ججز تقرری پر ن لیگ کا یوٹرن


جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کی پانچ خالی نشستوں پر نئی تقرری کے لئے نامزد کیے گئے چار ججوں میں سے تین کی تقرری کی سفارش کر دی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر صدارت پیر کو منعقدہ اجلاس میں جسٹس شاہد وحید، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی کے نام بطور جج سپریم کورٹ تقرری کے لئے منظور کر لیے گئے ہیں جبکہ جسٹس شفیع صدیقی کا نام اتفاق رائے نہ ہونے کی بنیاد پر موخر ہو گیا ہے، جس کے بعد کمیشن نے سفارشات حتمی منظوری کے لئے پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دی ہیں۔

یاد رہے کہ تین ماہ قبل کمیشن کے اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جسٹس شاہد وحید اور جسٹس حسن اظہر رضوی کے ناموں کی مخالفت کی تھی لیکن پیر کے روز ہونے والے کمیشن کے اجلاس میں انہوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے پیش کیے گئے انہی دو ناموں کی حمایت کر دی۔ واضح رہے کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کے علاوہ سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین ججز شامل ہوتے ہیں، جبکہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائر سینئر جج کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کرتا ہے۔

اس کے علاوہ اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کی صورت میں وفاقی حکومت کے دو نمائندے ہوتے ہیں اور ایک ممبر وکلا کی تنظیم یعنی پاکستان بارکونسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کے آخری اجلاس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے پیش کیے گئے نام اکثریتی رائے سے مسترد ہو گئے تھے۔ کیونکہ اس وقت وکلا تنظیموں اور جسٹس فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود کے ساتھ ساتھ حکومتی نمائندوں کا بھی موقف تھا کہ سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے سنیارٹی کا اصول مد نظر رکھنا لازم ہے۔ حالیہ اجلاس میں مگر دونوں حکومتی نمائندوں وفاقی وزیرقانون اور اٹارنی جنرل نے اچانک اپنے گزشتہ موقف سے روگردانی کرتے ہوئے چیف جسٹس عطا بندیال کے موقف کی تائید کر دی۔ یوں دونوں سندھ اور پنجاب ہائیکورٹس کے نسبتاً جونئیر جج صاحبان سپریم کورٹ کے لیے نامزد ہو گئے ہیں۔

اس یوٹرن کے بعد مسلم لیگ (نون) کے سوشل میڈیا پر چھائے ”انقلابی“ ہکا بکا ہیں۔ کچھ خوش فہم اب بھی اس یوٹرن کو محض شہباز شریف کا خوشامدانہ اقدام قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ میاں نواز شریف کی انقلابی سوچ کی قلعی بھی اس دن کھل گئی تھی جب خواجہ آصف نے یہ بیان دیا تھا کہ سروسز ایکٹ میں ترمیم کے لیے نون لیگی ارکان اسمبلی نے میاں صاحب کے کہنے پر ووٹ دیا ہے۔ یہ بات اب راز نہیں کہ دوران قید میاں صاحب کی طبیعت انتہائی ناساز ہونے کے بعد انہیں طبی بنیادوں پر ملنے والی ضمانت اسی خدمت کا صلہ تھا۔

آج کل یہ افواہیں گردش میں ہیں کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کے معاملے پر اصولی موقف سے انحراف کا بدلہ نواز شریف کی نا اہلی کی سزا کے خاتمے کی صورت مل سکتا ہے۔ شہباز شریف کھل کر طاقتوروں کی ہاں میں ہاں ملانے کی بات کرتے ہیں اس لیے وہ بدنام ہیں، حقیقت یہی ہے کہ نواز شریف بھی اقتدار کی سیاست نہیں چھوڑ سکتے۔ ورنہ جیل کوئی کالے پانی کی سزا تھی جس سے فرار کے لیے نہ صرف میاں صاحب نے نہ صرف اپنی جگ ہنسائی کرائی بلکہ چاہنے والوں کو مخالفین کے روبرو رسوا کیا۔

نواز شریف کو انقلابی بننے کا شوق ضرور ہے لیکن وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ انقلاب کا سفر میں پھولوں کی سیج پر بیٹھنے کا نہیں، خاردار اور سنگلاخ رہگزر پر سفر کا نام ہے۔ اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ کوئی نہ کوئی مہم جوئی ہمیشہ کر گزرتے ہیں مگر جب آزمائشوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو پھر ہر بار سفر ادھورا چھوڑ کر باہر جا بیٹھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل وہ لندن میں بیٹھ کر وقتاً فوقتاً جارحانہ بیانات اس لیے دے رہے تھے کیونکہ ان کی سسٹم میں کوئی جگہ نہیں بن رہی تھی۔ میاں صاحب واقعتاً انقلابی بن گئے تھے تو اپنی حکومت کی جانب سے میرٹ اور اصولوں کی خلاف ورزیوں پر وہ اب کیوں خاموش بیٹھے ہیں؟

میاں صاحب نے تیسری مرتبہ اقتدار سے نکلنے کے بعد کہا تھا آئندہ وہ اصولوں اور میرٹ پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ لیکن ان کی جماعت کو اقتدار ملنے کے چند ماہ بعد ہی واضح ہو چکا ہے کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہیں سے سفر شروع کیا ہے جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ اب وہ وقت نہیں رہا کہ گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی پالیسی سے کام چلا لیا جائے گا۔ یہ تسلیم کر لیں کہ میاں صاحب اصولوں پر مبنی سیاست کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے برادر خورد ان کا ساتھ دینے میں متامل ہیں۔

پھر بھی یہ سوال ضرور ہو گا کہ میاں صاحب اپنے خاندان کے علاوہ کسی ہاتھ میں اختیار دینے پر کیوں راضی نہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنی وزارت عظمی کے دور میں نہ صرف دباؤ کا بے مثال مقابلہ کیا بلکہ قیادت سے لازوال وفاداری بھی دکھائی۔ لیکن عہدوں کی بانٹ کا مرحلہ آیا تو میاں صاحب نے مرکز اور پنجاب میں اہم عہدے اپنے بھائی کی فیملی میں بانٹ دیے۔ چار دن کے لیے پنجاب کی وزارت اعلی نون لیگ کو ملی، خاندان کے علاوہ کسی کو اس کرسی پر نہیں بٹھایا گیا۔

اسی طرح آئے روز شہباز شریف کی شخصیت اور گفتگو کے سبب مذاق بنتا ہے۔ مریم نواز اپنے بیانات کے سبب اکثر نون لیگ کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں لیکن جماعت کے اندر میاں صاحب کے بعد تمام اختیارات کا محور ان کی ذات ہے۔ مریم نواز اگر نواز شریف کی بیٹی نہ ہوتیں تو ان کے پاس کیا صلاحیت ہے جس کی بنیاد پر اتنی جلدی وہ پارٹی میں ممتاز مقام حاصل کرتیں؟ نون لیگ کے لیے جتنی قربانیاں جاوید ہاشمی خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید نے دی ہیں شاید ہی کسی نے دی ہوں کیا ان میں سے کوئی ایک اس قابل نہیں کہ پارٹی کی باگ ڈور سنبھال سکے۔

کئی بار لکھ چکے ہیں کہ ضمنی انتخابات میں شکست دوغلی پالیسی اور بیانیے میں یکسوئی کا فقدان ہے۔ یہ دوغلی سیاست زیادہ عرصہ نہیں چلے گی نون لیگ کو طے کرنا ہو گا کہ اس کا اصل بیانیہ کیا ہے۔ اس طرح کی سیاست اب نہیں چل سکے گی کہ نعرے تو عوامی بالادستی اور حقیقی جمہوریت کے قیام کے لگائے جائیں مگر قیادت میں قربانی دینے کا حوصلہ نہ ہو۔ یہ حوصلہ اگر نہیں ہے اور نون لیگ اقتدار کی سیاست ہی کرنا چاہتی ہے تو انقلابی باتیں چھوڑ کر اقتدار کے حصول کے ستر سال سے رائج راستے پر جماعت چلتی رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments