پاکستانی اردو ناول میں عصری تاریخ – 1947 تا 2007 از شاہد نواز


تاریخ کیا ہے؟ گزرا ہوا زمانہ؟ گزرا ہوا زمانہ مطلب جو گزر گیا۔ بیت چکا۔ گیا۔ یعنی اب اس پر کسی کو اختیار نہیں ہے۔ وہ واقعات جو اس زمانے میں رونما ہوئے ان پر بھی کسی کا کوئی اختیار نہیں۔ چاہے کوئی بادشاہ ہویا فقیر، اس معاملے میں سب بے بس ہیں۔ اب عام آدمی، بھکاری ہو یا فقیر (حقیقی فقیر۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی مجازی فقیر بھی ہوتا ہے۔ جی بالکل ہوتا ہے۔ ہم نے تو کئی دنیا داروں کو مرنے کے بعد فقیر ثابت ہوتے اور عالیشان مزارات میں آسودہ ہوتے دیکھا۔

اب معلوم نہیں کہ صاحب مزار آسودہ ہے یا نہیں البتہ ان کے وارث تو بہت آسودہ ہیں۔ ) کو تو ماضی کے واقعات سے کچھ خاص غرض نہیں ہوتی۔ انہیں گزرے ہوئے وقت سے دلچسپی ہوتی ہے نہ فرصت۔ ہاں البتہ بادشاہوں کو تاریخ سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ اب بادشاہ تو بادشاہ تھے ؛ تاریخ کے ساتھ بھی وہی کرتے رہے جو غلاموں اور عوام کے ساتھ کرتے تھے۔ بادشاہ تو نہ رہے لیکن تاریخ کے ساتھ آج تک وہی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ ہمارا موضوع بادشاہوں کے دور میں لکھی تاریخ کا مطالعہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کے تناظر میں اردو ناول کا مطالعہ ہے۔ اب مطالعہ چاہے ناول کا ہی کیوں نہ ہو، تاریخ کے تناظر میں ہو گا تو، تاریخ زیر بحث آئے گی۔

تاریخ ماضی کی بازیافت کا نام ہے۔ تاریخ صرف ماضی کے واقعات کا بیان نہیں بلکہ ان واقعات کے اسباب و علل اور نتائج کو بھی سامنے لاتی ہے اس لیے بہت اہم ہو جاتی ہے۔ اب قوموں کے عروج و زوال کے اسباب اور حاصل شدہ نتائج سے سبق سیکھیں یا تاریخ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں یہ آپ کی مرضی پر منحصر ہے۔ تاریخ کو دوسری اقوام سے کاٹ کر نہیں دیکھا جا سکتا اس لیے کہ قوموں یا ملکوں کے عروج و زوال کی حرکیات ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔

اس لیے تاریخ میں رد و بدل یا اسے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرنا، درست نہیں اور نہ ہی زیادہ دیر تک چھپ سکتا ہے۔ یہ جاننے کے باوجود تاریخ کو ہمیشہ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ وہ سماج جہاں مقتدر قوتیں عوام دوست ہوتی ہیں اور عوام کی رائے کو اہمیت دیتی ہیں وہاں ”بنیادی تاریخ“ لکھی جاتی ہے یعنی تاریخ کو عوامی زاویہ سے لکھا جاتا ہے۔ اور وہ سماج جہاں ہیئت مقتدرہ عوامی رائے کو اہمیت نہیں دیتی وہاں تاریخ عوام کو کنٹرول اور عوامی ذہن سازی کے لیے لکھوائی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان میں تاریخ کا دوسرا نقطہ نظر رائج رہا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ حقیقی تاریخ کہاں سے لی جائے؟ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ آخر ایک محقق کو عصری تاریخ کے لیے پاکستانی اردو ناول کا سہارا کیوں لینا پڑا؟ ادب کو زندگی کا عکاس کہا جاتا ہے۔ زندگی کی سچی کھری اور حقیقی تصویر کے لیے ادب سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ادب سماج اور تاریخ کا ایک متبادل بیانیہ ہے۔ ہمارے محقق شاہد نوازنے پاکستانی عصری تاریخ کو جاننے کے لیے اردو ناول کا سہارا لیا۔ یا اردو ناول سے عصری تاریخ کو سامنے لائے ہیں۔ بظاہر یہ ایک ہی سوال لگتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ یہاں ہم صاحب کتاب کا نقطہ نظر دیکھتے ہیں۔

”ناول اور عصری تاریخ پر کام کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی، کہ مجھے ہمیشہ اس بات کا افسوس رہا، کہ ہماری آنے والی نسلیں تاریخ کے معاملے میں اندھی، گونگی اور بہری رہیں گی۔ تاریخ کہ، جو قوموں کے مستقبل کا تعین کرتی ہے، ہمارے ہاں اس طرح مرتب ہوئی ہے کہ اس کو پڑھ کر کوئی نسل بھی درست حقائق تک نہیں پہنچ سکتی۔ اپنے مورخین سے اس پہلو پر توجہ دینے کی استدعا ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ اگر مورخ اپنے فریضے سے کنی کترا رہا ہے تو ادب کی مدد سے تاریخ کے درست حقائق کو پیش کرنے کی سعی کی جائے۔“

اور سچ پوچھیں تو، اس کتاب کی طرف میری توجہ کا سبب بھی عصری تاریخ بنی۔ میرا خیال یہ ہے کہ مورخ جتنا بھی غیر جانبدار ہو یا غیر جانبداری کا دعویٰ کرے اپنے بنائے ہوئے دائروں کو کلیتا توڑنے سے قاصر رہتا ہے، اس لیے کہ وہ شعوری طور پر تاریخ مرتب کر رہا ہوتا ہے۔ جب کہ تخلیق کار مورخ کی طرح تاریخ مرتب نہیں کر رہا ہوتا۔ وہ زندگی کی مرتب تصویر پیش کر رہا ہوتا ہے۔ وہ زندگی جو کسی خاص ترتیب میں نہیں، اسے ترتیب دے رہا ہوتا ہے۔

اس کے سامنے اس کے عصر کی زندگی ہوتی ہے، عصری تاریخ تو زندگی کے ساتھ ہی تخلیق میں خود بخود جگہ پا لیتی ہے۔ اس لیے حقیقت کے قریب تر ہو جاتی ہے۔ شاہد نواز نے ادب کی وہ صنف منتخب کی ہے جو زندگی کی وسیع کینوس پر، گہرائی اور گیرائی کے ساتھ عکاسی کے لیے مشہور ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے اس تحقیقی عمل میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ان کا ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ ہے جو 2013 میں مکمل ہوا۔ اپنے اس تحقیقی منصوبے کو انہوں نے 1947 سے 2007 تک لکھے گئے پاکستانی اردو ناول تک محدود کیا ہے۔

اس کتاب کو (کیونکہ مقالہ اب کتابی صورت شائع ہو چکا ہے ) چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے، ساتوں باب محاکمہ ہے اور آخر میں ماخذات بتائے گئے ہیں۔ باب اول کو ”اردو ناول کی روایت اور عصری تاریخ“ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس باب کو دو ذیلی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے کو ”مبادیات ناول“ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس حصے میں شاہد نواز نے قصہ اور کہانی کیا ہے، انسان کا قصہ اور کہانی کے ساتھ تعلق، کہانی اور ناول، ناول کا آغاز، اردو ناول کا آغاز اور روایت جیسے موضوعات پر بات کی ہے۔

اس باب کے دوسرے حصے کو ”اردو ناول میں عصری تاریخ (آغاز سے 1947 ) کا عنوان دیا ہے۔ یہ حصہ ان کے اصل موضوع کے لیے مطالعے کا پس منظر بن رہا ہے۔ اس حصے میں 1857 کے بعد کے حالات، سرسید تحریک کی ادبی خدمات، اور اردو ناول کے آغاز کے محرکات پر مختصر مگر جامع انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس حصے میں مولوی نذیر احمد، رتن ناتھ سرشار، مرزا ہادی رسوا، پریم چند، سجاد ظہیر، عصمت چغتائی، کرشن چندر، عزیز احمد، ممتاز مفتی، اور فضل کریم فضلی کے ناولوں میں عصری تاریخ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ممتاز مفتی کا ناول علی پور کا ایلی اور فضل کریم فضلی کا ناول خون جگر ہونے تک قیام پاکستان کے بعد لکھے گئے لیکن ان ناولوں کا موضوع چونکہ قیام پاکستان سے پہلے کا ہندوستان ہے اس لیے ان ناولوں کو بھی اسی پس منظری مطالعے کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اس کتاب کا دوسرا باب ”پاکستان کی تاریخ (1947 تا 2007 )“ کے عنوان سے بنایا گیا ہے۔ اسی دور کی تاریخ کا مطالعہ پاکستانی اردو ناول کی روایت سے کرنا مقصود تھا اس لیے اس دور کی سیاسی، سماجی، معاشی اور عسکری تاریخ کا مطالعہ ضروری تھا۔ جو کہ اس باب میں کیا گیا ہے۔ مصنف نے پاکستانی سیاست میں آنے والی تبدیلی کی بنیاد پر ابواب بندی کی ہے۔ اس باب میں اختصار کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ زیادہ تر تاریخ کا مروجہ بیانیہ زیربحث لایا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ متبادل تنقیدی نقطہ نظر بھی دیا گیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس باب میں متوازن رویہ اختیار کیا گیا ہے، حالانکہ یہاں جذباتی ہونے کے امکانات خاصے زیادہ تھے۔

تیسرا باب ”پاکستان کی پہلی دہائی اور اردو ناول“ کے عنوان سے بنایا گیا ہے۔ سیاسی حوالے سے یہ پر آشوب دور تھا (اگرچہ پاکستان کا ہر دور پر آشوب ہی رہا ہے ) ۔ اس دور کے آشوب کی وجہ کچھ اور تھی۔ یہ دور ہجرت اور فسادات، جڑوں سے کٹنے اور شناخت کے سوال سے جڑا تھا۔ اس باب میں خدیجہ مستور، انتظار حسین، شوکت صدیقی، عبداللہ حسین، نسیم حجازی، قرۃ العین حیدر، ممتاز مفتی، مستنصر حسین تارڑ، رشیدہ رضویہ اور غلام الثقلین نقوی کے ناولوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس باب کی اختتامی تحریر سے ایک مختصر پیراگراف۔

”مورخ اس طرح کی تاریخ نویسی سے ہمیشہ قاصر رہتا ہے۔ ادب کا علامتی پیرایہ، ابلاغ کا موثر ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان اپنے ابتدائی دس سالوں میں جس قدر لوٹ مار اور بدانتظامی کا شکار ہوا اگر ان معاملات پر قابو پا لیا جاتا تو پاکستان کی بنیادیں راستی اور مضبوطی سے اٹھائی جا سکتی تھیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور تھی، انہوں نے اپنے فرائض سے غفلت برتی اور خود غرضی کی انتہا کر دی۔“

اب سوال یہ ہے کہ باگ ڈور کس کے ہاتھ میں تھی؟ چوتھا باب ”پاکستان میں تیرہ سالہ آمریت اور اردو ناول (1958 تا 1971 )“ کے عنوان سے بنایا گیا ہے۔ اس باب میں انیس ناگی، انور سجاد، انتظار حسین، شوکت صدیقی، خالدہ حسین، مستنصر حسین تارڑ، طارق محمود، رشیدہ رضویہ، عبداللہ حسین، شوکت صدیقی، محمد حمید شاہد، خالد فتح محمد جیسے ناول نگاروں کے ناولوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ پانچواں باب ”پاکستان میں جمہوریت، آمریت اور اردو ناول (1) ، (1972 تا 1988)“ کے عنوان سے اور چھٹا باب ”پاکستان میں جمہوریت، آمریت اور اردو ناول (2) ، (1988 تا 2007)“ کے عنوان سے بنائے گئے ہیں۔

ساتوں باب ”محاکمہ و نتائج“ کے عنوان سے بنایا گیا ہے۔ ان دونوں ابواب کے مباحث اور ان میں زیر بحث آنے والے ناول خاصے کی چیز ہیں۔ ان مباحث کو بھی جرآت مندی کے ساتھ چھیڑا گیا ہے جنہیں عموماً فرائض منصبی کی مجبوری میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ محاکمہ بھی زور دار ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کتاب اردو ناول کے حوالے سے بالکل منفرد زاویہ نگاہ کی حامل ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب اردو ناول کی تنقید میں ایک اہم اضافہ ہے۔ یہ کتاب شعبہ اردو یونیورسٹی آف سرگودھا سے شائع ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments