ایک نئے انسان کی دریافت


آج سے دو چار سو سال بعد ، جب یہ دنیا تباہ ہو کر نئے سرے سے آباد ہو رہی ہوگی، اور اس وقت کا ’انسان‘ آج کے ہوموسیپئن کے بارے میں تحقیق شروع کرے گا، تو اس وقت مائیں اپنے بچوں کو غالباً اس قسم کی کہانی سنائیں گی کہ ایک زمانہ تھا جب لوگ نظریہ ارتقا پر یقین نہیں رکھتے تھے اور انہیں یہ بات ہتک آمیز لگتی تھی کہ ان کے جد امجد بن مانس تھے۔ میں یہ اندازہ تو نہیں لگا سکتا کہ بچے جواب میں ماؤں سے کیا پوچھیں گے لیکن جب انہیں بتایا جائے گا کہ نظریہ ارتقا کا انکار کرنے والوں میں ترقی یافتہ ممالک کے پڑھے لکھے لوگ بھی شامل تھے تو میری طرح آنے والی نسل کا اعتبار بھی پڑھائی لکھائی سے اٹھ جائے گا۔ لیکن اس میں قصور شاید کسی کا بھی نہ ہو کیونکہ کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتا کہ اس کا شجرہ نسب بن مانسوں کے گروہ سے ملایا جائے اسی لیے ہم اکثر یہ جملہ سنتے ہیں کہ ”میں نظریہ ارتقا پر یقین نہیں رکھتا۔“ اور شاید اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ نظریہ مذہب سے متصادم لگتا ہے حالانکہ یہ خلط مبحث ہے مگر یہ موضوع کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

آج صرف اس شخص کا ذکر کرنا ہے جسے گزشتہ ماہ طب کے شعبے میں نوبل انعام سے نوازا گیا، اس کا نام ڈاکٹر ’سوانتہے پے بو‘ ہے، یہ ماہر حیاتیات ہے اور اس کا تعلق سویڈن سے ہے۔ ڈاکٹر سوانتہے پے بو نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس نے ارتقا کے شعبے میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ یہ بات سائنسی طور پر تسلیم شدہ تھی کہ موجودہ تمام جانداروں کا ارتقاء اربوں سال پہلے شروع ہوا تھا، ہومو کی نسل تقریباً تیس لاکھ سال پہلے تیار ہوئی تھی اور ہومو ایریکٹس اٹھارہ لاکھ سال پہلے منظرعام پر آئے تھے مگر ڈاکٹر سوانتہے نے انسانوں کا ایک نیا گروہ Denisovan دریافت کیا ہے جس کے وجود سے ہم پہلے لا علم تھے۔

یہ دریافت کوئی آسان کام نہیں تھا، ڈاکٹر سوانتہے اور اس کی ٹیم نے 2008 میں سربیا کے ایک غار سے ملنے والی انسانی انگلی کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا، یہ بہت محنت طلب کام تھا جس میں کئی برس لگے جس کے بعد وہ اس حتمی نتیجے پر پہنچے کہ اس ڈی این اے کی ترتیب اب تک کے انسانوں کی اقسام میں پائے جانے والے ڈی این اے سے مختلف ہے، اسے Denisovan کا نام دیا گیا۔ اس مرد عاقل نے اپنی تحقیق سے یہ بھی ثابت کیا کہ ہزاروں برس پہلے ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہوموسیپئن، نیانڈرتھل اور ڈینی سوان اکٹھے تھے اور ان میں باہمی اختلاط بھی ہوا تھا جس کا ثبوت آج کے جدید انسان کے ڈی این سے ملتا ہے، دیسی زبان میں کہوں تو آج کے انسانوں میں جو ’ڈنگر پن‘ پایا جاتا ہے اس کی وجہ انہی نیانڈرتھل اور ڈینی سوان کا ڈی این اے ہے۔ ڈاکٹر سوانتہے کا دوسرا کارنامہ نیانڈرتھل کے جینوم کی ترتیب کو سمجھنا ہے، عام زبان میں جینوم سے مراد کسی بھی خلیے میں پائے جانے والی ڈی این اے کی ’ہدایات‘ ہیں جیسے انسانوں میں یہ ہدایات کروموسوم کے تئیس جوڑوں میں پائی جاتی ہیں، جینوم کی ترتیب لگانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا خاص طور سے پرانی انواع میں یہ کام تقریباً نا ممکن ہوتا ہے مگر ڈاکٹر سوانتہے نے اس نا ممکن کام کو ممکن کر دکھایا۔

نظریہ ارتقا پر ڈارون کے زمانے سے اعتراضات کیے جا رہے ہیں، حالانکہ یہ بات اب نظریے سے کہیں آگے نکل چکی ہے، ڈارون کے بعد جنیاتی سائنس اس قدر ترقی کرچکی ہے کہ ارتقا کو جھٹلانا اب ممکن نہیں رہا مگر اس کے باوجود آج بھی کروڑوں لوگ ارتقا کو تسلیم نہیں کرتے، ان کا خیال ہے کہ یہ محض ڈھکوسلہ اور فریب ہے، اور اس فریب کا پردہ خود بہت سے سائنس دان چاک کرچکے ہیں۔ ایسے لوگوں کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ ارتقا کو ثابت کرنے کے لیے جن ناقابل تردید شواہد یا ثبوت کی ضرورت ہے، سائنس اب تک وہ پیش نہیں کر سکی، مثلاً تا حال ایسے بہت سے مسنگ لنک ( مفقود کڑیاں ) ہیں جن کا کوئی جواز موجود نہیں۔

ویسے تو یہ بحث کسی طور بھی یہاں سمیٹی نہیں جا سکتی البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں اب تک ستاسی لاکھ کے قریب انواع دریافت ہو چکی ہیں، اربوں سال سے ارتقا کا عمل جاری ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ ان تمام سپیشیز کے جینوم کی ترتیب لگا کر ثابت کر دیا جائے کہ ان کا جد امجد ایک تھا، مگر یہ ضرور ممکن ہے کہ کچھ جانداروں کے ڈین این اے کا موازنہ کر کے دیکھا جائے کہ آیا وہ ارتقا کے عمل سے گزرے یا اسی حالت میں ہی پیدا ہوئے جس حالت میں آج نظر آتے ہیں، اور جب یہ دیکھا گیا تو ناقابل تردید ثبوت اکٹھے ہوئے جن کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جانداروں کا ارتقا ہوا اور وہ اس شکل میں پیدا نہیں ہوئے جس میں وہ آج نظر آتے ہیں۔ لیکن آپ ایسے جتنے بھی ثبوت لے آئیں کوئی نہ کوئی نا معلوم کڑی ضرور رہے گی جس کی بنیاد پر ارتقائی عمل پر اعتراض کیا جا سکے گا جس کا قیامت تک جواب دینا ممکن نہیں۔

اس کی مثال پیریاڈک ٹیبل جیسی ہے، دنیا میں لا تعداد عناصر ہیں مگر سائنس دان اب تک 118 عناصر کا سراغ لگانے میں کامیاب ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے زمین پر یہ تعداد اتنی ہی ہو مگر یہ ممکن نہیں کہ کائنات میں بھی یہ عناصر اتنی ہی تعداد میں ہوں، ہم قیامت تک بھی ان عناصر کی تعداد معلوم نہیں کر پائیں گے تو کیا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تب تک ان عناصر کی مدد سے کی جانے والی تمام ایجادات کو سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا جائے!

ہر سال جب نوبل انعام کا اعلان کیا جاتا ہے تو یہ بات تقریباً طے شدہ ہوتی ہے کہ طب، ریاضی، کیمیا اور طبیعات وغیرہ کے شعبوں میں انعام پانے والے مغربی ممالک کے لوگ ہی ہوں گے، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دنیا کے تمام ذہین فطین لوگ وہاں پیدا ہوتے ہیں اور سب نالائق ہمارے ہاں، وجہ اس کی وہ ماحول ہے جو تحقیق اور جستجو کے لیے وہاں میسر ہے۔ جس طرح انسان اپنی توانائیاں جب کسی شعبے میں صرف کرتا ہے تو اس شعبے میں کمال حاصل کر لیتا ہے اسی طرح معاشرہ جب اجتماعی طور پر کسی ہنر کو پروان چڑھانے میں مدد کرتا ہے تو اس ہنر کے ماہر افراد معاشرے میں پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

برصغیر میں کئی سو سال تک موسیقی اور شاعری کی سرپرستی کی گئی، بادشاہ وقت شاعروں کا وظیفہ مقرر کرتے تھے، مشاعرے کرواتے تھے، موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتی تھیں، مغنیاؤں اور گویوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی، اس مسلسل سرپرستی کے نتیجے میں بر صغیر نے جو شاعر، موسیقار اور گلوکار پیدا کیے ویسے پوری دنیا میں پیدا نہیں ہوئے۔ بس یہی سیدھا سادا سا اصول ہے جو قوموں پر لاگو ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی قابل لوگ پیدا ہوتے ہیں مگر معاشرے میں ان کے ہنر کی مانگ نہیں، یہاں کمال فن کا کوئی طلب گار نہیں اور یہاں ایکسیلنس کا کوئی مول نہیں۔ ہم اگر اسی طرح عامیانہ پن کو پروان چڑھائیں گے اور اپنے نوبل انعام یافتہ افراد کو مطعون کریں گے تو ہماری یونیورسٹی میں حیاتیات پڑھانے والا نوبل انعام کی چاہ کرنے کی بجائے گریڈ انیس میں انکریمنٹ لگوانے کو ترجیح دے گا کیونکہ اس کے لیے چراغ راہ اور منزل یہی ہے۔

(یہ کالم آج 22 اکتوبر 2022 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments