امیر خان میر: چترالی ادب، ثقافت اور تمدن کا امین


امیر خان میر صاحب سے میری پہلی ملاقات فریدہ سلطانہ فری صاحبہ کی کتاب کی رونمائی کے موقع پر ہوئی تھی۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب نے پروگرام کے بعد ان سے میرا تعارف کرایا۔ امیر خان میر صاحب نے میرے مقالے کی تعریف کی اور مجھے شاباش دی۔ اس کے بعد ڈاکٹر فیضی صاحب سے امیر خان میر صاحب کی شخصیت اور خدمات کے متعلق کافی کچھ جاننے کا موقع ملا۔ ان سے ملنے کی خواہش ہمیشہ دل میں مچلتی تھی لیکن کبھی یہ شرف حاصل نہ ہو سکا۔

اس خواہش کا اظہار کئی بار اقبال صاحب سے کیا لیکن کچھ نجی مصروفیات کی وجہ سے ملاقات نہ ہو سکی۔ پچھلے سال عید قربان کے موقع پر اقبال صاحب نے مجھ سمیت عمران الحق اور عطاء اللہ کو عشائیے پر بلایا۔ انتہائی زبردست پروگرام تھا۔ لذیذ کھانوں کے ساتھ ساتھ جناب امیر خان میر صاحب کی محفل اور ان کی شیریں باتوں سے بھی خوب لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا۔ یہ محفل میری زندگی کے چند اہم اور خوشگوار محفلوں میں سے ایک تھی۔ اس کے لئے میں تا حیات اقبال صاحب کا شکر گزار رہوں گا۔

اس ملاقات میں انہوں نے پاکستان کے قیام سے لے کر موجودہ حالات اور مشکلات پر ایک پر مغز گفتگو کی۔ سیاست سے لے کر معیشت پر ان کا تجزیہ کسی تجربہ کار سیاست دان اور معیشت دان سے کم نہ تھا۔ اس گفتگو میں اپنے بچپن کا ذکر کیا۔ جماعت اسلامی کے نظریے اور جماعت میں موجودہ مسائل کا بھی احاطہ کیا۔ نیز یہ محفل ہم جیسے طفلان مکتب کے لئے کسی درسگاہ کی کلاسوں سے کم نہ تھی۔

اس پوری گفتگو میں مجھے ان کی شخصیت میں نہ موجودہ دور کے جماعتی ساتھیوں جیسا رویہ نظر آیا نہ ہی پالیسی۔ ان کے ہر ایک جملے سے یہی لگ رہا تھا کہ یہی تو ہیں جن کو سید مودودی کا اصل جانشین کہا جاسکتا ہے۔

اپنے دور نظامت کا ذکر کیا اور اپنے سیاسی مخالفین کو انتہائی خوبصورتی سے یاد کیا۔ مجھے جس بات نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کا اس دور کے ضلع ناظم جناب شہزادہ محی الدین صاحب اور اس وقت کے ایم این اے جناب عبد الاکبر چترالی صاحب کے بارے میں رائے تھی۔ کسی سیاسی معاملے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مخالف شہزادہ محی الدین صاحب کی قائدانہ صلاحیتوں کو خوبصورت الفاظ سے یاد کیا اور اپنی جماعت کے مولانا چترالی صاحب کی غیر سنجیدہ عمل کو نہ صرف نا پسند کیا بلکہ اس روئے کو چترالی روایات اور ثقافت کے منافی بھی قرار دیا۔

ایسے اصول پسند انسان میں نے بہت کم ہی دیکھے ہیں جو ڈنکے کی چوٹ پر صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہتے ہوں۔ ہمارے یہاں تو ”میں حق پر ہوں اور تم غلط“ کی روایت رہی ہے۔ اس دور میں امیر خان میر صاحب جیسے لوگ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ہیں۔

امیر خان میر صاحب سے آخری ملاقات چوتھی ہندوکش کلچرل کانفرنس کے موقع پر ہوئی تھی۔ اس وقت ان کے فرزند اور ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب ان کے ساتھ تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار پھر شفقت سے بلا کر مجھے ان سے ملوایا۔ میں ان سے ملا، ان کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور دعا کی درخواست کی۔ انہوں نے کامیابی کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کر کے دعا کی اور مجھ سے گلے مل کر خدا حافظ کہا۔

میری ان سے پہلی ملاقات بھی ڈاکٹر صاحب کی بدولت ہوئی تھی اور آخری ملاقات بھی ( جو کہ وداعی ملاقات ثابت ہوئی) ۔ ان دو ملاقاتوں کے درمیان اقبال صاحب نے ایک ایسی محفل کا انعقاد کرایا جو تا حیات میرے لئے ایک خزانہ رہے گا۔ ان ملاقاتوں کے لئے میں ان دونوں صاحبان کا ہمیشہ شکر گزار رہوں گا۔

امیر خان میر صاحب ایک نیک سیرت، ہنس مکھ، خوش لباس، درویش صفت، اعلی پائے کے ادیب اور نفیس انسان تھے جو سب سے محبت کرنے والے اور ذاتیات سے پرہیز کرنے کے قائل تھے۔ وہ جماعت اسلامی چترال کے چند نیک اور بے داغ رہنماؤں میں سے ایک قیمتی نگینہ تھے۔ بحیثیت مرکزی صدر انجمن ترقی کھوار بھی ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یقیناً ان کی رحلت کی وجہ سے چترالی ادب، تاریخ، کھوار شاعری، تمدن اور سیاست میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی بھی پر نہیں ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments