گاؤں کی گلیاں


کل صبح گاؤں جاتے ہوئے مجھے جدید پنجابی کے مشہور شاعر جناب شریف کنجاہی کی نظم تیرا پنڈ کے یہ بند بہت یاد آرہے تھے

اج اس پنڈ دے کولوں میں لنگھ چلیا جتھوں کدے ہلنے نوں دل نہیں سی کردا
جتھے مینوں نِت پیا رہندہ کوئی کم سی کم کسی سی سچی گل اے جتھے تیرا دم سی
تیرے نال پنڈ حج والی تھاں سی

انہوں نے تو اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے چاہنے والے چلے گئے ہیں اب گاؤں میں کوئی ان کا انتظار کرنے والا نہیں۔ اس لئے وہ اس گاؤں کے پاس سے گزر کر جا رہے ہیں۔میں تو آج پینتالیس سال بعد اپنے گاؤں جا رہا تھا لیکن میرا انتظار کرنے والی میری پیاری بے جی کو پچاس سال پہلے ہی ﷲ میاں نے اپنے پاس بلا لیا تھا۔ جب ستر کی دہائی کے وسط میں والد صاحب کا انتقال ہوا تو میرے چچا مجھے اپنے ساتھ برطانیہ لے آئے تھے۔

اس کے بعد جب بھی چچا وطن واپسی کا پروگرام بناتے تو میں یہ سوچ کر اپنا پروگرام رہنے دیتا کہ وطن میں کس کے پاس جاؤں گا ۔چچا جان کے انتقال کے بعد پھر نہ کسی نے کہا اور نہ ہی میرا پروگرام بنا اور اتنا عرصہ گزر گیا۔ ایک دن رات کو خواب میں بے جی کو دیکھا تو اچانک ان کی قبر دیکھنے کا خیال دل میں آیا تو میں نے پاکستان جانے کا پروگرام بنا لیا۔ بچے بڑے حیران تھے کہ ڈیڈی کو اچانک پاکستان جانے کی کیا سُوجھی ہے۔بیوی اور بچوں نے پہلے تو تنہا جانے سے روکنے کی کوشش کی لیکن میرا مصمم ارادہ دیکھ کر بڑی ہدایات کے ساتھ جانے کی اجازت دی اور میرپور شہر کے ایک ہوٹل میں پیشگی بکنگ بھی کروا دی کہ گاؤں میں کون ہے جس کے پاس رہیں گے۔

ایک دوست اور ہم جماعت سے کبھی کبھار رابطہ ہو جاتا تھا۔ اس سے رابطہ کیا تو اس نے ائرپورٹ سے لینے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ میرپور شہر بھی وہ نہیں رہا تھا جو چالیس سال پہلے میں نے آخری بار دیکھا تھا۔ صبح میرا دوست مجھے اپنے ساتھ لے کر گاؤں کی طرف روانہ ہوا تو مجھے ماضی کی باتیں یاد آتی گئیں۔رہ رہ کر اپنے آپ پر غصہ اور افسوس ہوتا رہا کہ کیوں اور کیسے میں اپنی جنم بھومی کو بھول گیا تھا۔ نہر والی سڑک پر گاؤں کا بورڈ لگا دیکھ کر گاڑی روکی تو دیکھا کہ نہر پر بنا ہوا پُل غائب تھا۔

پتہ چلا کہ دو سال پہلے آنے والے زلزلے میں یہ پُل گر گیا تھا اب اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ روزانہ گاؤں سے کالج جاتے ہوئے ہم اس پل پر بیٹھ کر بس کے آنے کا انتظار کرتے تھے۔کتنی دفعہ پُل کے درمیان کھڑے ہو کر بہتے پانی کو دیکھتے تو محسوس ہوتا ہم بھی پانی کے ساتھ چل رہے ہیں۔ گاؤں کی طرف جانے والی سڑک جسے والد محترم نے ساٹھ کی دہائی میں بنوایا تھا کبھی بالکل سنسان ہوتی تھی، اب اس کے کنارے بڑی بڑی کوٹھیاں بن گئی تھیں۔

تھوڑا آگے چل کر ایک چھوٹی سی ندی تھی جس کو ہم کَس بولتے تھے اس پر اب پل بن گیا تھا۔بارشوں میں اس ندی میں طغیانی کی وجہ اس کو پار کرنا مشکل ہوتا تھا۔ نہر والی سڑک پر جانے کے لئے ہم ندی کے کنارے بیٹھ کر گھنٹوں پانی اترنے کا انتظار کرتے تھے۔بارش کا پانی اکٹھا ہونے سے اس ندی میں جگہ جگہ ڈابیں (تالاب) بن جاتی تھیں جن میں بچپن میں ہم نہایا کرتے تھے۔

گاؤں سے ایک فرلانگ پہلے گاؤں جانے والی سڑک کے کنارے ایک کنواں تھا جہاں سے پورا گاؤں پانی بھرتا تھا اب بالکل ویران پڑا تھا۔ مجھے وہ دن یاد آ گئے جب سارا دن خواتین اس کنویں سے پانی بھرتی رہتی تھیں لیکن صبح اور سہ پہر کے وقت تو اس کنویں پر رنگین آنچلوں کی ایک بہار نظر آتی تھی۔ محلے کی خواتین اکٹھے ہو کر کنویں سے پانی بھرنے آتی تھیں۔عموما خواتین دو گھڑے اٹھاتی تھیں لیکن کچھ خواتین تین تین گھڑے بھی اٹھا لیتی تھیں ۔دو گھڑے سر پر اور ایک اپنے کولھے پر اور دندناتی ہوئی گاؤں کی طرف روانہ ہو جاتی تھیں۔

گاؤں کے باہر جہاں ایک خالی کھلا میدان تھا۔ اب یہاں ایک چوک سا بنا ہوا تھا گاؤں کے اندر گلیاں بھی پکی نظر آ رہی تھیں۔جیسے ہی ہم نے گاؤں کے باہر گاڑی کھڑی کی تو ایک دم میرا دل چاہا کہ میں گھر کی طرف دوڑ لگا دوں ۔لیکن نہ تو اب ہمت،طاقت اور نہ ہی وہ جوانی والی پھرتیاں رہی تھیں۔ اِکا دُکا جوان بچے اور خواتین پاس سے گزریں لیکن انہوں نے مجھے نہیں پہچانا ۔ کہاں ایک بڑے بڑے بالوں والا سمارٹ نوجوان اور کہاں سفید بال اور جھریوں والے چہرے پر عینک لگائے ایک ستر سال کا بوڑھا۔ان گلیوں میں اپنا بچپن گزرا تھا۔وہی گلیاں تھیں وہی گلیوں کے موڑ تھے لیکن مکانوں کا حلیہ تبدیل ہو چکا تھا۔کچے مکانوں کی جگہ کوٹھی نما گھر بن گئے تھے جن پر لوہے کے گیٹ نصب تھے جو سب کے سب بند تھے۔اپنی گلی میں پہنچ کر میں تیز تیز چلنے لگا تھا لیکن

یہ کیا ؟

ڈیوڑھی کی دیوار جس پر ریاض شبیر منزل لکھا ہوتا تھا وہ گری پڑی تھی اور لکھائی غائب تھی۔ بڑے دروازے کا ایک پٹ کھلا تھا اور دوسرا بالکل غائب اور گھر بالکل کھنڈر بن چکا تھا۔ ایک دم آنکھوں سے بہت سے آنسو بہہ نکلے ۔ سامنے تایا ابو کا گھر تھا اس کی حالت بھی ہمارے گھر جیسی تھی۔ صحن خود رو پودوں اور گھاس سے بھرا ہوا تھا۔ گھر کی دیواروں پر بھی درخت اگ آئے تھے جس سے دیواریں پھٹ گئی تھیں۔کبھی گرمیوں کی شاموں کو اس صحن میں چارپائیاں بچھانے پر جگہ کم پڑ جاتی تھی۔

ایک طرف ہمارا گھر تھا اور دوسری طرف تایا کا گھر تھا جس کے بیچ میں ہمارا مشترکہ صحن تھا۔ ساٹھ کی دہائی کے آخر تک گاؤں میں بجلی نہیں آئی تھی اس لئے گرمیوں میں اکثر گھر کی چھت پر چارپائیاں بچھائی جاتیں ۔ شام کو ریڈیو پر صرف خبریں سننے کی اجازت تھی یا پھر والد صاحب چوہدری نظام دین کا پروگرام سوہنی دھرتی سنا کرتے تھے۔گھر کی حالت دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رونے کو جی چاہا رہا تھا لیکن میری آواز اندر ہی گھٹ کر رہ گئی تھی۔ہمارے گھر کے پاس ہی برطانیہ میں بسنے والے دوسرے رشتہ داروں کے گھر بھی خالی تھے لیکن کچھ بہتر حالت میں تھے کیونکہ وہ اکثر گاؤں آتے جاتے رہتے تھے۔

گھر سے نکل کر میں قبرستان کی طرف روانہ ہوا ۔ قدم بے ساختہ ان جانے پہچانے رستوں پر اٹھنے لگے جن پر بچپن میں بے دھڑک دوڑا کرتے تھے۔ والد محترم اور والدہ کی قبریں ساتھ ساتھ ہیں۔ قبرستان کی حالت دیکھ کر ایک بار پھر دل بھر آیا۔ بڑی بڑی خود رو گھاس میں چھپی قبروں کی حالت بتا رہی تھیں کہ یہاں عرصے سے کوئی نہیں آیا۔ فاتحہ پڑھ کر کتنی دیر ان قبروں کے پاس بیٹھا رہا۔ گاؤں کی طرف واپس آ رہا تھا تو راستے میں ایک جوان نے مجھے روکا اور نام پوچھا ۔ میرے نام بتانے پر وہ بڑی پرجوشی سے ملا اور بتایا کہ وہ میرے ایک رشتہ دار کا بیٹا ہے ۔ میں نے اس سے سکول دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ میرے ساتھ ہی ہو لیا۔

سکول میں پہنچے تو پرائمری سکول کی تین کمروں کی عمارت کی جگہ مڈل سکول کی ایک نئی اور نسبتا بڑی عمارت کھڑی نظر آئی۔یہ اس وقت پرائمری سکول تھا جب میں نے یہاں سے پانچویں جماعت پاس کر کے ہائی سکول میں داخلہ لیا تھا۔لیکن سکول کی اس پرانی عمارت کا اب نام و نشان بھی مٹ گیا تھا۔سکول کے ساتھ اب ڈاک خانے کی عمارت بن گئی تھی۔ سکول کے ساتھ پانی کا ایک تالاب ہوتا تھا جس کو ہم بَن کہتے تھے اس میں بارشوں کا پانی جمع ہوتا تھا ۔ اس تالاب میں مٹی ڈال کر اس کو پر کر کے سکول کا صحن بنا لیا گیا تھا۔ جو گاؤں میں چھوڑ کر گیا تھا اس کی جگہ ایک نیا گاؤں بن گیا تھا جو میرے لئے بالکل اجنبی تھا۔

آئیے میں آپ کو اپنے گاؤں کی مختصر تعارف کرواتا ہوں۔

بنی نام کا یہ گاؤں دو تین صدیاں پرانا ہے جو انیس سو چودہ میں نکلنے والی نہر اپر جہلم سے شمال کی جانب ایک کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ علاقہ کھڑی کا ایک بڑا گاؤں ہے۔ ساٹھ کی دہائی تک سب لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ دو بڑی زمیندار برادریوں کے علاوہ دیگر برادریاں بھی گاؤں میں بڑے امن و سکون سے رہتے تھے۔ گاؤں کے لوگوں کا آپس میں بڑا سلوک اور اتفاق تھا سب لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔لوگوں کا زیادہ تر انحصار کاشتکاری پر تھا۔

کچھ لوگ فوج اور پولیس میں ملازم تھے اور کچھ لوگ کاشتکاری کے علاوہ اینٹوں کے بھٹوں پر سیزن میں کام کر کے کچھ اضافی آمدن بنا لیتے تھے۔ ان دنوں غربت کی وجہ سے آدھے گاؤں میں لوگ دن کو گندم کی بجائے باجرہ پکاتے اور کھاتے تھے۔ سب گھروں میں کاشتکاری کے لئے بیل کی اچھی جوڑی اور دودھ کے لئے گائے یا بھینس رکھی ہوتی تھی۔ ہم نے خود گائے رکھی ہوئی تھی ۔ والدہ اس کا دودھ دوہتی تھیں۔ گاؤں کی عورتیں کاشتکاری میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں۔

ساٹھ کی دہائی کے آخر تک گاؤں میں بجلی نہیں تھی۔ گاؤں کے سبھی لوگ سحر خیز تھے۔عشاء کی نماز کے بعد سبھی لوگ سو جایا کرتے تھے۔ گاؤں میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی ۔ پتھر کی دیواروں اور لکڑی کے شہتیروں اور بالوں سے بنی ہوئی۔ گاؤں کے سبھی بزرگ مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے۔ فجر،ظہر اور عصر میں اکثر بچوں کو بھی ساتھ لے کر آتے تھے۔ ستر میں اس پرانی مسجد کو شہید کر کے اس کی جگہ نئی مسجد بنائی گئی۔

پچاس کی دہائی کے آخر میں دوسرے علاقوں کی طرح ہمارے گاؤں سے بھی بہت سے افراد بھی برطانیہ گئے تھے ۔ ساٹھ کی دہائی کے آخر تک گاؤں سے بہت سے افراد برطانیہ پہنچ چکے تھے جس سے گاؤں میں خوشحالی آنا شروع ہو گئی تھی۔ گاؤں میں صوبیدار راجہ شادم خان ، چوہدری فیروز خان اور پیر مقبول احمد شاہ جیسے زیرک، جہاندیدہ اور باشعور شخصیات موجود تھیں جو باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ گاؤں کے معاملات حل کر کے حالات قابو میں رکھتے تھے۔

1968ء میں بنیادی جمہوریت کے تحت ہونے والے یونین کونسل کے انتخابات میں گاؤں میں برادری ازم کی وجہ سے کچھ بگاڑ پیدا ہوا لیکن بہت جلد اس پر قابو پا لیا گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں گاؤں کے زیادہ تر مکانات کچے تھے۔ ایک صوفہ اور ایک کوٹھڑی پر مشتمل گھر کافی سمجھا جاتا تھا اور اس کے سامنے ایک کھلا صحن اور چھوٹی سی چار دیواری جس کے ایک کونے میں کھانا پکانے کے لئے جگہ بنی ہوتی تھی۔ سردیوں کے آغاز سے پہلے خواتین اپنے گھروں کی چھتوں اور دیواروں کی لپائی کا کام کرتی تھیں ۔زیادہ تر مٹی میں بھوسہ ڈال کر ایک مکسچر بنایا جاتا جس سے خواتین اپنے ہاتھوں سے چھت ، دیواریں ۔ کمروں کی دیواریں اور فرش پر لپائی کر دیتی تھیں۔ اس سے یہ کچے گھر سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے ہوتے تھے۔

گاؤں کے افراد کے برطانیہ پہنچنے اور کام کرنے کی وجہ سے گاؤں میں خوشحالی آنے لگی تھی، پکے مکان بننے لگے تھے ۔ گاؤں میں پہلا چوبارہ میرے ماموں نے بنایا تھا جب وہ پہلی دفعہ برطانیہ سے واپس لوٹے تھے۔برطانیہ جانے کی خواہش میں مبتلا بچوں نے تعلیم اور جوانوں نے فوج میں نوکر ہونا چھوڑ دیا تھا۔انگلینڈ جانے کا بھوت سوار ہونے کی وجہ سے تعلیم کی طرف سے توجہ ہٹ گئی جس وجہ سے گاؤں کے بچے تعلیم میں پیچھے رہ گئے۔آج کا گاؤں ایک ماڈرن قصبہ بن گیا ہے جس میں زندگی کی سب سہولتیں موجود ہیں ۔

ستر کی دہائی میں جس گاؤں میں کبھی ایک موٹر سائیکل تھا اب اس میں درجنوں کاریں موجود ہیں۔ دیواریں اونچی ہو گئی ہیں لوگوں میں میل جول کم ہو گیا ہے۔ اب گلی میں جاتے ہوئے کوئی کسی کا حال نہیں پوچھتا۔ کوئی کسی کے گھر بغیر وجہ کے نہیں جاتا۔پرانے بزرگ ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں ۔مجھے گاؤں میں بہت کم لوگ پہچانتے ہیں۔

بچوں کے منع کرنے کے باوجود میں نے گاؤں والے گھر کو دوبارہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گھر کی دوبارہ تعمیر کے لئے گاؤں کے ہی ایک دو ٹھیکیداروں سے بات چیت کی ہے۔گاؤں میں اتنی تبدیلیاں آ جانے کے باوجود مجھے یہاں رہ کر سکون کا احساس ہوتا ہے۔ اتنا عرصہ دیار غیر جو اب اپنا دیار بن چکا ہے کو چھوڑ کر یہاں بسنا بہت مشکل نظر آتا ہے لیکن کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments