وہ کون تھا؟


تاریخ پاکستان ایسے سانحات سے بھری پڑی ہے جس میں قاتل تو کھلی فضا میں سانس لیتا ہے مگر کبھی کبھار کسی بے گناہ کا جیل میں دم گھوٹ دیا جاتا ہے۔ عظیم صحافی ارشد شریف کا قصہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے جس میں شاید ہی کبھی پتہ چل سکے کہ قاتل کون تھا۔ یہ سانحہ بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ ساہیوال کی طرح شاید پراسرار ہی رہ جائے۔ شاید ہی کوئی کبھی جان پائے کہ وہ کون تھا؟

وہ کون تھا کا جواب تلاش کرنے کے لئے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ارشد شریف کی آواز دبانے سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا۔ ہم میں سے بیشتر لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ کیا وجہ تھی کہ ارشد شریف کی آواز کو دبا دیا گیا اور وہ کون ہیں جو بند دروازوں کے پیچھے یہ گھناونے کھیل کھیل رہے ہیں، مگر سوال اب بھی وہی ہے کہ وہ کون تھا؟

صدارتی پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ یافتہ صحافی ارشد شریف نے پوچھا ”وہ کون تھا؟“ ۔ اس سوال کی پاداش میں انہیں پاکستان سے بھاگنا پڑا۔ صرف بھاگنا ہی نہیں بلکہ اپنی جان سے ہاتھ بھی دھونا پڑا۔

ارشد شریف کی موت کو حادثہ قرار دینا ان کی یادداشت اور ہماری ذہانت کی توہین ہے۔ انہیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ بس قاتل کی شناخت ہونا باقی ہے۔ وہ قاتل نہیں جس نے کچھ پیسوں کے لیے ٹرگر دبایا، بلکہ وہ جس نے ادائیگی کی اور بہروپیے قاتل کو جگہ پر رکھا۔

یہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد بظاہر اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر عمران ریاض خان، ارشد شریف، صابر شاکر اور دیگر صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہوا۔ ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر درج کی گئیں، کچھ کو گرفتار کیا گیا اور حراست میں ان کے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔

ارشد شریف ایک کھرا اور سچا صحافی تھا، جس نے ہمیشہ سچائی اور ایمانداری کا ساتھ دیا اور کئی نقاب پوشوں کو بے نقاب کیا۔ یہ باقی نام نہاد صحافیوں کی طرح سنی سنائی خبریں پر یقین نہیں رکھتا تھا بلکہ خود ڈاکیومنٹس کے پلندے چھان کر خبر کو تشکیل دیا کرتا تھا۔ ایسا عظیم انسان صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے۔ شاید ارشد شریف کے پاس کچھ نقاب پوش قاتلوں کے خلاف ایسا ثبوت تھا جو کہ اس کی جان سے زیادہ قیمتی تھا۔ ظالموں نے ایک با آواز صحافی کو پہلے ملک سے باہر جانے پر مجبور کیا اور جب اس سے من نہ بھرا تو جان ہی لے لی۔

اس دکھ بھری گھڑی میں قوم کی نام نہاد بیٹی مریم نواز نے ایک ایسا انسانیت سے گرا ہوا ٹویٹ کیا جس نے قوم کے کلیجوں کو کاٹ کے رکھ دیا۔ مریم نواز کا ٹویٹ پڑھنے کے بعد مجھے ایک بات یاد آ گئی کہ صرف انسان ہونا ہی کافی نہیں، انسان کے اندر انسانیت بھی ہونی چاہیے۔ قوم یہ بات یاد رکھے گی کہ جب قوم ایک خوددار صحافی کے موت کے غم میں تھی تک کچھ لوگ دیوالی کی خوشیاں منا رہے تھے۔

ارشد شریف کے قاتل کی یہ بات جان لیں انہوں نے صرف ایک صحافی قتل نہیں کیا بلکہ ایک بیٹا، ایک شوہر اور ایک باپ بھی قتل کیا ہے۔ یہ قوم ان نقاب پوش قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ شاید وہ قاتل اس دنیا میں نہ پکڑے جائیں مگر اس جہان میں اس بے گناہ کے خون کے ایک ایک قطرہ کا حساب ضرور دینا پڑے گا۔

اللہ مرحوم کی بخشش و مغفرت فرمائے۔ (آمین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments