتے ہیں جو کرداروں کی شخصیت کے بارے میں سطحی رائے کو مسترد کرتا ہے۔

آخر میں، ادبی صناع و بدائع کے انوکھے امتزاج سے ”کفن“ کی جمالیاتی قدر کو بلند کیا جاتا ہے۔ ”کفن“ دیہی زندگی کی ایک عام کہانی ہے اور ایسی المناک واقعات اکثر سنے میں آتے رہتے ہیں جس میں لوگ معاشرے کی اخلاقی منافقت اور اپنی کمتری کے احساس کے باعث معاشرے سے بیگانہ ہو جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments