اقتدار کے سفاک کھیل میں اعظم تارڑ کی ”قربانی“


ثاقب نثار کی سربراہی کے دنوں میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے جب نواز شریف صاحب کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کردینے کے بعد کسی بھی عوامی عہدے کے لئے تاحیات نا اہل کر دیا تو وہ ”مجھے کیوں نکالا“ کی دہائی مچاتے ہوئے جی ٹی روڈ کے ذریعے اسلام آباد سے لاہور روانہ ہو گئے۔ مذکورہ سفر کے دوران شہر شہر ہوئے جلسوں میں انہوں نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ بھی متعارف کروادیا۔ اس نعرے کی بدولت ہمارے کئی سادہ لوح نوجوانوں نے طے کر لیا کہ وہ ”انقلابی“ بن گئے ہیں۔

نواز شریف صاحب کی ”انقلابی“ صفات کو زیر بحث لانے سے قبل مجھے اعتراف کرنا ہو گا کہ حقائق خواہ جو بھی رہے ہوں۔ سابق وزیر اعظم کو ”پانامہ دستاویزات“ میں منکشف ہوئے جن حقائق کی بنیاد پر عدالتوں کے روبرو رگیدا گیا وہ کئی اعتبار سے ناقص تھے۔ ”ٹیکس چوری“ اور ”ٹیکس ادا کرنے سے گریز کی راہیں اختیار کرنا“ بنیادی طور پر دو مختلف رویے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ٹیکس سے ”گریز“ معمول کی بات ہے۔ اس کے لئے Tax Avoidanceکی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ اسی باعث دنیا میں ورجن آئی لینڈ جیسے ممالک نے اپنے ہاں ”آف شور کمپنیاں“ قائم کرنے کی سہولت فراہم کی۔ موبائل اور کمپیوٹر کے دھندے میں مثال کے طور پر Appleایک بہت بڑا نام ہے۔ وہ قانونی اعتبار سے مگر امریکہ میں ”رجسٹر“ نہیں۔ امریکی کمپنی کا ”آف شور“ قائم ہوئے ہیڈکوارٹر سے چلانے کا حقیقی سبب اس کا اپنے ملک میں ٹیکس کا نظام ہے جس کے ہوتے ہوئے زیادہ سے زیادہ منافع نہیں کمایا جاسکتا۔ امریکہ میں کم از کم اجرت کے قوانین بھی لاگوہیں۔ اس کمپنی نے لہٰذا اپنے موبائل اور لیپ ٹاپ وغیرہ چین جیسے ممالک میں اسمبل (Assemble) کرنا شروع کردیے۔

جدید ترین ٹیکنالوجی سے تیار ہوا جو مواد ان اشیاءکو اسمبل کرنے چین بھجوایا جاتاتھا اس کی تیاری کے ہنر کو وہاں کے ذہین لوگوں نے نہایت لگن سے جاننے کی کوشش کی۔ بالآخر اپنے تئیں ایسے موبائل اور ایپس تیار کر لیں جو امریکی برانڈ ناموں سے کہیں زیادہ سستی ہیں۔ کمپیوٹر کے شعبے میں چین نے جو حیران کن مہارت حاصل کی اس نے امریکہ کوپریشان کر دیا۔ اب ”انسانی حقوق“ کے بہانے کوشش ہو رہی ہے کہ امریکی کمپنیوں کی تیار کردہ مصنوعات ویت نام یا بھارت جیسے ممالک میں سستی اجرت ادا کرتے ہوئے مارکیٹ میں فروخت کے قابل بنائی جائیں۔

اصل موضوع سے مگر بھٹک گیا ہوں۔ سوال یہ زیر بحث لانا تھا کہ نواز شریف کس حد تک ”انقلابی“ ہیں۔ مذکورہ سوال کا مناسب جواب تلاش کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ میرے اٹھائے سوال کا ”ایہہ منظورتے ایہہ نا منظور“ والے رویے سے جواب نہیں دیا جاسکتا۔ سیاست سے جڑے سوالات کا سیاہ یا سفید والا جواب فراہم کرنا قطعاً بچگانہ رویہ ہے۔

نواز شریف صاحب کو باقاعدہ منصوبے کے ساتھ ان کے مخالفین نے جن میں چند ریاستی ادارے بھی شامل تھے بہت مہارت سے گھیرے میں لے لیا تھا۔ عمران خان صاحب نے اپنی جارحانہ سیاست کی وجہ سے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور خود کو ”چور اور لٹیرے“ سیاستدانوں کے مقابلے میں یک وتنہا ایمان دار متبادل کے طور پر پیش کیا۔ گھیرے میں آئے نواز شریف اپنے مداحین کو تاہم اس کے باوجود زیادتی کا شکار ہوئے نظر آئے۔ ”ووٹ کو عزت دو“ والے نعرے نے انہیں مزاحمت کی جانب دھکیلنا شروع کر دیا۔ دریں اثناءمحترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی جان لیوا بیماری کو جس بے رحمانہ انداز میں مسلم لیگ (نواز) کے مخالفین نے تمسخر کا نشانہ بنایا اس نے نواز شریف صاحب کے لئے پرخلوص ہمدردی کے جذبات بھی ابھارے۔ ان جذبات کی وجہ سے دیدہ دلیر مداخلت کے باوجود نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کی ٹکٹ پر کھڑے افراد جولائی 2018 کے انتخابات کے دوران سیاست سے کاملا خارج نہ ہوئے۔ قومی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کی صورت واپس آ گئے۔

اقتدار میسر ہو جانے کے باوجود عمران خان صاحب مگر انہیں معاف کرنے کو آمادہ نہ ہوئے۔ اس کے قدآور رہ نماؤں کو نیب کے ذریعے ذلیل ورسوا کرتے رہے۔ رانا ثناءاللہ کو منشیات فروشی جیسے گھناؤنے الزام میں ملوث کرنے کی کوشش ہوئی۔ عمران حکومت کے ہاتھوں مسلم لیگ (نون) کے قدآور رہ نماؤں کی مسلسل تذلیل ورسوائی ان کے لئے مزید ہمدردی کا باعث ہوئی۔ مذکورہ ہمدردی کو نواز شریف کی دختر محترمہ مریم نواز نے نہایت استقامت سے مزاحمت میں بدلنا چاہا۔

ہمارے ہاں کا ریاستی بندوبست مگر بہت تگڑاہے۔ محض پرجوش جلسے اور جلوس اسے جھکانہیں سکتے۔ برطانوی سامراج نے ”سرکار“ کو یہ ہنر بھی سکھارکھا ہے کہ حالات کو ”بے قابو“ نہ ہو جانے دیا جائے۔ تھوڑی لچک دکھاکر معاملات بگڑنے سے بچا لینا ہی ”سرکار“ کا اصل ہنرہوتا ہے۔ مذکورہ فریضہ نبھانے کے لئے ہی نواز شریف صاحب کو جیل سے نکال کر لندن بھجوانا پڑا۔ وہ لندن چلے گئے تو ”ووٹ کو عزت دو“ کی بنیاد پر اٹھی مزاحمت کی لہر بھی دم توڑنا شروع ہو گئی۔ ریاستی جبر کے روبرو بے بس محسوس کرتے مسلم لیگ (نون) میں شامل روایتی الیکٹ ایبلز کی کثیر تعداد بھی ”سرکار“ سے سمجھوتوں کی راہ ڈھونڈنے کو مجبور ہو گئی۔ بالآخر اکتوبر 2021 میں ایسے حالات نمودار ہو گئے جنہوں نے ”سیم پیج“ کی بالادستی کو کمزور کر دیا۔ شہباز شریف اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آصف علی زرداری کی لچکدار سوچ سے رجوع کرنے کو مجبور ہوئے اور عمران خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گیم تیار ہو گئی۔ وہ گیم بقول عمران خان ”خطرے ناک“ ردعمل دکھانا شروع ہوئی تو نواز شریف کی وطن واپسی کی ”ضرورت“ بھی محسوس ہونا شروع ہو گئی۔

مذکورہ ”ضرورت“ کی اہمیت کو مہارت سے بھانپتے ہوئے پیر کے روز جوڈیشل کمیشن میں موجود مسلم لیگ (نون) کے نمائندوں نے سپریم کورٹ میں نئی تعیناتیوں کے ضمن میں ”یوٹرن“ لیا ہے۔ اس یوٹرن نے مسلم لیگ (نون) کے سوشل میڈیا پر چھائے ”انقلابیوں“ کو ہکا بکا بنا دیا۔ وہ وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کو طعنے دینا شروع ہو گئے۔ یہ بھول گئے کہ اپنی ”قیادت“ کی واضح رضامندی کے بغیر وہ یہ قدم اٹھا ہی نہیں سکتے تھے۔ بہرحال ”اپنی عزت بچانے“ اعظم تارڑنے اپنے عہدے سے استعفیٰ وزیر اعظم کو بھجوادیا ہے۔ میری دانست میں وہ قربانی کا بکرا ہوئے محسوس کر رہے ہوں گے۔ اقتدار کے سفاک کھیل میں لیکن ایسی ”قربانیاں“ معمول ہوتی ہیں۔ شطرنج کی بساط پر لگی گیم جیتنے کے لئے چند مہروں کو ہر صورت پٹوانا لازمی ہوتا ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments