اللّہ میرے دل کے اندر، میں مومن حق قلندر اور ناجائز قبضہ


انسان اپنے اردگرد کے ماحول ہی سے متاثر ہو کر سوچتا، سمجھتا اور لکھتا ہے، اس تحریر کا محرک بھی ہمارے ساتھ پیش آنے والا ایک ایسا سچا واقعہ ہے جو میں آخر میں بیان کروں گی۔ یہ تو ہم سب کو ہی پتا ہے کہ اسلام کی بنیاد امن ہے سلامتی ہے محبت ہے بھلائی ہے اچھا اخلاق ہے۔ ہم قرآن کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے 90 فیصد دنیاوی معاملات پر بات کی ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ اس نے چونکہ ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہے لہذٰا دنیاوی معاملات کو ٹھیک رکھنا افضل ہے یعنی یہ کہ حقوق العباد، حقوق اللہ سے افضل ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”اگر تونے میرے کسی بندے کی حق تلفی کی تو جب تک وہ بندہ خود تجھے معاف نہ کرے میں بھی معاف نہیں کر سکتا“ ۔

اگر ہم اس ایک بات کو ہی سمجھ لیں تو نہ صرف ہمیں اصل دین سمجھ میں آ جائے گا بلکہ زندگی کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔ خدا اس کو دوست رکھتا ہے جو اس کی مخلوق کے کام آتے ہیں یا یہ کہ ”مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں“ ۔ اس طرح کی بے شمار احادیث ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ہاتھوں اپنے بندوں کی بھلائی چاہتا ہے اور اسی لئے اسے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

قرآن میں جتنی قوموں کی تباہی کا ذکر آیا ہے اس کی وجہ کم تولنا رشوت لینا، ناحق قتل کرنا، ذخیرہ اندوزی، نا انصافی اور اگر میں سادہ الفاظ میں کہوں تو معاملہ براہ راست حقوق العباد کا تھا۔ میری نظر سے کوئی ایسی روایت نہیں گزری جس میں کسی قوم کو روزہ نہ رکھنے یا حج نہ کرنے پر تباہ کیا گیا ہو۔

اسلام کے وہ بنیادی ارکان بھی جن کا تعلق ہمیں بلاواسطہ یا براہ راست اللہ سے نظر آتا ہے، اگر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ان کا تعلق بھی بالواسطہ یا ان ڈائریکٹ انسانوں کی بھلائی سے ہی ہے۔

یہاں پر اسلام کے سارے ارکان پر مفصل بات کرنا ممکن نہیں لیکن، اگر ہم اسلام کے سب سے پہلے اور اہم رکن نماز کو ہی لے لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا جہاں نماز ہماری ”میں“ کو ختم کرتی ہے، ہماری تھیراپی کرتی ہے، ہم اپنی تمام پریشانیاں اس کے سپرد کر کے پر سکون ہو جاتے ہیں، وہیں اس نماز کو ادا کرنے سے پہلے اللہ کی کچھ شرائط ہیں، جن کا تعلق براہ راست اس کی مخلوق سے ہے اور اس کو پورا کیے بغیر نماز کی قبولیت ممکن نہیں۔

سب سے پہلے تو یہ کہ نماز کسی ایسی جگہ نہیں ادا کرنی چاہیے جہاں کوئی راستہ ہو یعنی لوگوں کے گزرنے کی جگہ ہو اور اس کی مخلوق کے لئے رکاوٹ یا زحمت کا باعث بنے۔

پچھلے دنوں انٹرنیٹ پر ایک تصویر دیکھی یہاں برطانیہ میں چند افراد شاپنگ سنٹر کے بیچوں بیچ نماز ادا کر رہے ہیں، اور صاف نظر آ رہا تھا کہ راستہ چلنے والوں کو مشکل ہو رہی ہے۔

تصویر کے نیچے کچھ اس طرح سے لکھا ہوا تھا ”اللہ اکبر کہہ کر شیئر کیجیے ناچ گانے کی تصویر ہوتی تو سب شیئر کرتے دیکھتے ہیں کون اللہ کا نیک بندہ شیئر کرتا ہے شیئر اور لائک نہ کرنے والوں پر لعنت بھی بھیجی گئی تھی“

دوسری سب سے اہم بات نماز کو ادا کرنے سے پہلے یہ ہے کہ ناجائز قبضہ کی زمین پر نماز نہیں ہوتی جب کہ بدقسمتی سے پاکستان میں مساجد کی اکثریت ناجائز قبضہ کی زمینوں پر ہی بنی ہوئی ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو ان دونوں شرائط میں اللہ نے اپنے بندوں کا خیال رکھا ہے۔

دن بہ دن جتنی نام نہاد اسلام فہمی بڑھتی جا رہی ہے اسلامی درس کا سلسلہ پوری دنیا اور یہاں برطانیہ میں بھی عام ہو گیا ہے۔

مگر کیا وجہ ہے کہ جس قدر نام نہاد اسلام فہمی بڑھ رہی ہے؟ اسلامی درس و تدریس کے سلسلے انٹر نیٹ پر بھی بڑھتے جا رہے ہیں مگر ہمارا معاشرہ اخلاقی سماجی اور معاشی طور پر سدھرنے کے بجائے اتنا ہی بگڑتا ہی جا رہا ہے۔

رشوت ہو، نا انصافی ہو ریپ کے بڑھتے ہوئے کیسز، ذخیرہ اندوزی، رشتوں میں قطع رحمی ہو، کس کس کا ذکر کیا جائے، کچھ بھی تو ٹھیک نہیں ہو رہا۔

کہیں تو اسلام کے نام پر کچھ ایسا غلط ہو رہا ہے جو ہم مسلمانوں میں حقیقی اور اصل دین دور دور تک نظر نہیں آ رہا، اور ہم دن بہ دن پستی کی طرف جا رہے ہیں۔

کیا ہمارے زوال کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم نے اسلام کی اصل روح اور بنیاد کو تو یکسر نظر انداز کر دیا ہے، اور ثانوی باتوں مثلاً نماز پڑھتے ہوئے دونوں ٹانگوں کے درمیان فاصلہ کتنا ہونا چاہیے یا سجدہ کرتے وقت پہلے پیشانی زمیں پر رکھی جائے یا تھوڑی، یا رکوع میں کتنے انچ نیچے جھکنا ہے میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔

کیا زوال کی وجہ یہ تو نہیں کہ ہم اپنی ساری توانائیاں اپنے کردار سے نہیں بلکہ حلیے سے مسلمان نظر آنے پر صرف کردی ہیں؟ ذرا سوچئیے گا ضرور۔

ہمارے ساتھ بیتا ہو سچا واقعہ کچھ یوں ہے۔

کراچی میں ایک کمرشل بلڈنگ میں ہمارا ایک آفس تھا۔ وہ ہم نے کرائے پر دیا ہوا تھا جو صاحب وہاں کرائے دار تھے وہ خود تو چلے گئے اور چابی کسی اور کے سپرد کر گئے قصہ مختصر یہ کہ اس پر قبضہ کر لیا گیا۔ قبضہ کرنے والے کو بھی علم تھا کہ ہم باہر ہیں، اس لئے ہمارے لئے خالی کروانا کوئی آسان بات نہیں۔ اسی بلڈنگ میں ایک اور صاحب جن سے ہمارے میاں کی دوستی اور اچھی بات چیت تھی کو درمیان میں ڈالا مگر بات نہ بن سکی۔

اسی طرح ایک سال گزر گیا پھر کرونا آ گیا ہم لوگ پاکستان نہیں گئے مزید دو سال گزر گئے۔ اسی طرح تقریباً تین سے چار سال کا طویل عرصہ گزر گیا، نہ وہ آفس چھوڑتے اور نہ کرایہ دیتے۔ کرونا کے بعد جب کراچی جانا ہوا تو ایک دن میاں بات کرنے گئے ان صاحب سے، مگر وہ آفس میں نہیں تھے۔ جو صاحب درمیان میں تھے ان سے کہا جب بھی یہ آفس میں ہوں تو ہمیں فون کر کے بتا دیا جائے تاکہ آمنے سامنے بات ہو سکے۔ ایک دن ہم اور ہمارے میاں کسی دوست کے گھر سے واپس آرہے تھے تو ان صاحب کا فون آیا کہ آپ ابھی آ جائے وہ صاحب آفس میں ہیں، کچھ دے دلا کر جان چھڑائیے۔

عموماً ایسی جگہوں پر ہمارے میاں ہمیں نہیں لے کر جاتے مگر اس وقت مجبوری تھی کیونکہ وہ آفس راستے میں ہی تھا۔ میاں نے عمارت کے پاس گاڑی پارک کی۔ کراچی کے حالات دیکھتے ہوئے میرا گاڑی میں اکیلے بیٹھنا بھی خطرے سے خالی نہ تھا، مجبوراً مجھے بھی ان کے ساتھ اندر جانا پڑا۔ ہم نے اندر جاکر نیم وا دروازے جا کر دستک دی ایک صاحب باہر آئے خوب لمبی داڑھی اور ٹخنوں سے اونچی شلوار، پہلے تو ہمیں دیکھ کر سٹپٹائے، پھر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ہمیں اندر آنے کا کہا۔ اندر ایک نوعمر لڑکا جو غالباً ان کا بیٹا ہو گا بھی تھا۔ دیواروں پر، ”واللہ خیر الرازقین“ ، ”الکاسب حبیب اللہ“ کے خوبصورت خطاطی کے نمونے سجے ہوئے تھے۔ کہیں سے جواد احمد کی آواز میں گائے ہوئے گانے کی آواز بھی آ رہی تھی ”اللہ میرے دل کے اندر میں مومن حق قلندر“ اور وہ نو عمر لڑکا اس پر سر دھن رہا تھا۔

ابھی ہمارے میاں نے بات کا آغاز کیا ہی تھا کہ سامنے والی مسجد سے اذان کی آواز سنائی دینے لگی۔ ان صاحب کے بیٹے نے اپنے والد سے پوچھا کہ نماز باجماعت مسجد میں جاکر پڑھیں یا وہیں پڑھ لی جائے۔ والد صاحب نے کہا کہ یہیں پر ادا کر لیتے ہیں۔ جائے نماز بھی سامنے ہی رکھی ہوئی تھی اس پر ہمارے میاں نے کہا، ”جناب کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ناجائز قبضہ کی زمین پر نماز نہیں ہوتی“ تو وہ صاحب ایک دم غصے میں بولے ”آپ کون ہیں کیا آپ عالم دین ہیں۔ “ ہمارے میاں نے ”کہا جناب اس کے لئے عالم دین ہونا ضروری نہیں یہ تو اسلام کی بنیادی باتیں ہیں“

ان صاحب نے جھنجھلا کر کہا ”جائیے میاں جائیے اپنا کام کیجئے اور اگر کورٹ میں جانے کا شوق ہے تو وہ بھی پورا کر لیجیے“

ہم دونوں نے وہاں سے اٹھ جانے میں ہی عافیت جانی۔
کیونکہ ”جواب جاہلاں باشد خاموشی“ ۔
باہر نکلتے ہوئے کافی دیر تک میرے کانوں میں جواد احمد کے گائے ہوئے یہ الفاظ رس گھولتے رہے کہ
”اللہ میرے دل کے اندر، میں مومن حق قلندر، سچل سائیں میرا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments