میرے معبود آخر کب تماشہ ختم ہو گا؟


صاحبان مہربان قدردان، یہ جملہ ہم بچپن سے پچپن تک سنتے آئے ہیں۔ ہر چوراہے، ریل گاڑی اور بس میں کوئی نا کوئی نوسر باز اپنی دکان چمکانے کو یہی صدا لگایا کرتا تھا۔ ہم جیسے سادھارن آدمی نے جب سے ہوش سنبھالا ہے چشم حیراں سے انواع و اقسام کے کھیل تماشے ہی دیکھے ہیں۔ بقول ہمارے ممدوح مرزا نوشہ

بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے یہاں روز تماشا میرے آگے

مرزا کے دور میں چھوٹے موٹے تماشے گلی محلوں یا بازاروں میں ہوا کرتے تھے۔ شاہی محل تک پہنچنے کی خواہش وہ زمانہ کیا اور یہ زمانہ کیا، کس دل میں نہیں ہوتی؟ مرزا کو تو درویشی کا دعویٰ بھی نہ تھا سو شاہ کے مصاحب پہ پھبتی کستے کستے آخرکار وہ بھی شاہ کو پیارے ہوئے مگر شومئی قسمت کہ یہ دور مختصر ہی رہا، بادشاہ جلاوطن ہوئے اور مرزا در بدر۔ محلاتی سازشوں سے انہیں کتنی دلچسپی تھی اس بارے ہمارا علم تو صفر ہے۔ کھیل تماشوں سے کسے دلچسپی نہیں ہوتی؟ عام آدمی اس دور میں اور کوئی کھیل کھیلتا ہو یا نہیں کوٹھوں پہ اترنے چڑھنے کا کھیل ضرور کھیلتا تھا۔ یہی واحد کھیل تھا جس میں شاہ و گدا کی تخصیص نہ تھی۔ ایک جی دار آدمی کی طرح انہوں نے بھی یہ کھیل کھل کے کھیلا۔ اس زمانے کی بھولی بھولی ڈومنیاں مرزا کی ایک غزل پہ دل ہار جایا کرتیں تھیں۔

وقت بدلا زمانے کے اطوار بدلے مگر کھیل وہی رہے۔ چوسر، تاش اور شطرنج بھی پرانے کھیل ہیں۔ شطرنج کی بساط اب بھی بچھائی جاتی ہے۔ مرد میداں نت نئی چالوں میں دن رات مصروف کار رہتے ہیں۔ مہروں کی اٹھا پٹخ بھی جاری رہتی ہے مگر کبھی کبھی کوئی مہرہ تگنی کا ناچ نچا دیتا ہے، جسے نہ اگلتے بن پڑتی ہے نہ نگلتے۔ سنا ہے کسی زمانے میں مہروں کی جگہ انسانوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اے لو اس میں حیرانی کی کون سی بات ہے؟ آج بھی وہی کچھ ہو رہا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ان انسانوں کا شمار غلاموں میں ہوتا تھا اور آج خواہشات کے غلام انہی خانوں میں برضا و رغبت کھڑے چوتھی کھیلنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

پرانے وقتوں کے کچھ کھیلوں کی ہیئت بدل گئی نوٹنکی اب سنیما کے پردے کی زینت ہوئی۔ آج کل ممباسا نہیں جاؤں گا کی دھوم مچی ہے مگر یہ ظالم اجل انسان کو حیلے بہانے سے کھینچ کر اس جل تک لے جاتی ہے جہاں وہ اسے نگلنے کی منتظر ہوتی ہے۔ پتلی تماشا جو ایک چارپائی کھڑی کر کے گاؤں دیہات میں کھیلا جاتا تھا وہ اب بڑے بڑے تھیٹروں میں کھیلا جاتا ہے۔ جس کسی کی استطاعت بڑے تھیٹر کی نہ ہو وہ اسے گھر میں موجود چھوٹے پردے پہ بھی روز دیکھ سکتا ہے۔

کیا کیا تو تکار اور سر پھٹول ہوتی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ سینہ بسینہ چلنے والی کہانیاں فیس بک پہ جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ وہاں تو بات بات پہ کوا کان لے جاتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کان لے جانے کی خبر دینے والے کوے باقاعدہ اجرتی ہرکارے ہوتے ہیں۔ واللہ عالم با الصواب۔ اس دماغی دھینگا مشتی میں بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔

کچھ کھیل ایسے بھی ہیں جو بالکل نہیں بدلے جیسے کے بندر کا تماشا ۔ امیر ہو یا غریب یہ ہر بچے کا مرغوب ترین کھیل ہے۔ اس کھیل میں بندر اور مداری کلیدی کردار ہیں، ایک نچنا اور دوسرا نچئیا۔ مگر مداری کے جھولے میں موجود دیگر اشیا کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن میں سر فہرست چھڑی، ڈگڈگی اور ایک چھوٹی سی کرسی، دیگر اشیا اتنی اہم نہیں۔ ڈگڈگی بجتی ہے اور بچہ جمہورا ناچتا ہے، نت نئے کرتب دکھاتا ہے۔ اور آخر میں جھک کر سلام ٹھونکتا ہے۔

نہ ٹھونکے تو مداری کی چھڑی ذرا کی ذرا میں پچھواڑہ لال کر دیتی ہے۔ لال پچھواڑے کے ساتھ کرسی پہ بیٹھنا واقعی دل گردے کا کام ہے۔ یہ شاید ہمارے آپ کے لیے مشکل ہو مگر بچہ جمہورا کی ساری دوڑ دھوپ اسی نامراد کرسی کے لیے ہوتی ہے۔ اس تماشے میں مزا تب آتا ہے جب بندر چھڑی کے ڈر سے خوخیاتا بھاگ جاتا ہے اور مداری آنے ٹکے والی چادر سمیٹ اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔ آگے آگے بندر اور پیچھے پیچھے مداری، بھئی کیوں نہ بھاگے اس کی روزی روٹی تو بندر سے ہی وابستہ ہے۔ دوسری فکر یہ کہ مطلب کا بندر ملتے دیر لگتی ہے اور سدھانے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔

ہم کل کے بچے اب بوڑھے ہوئے اب اس تماشے سے جی اوبھ گیا ہے۔ اپنے تو شب و روز وہی ہیں کہ نہ ہم بدلے نہ تم بدلے نہ دل کی داستاں بدلی۔ صبح سے شام کرتے بدن کی دو سو چھ ہڈیاں کتنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہیں سوچنے کی مہلت تک نہیں ملتی، یاد رہتا ہے تو بس اتنا کہ سویرے اٹھ کر اسی کنویں سے پانی نکالنا ہے جس میں کتا مرا پڑا ہے۔ اس مرے ہوئے کتے کو کون نکالے گا یہ تو مولا ہی جانے۔ مولا کہاں ہے کسی کو پتہ نہیں کیوں کہ ہر گلی کوچے میں نوری نت دندناتا پھر رہا ہے۔ یہ فسانہ عجائب کہیں بھی تو کس سے کہ اب تو اس الف لیلٰی کو سننے اور سمجھنے والا بھی کوئی نہیں رہا۔ یعنی کہ

بنے کیوں کر، کہ ہے سب کار الٹا
ہم الٹے، بات الٹی، یار الٹا

اس داستان امیر حمزہ کا کارن کیا ہے یہ تو ہم بتانے سے رہے۔ جہاں میر محفل کے سامنے اتنے بڑے بڑے جغادری دم سادھے رہے وہاں ہم جیسے ہما شما کی کیا حیثیت؟ ہمیں کلیمنجارو کی برفیلی چوٹیاں سر کرنے کا نہ شوق ہے نہ بوتا۔ یہ لفظ ہماری مرحومہ دادی استعمال کیا کرتی تھیں۔ (اس کا مطلب ہے ہمت و حوصلہ) اپنے ہاں تو اس سے کہیں اونچے پہاڑ ہیں۔ ہے کوئی مائی کا لال جو انہیں سر کرے؟ لاٹھی والے بولائے ضرور ہیں مگر قرائن کہتے ہیں کہ بھینس ان ہی کی ہے۔ ارے بھین چھری تلے دم لو باسی کڑھی کا ابال ہے کچھ دیر میں بیٹھ جائے گا۔ منظر نامہ کب بدل جائے کون جانے!

اور پھر وہی ہم تم ہوں گے بادل ہو گا!

منا بھائی، ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کی عملی تصویر ہیں۔ ان کے کھیسے میں کیا ہے اور کیا نہیں، وہ اس کی ہوا نہیں لگنے دیتے۔ چڑیا کی دگی کو اکا بنا دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ پاگلوں کی تو ہم کچھ نہیں جانتے مگر گزرے ماہ و سال میں اتنا اندازہ ضرور ہوا ہے کہ بھان متی کا کنبہ جیسے جوڑا جاتا ہے ویسے ہی توڑ دیا جاتا ہے۔ ہمارے اور آپ کے سامنے کاٹھ کا وہ ہاتھی رکھا جاتا ہے جس کی دم بھی اپنی نہیں ہوتی، موقع ملتے خود ہی کٹ لیتی ہے۔ بیچارے بندر کی قسمت میں تماشا رچانا ہی لکھا ہے۔

ڈگڈگی جس کے ہاتھ ہے مینا اسی کا ہے۔

جو لوگ بڑے بھونپو ہوتے ہیں انہیں ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ ہاں تھوڑا کشٹ تو انہیں بھی اٹھانا پڑے گا جیسے گئے دنوں میں دوسروں نے اٹھایا۔ قرائن پھر یہی کہتے ہیں کہ وہ صاف نکل لیں گے مگر فی الحال تو مزاج یار کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آ رہا۔ تاریخ کے پنوں میں لکھا ہے کہ کبھی کبھی توپیں رنجک چاٹ جاتی ہیں۔ آگے کی جانے مولٰی مولا جٹ والا نہیں مگر ایک بات طے ہے کہ شطرنج کے کھیل میں پیادہ ہی مارا جاتا ہے خاص کر وہ پیادہ جو اپنی مرضی کی چال چلنا چاہے۔ کھیل کوئی بھی ہو مگر جب کوئی جان کی بازی ہارتا ہے تو بحیثیت انسان دکھ بہت ہوتا ہے۔ ہمیں تو یقین ہے کہ سب گول مال ہے مگر

ہاتھ کنگن کو آرسی کیا
پڑھے لکھے کو فارسی کیا

آنے والا وقت خود بتا دے گا کہ معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو چکا اور خلقت شہر یاراں لکیر پیٹ رہی ہے۔ تاریخ کے سیاہ ترین ابواب یہی گواہی دیتے ہیں کہ، نامعلوم افراد، نامعلوم ہی رہتے ہیں۔

بازیچہ اطفال کے اس کٹھ پتلی تماشے سے گھبرا کر
دل ڈھونڈھتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے

مگر اس دور ابتلا میں تصور جاناں میں بھی وہ دلربائی کہاں جو دل لبھائے! ہمارا تسبیح کے دانے گھمانے کا وقت ہو چلا، اب یہ مت پوچھیے گا کہ ان دانوں پہ کیا پڑھتے ہیں؟ ارے بھئی جو بھی پڑھیں، پژمردہ لبوں سے ہر دم یہی نکلتا ہے کہ

میرے معبود آ خر کب تماشا ختم ہو گا؟ ( افتخار عارف) چراغ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو نجانے کب یہ مژدہ خوش کن سنائے گی کہ برسوں سے جاری تماشے کا ڈراپ سین ہو چکا ہے، اب کوئی اور تماشا نہیں ہو گا۔ ہائے! یہ امید بھی کیا کیا سپنے دکھاتی ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments