قتل ناحق: چلو مانا کہ میں اچھا نہیں تھا


مائیکل ہیسٹنگز ایک مشہور امریکی صحافی تھا جو اپنی موت سے قبل لاس اینجلس کے مشہور علاقے بیورلی ہلز میں رہائش پذیر تھا۔ اس وقت ملک کا صدر باراک اوباما تھا۔ ہیسٹنگز اس وقت مختلف ڈاکیومینٹریز پر کام رہا تھا جو امریکی محکمہ دفاع، عراق اور افغانستان جنگ اور امریکی سی آئی اے کے بارے میں تھیں۔

ہیسٹنگز نے کالم بھی لکھے جو اوباما اور سی آئی اے کے خلاف تھے اور اس کے پاس کچھ ایسی معلومات تھیں جو اس نے عراق اور افغانستان جنگ کے دوران اکٹھی کی تھیں۔ اسی دوران اس نے اپنے دوست کو بتایا کہ اس کے لاس اینجلس کے علاقے میں ہیلی کاپٹروں کی پروازیں کچھ زیادہ ہو گئی ہیں اور ایف بی آئی اس کے دوستوں سے اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہی ہے۔

سترہ جون 2013 کو ہیسٹنگز نے اپنے ساتھ کام کرنے والے صحافی دوست کو بتایا کہ وہ فون پر اس کو کچھ نہیں بتا، سکتا۔ صحافی دوست ورجینیا میں رہتا تھا اور اس کی ایک دوست اس سے ملنے ورجینیا جا رہی تھی۔ صحافی دوست نے ہیسٹنگز سے کہا کہ تم لاس اینجلس میں میری دوست سے لنچ پر ملو اور اس کو بتاؤ۔ وہ ورجینیا آ رہی ہے اور جو باتیں تم مجھ تک پہنچانا چاہ رہے ہو، وہ بحفاظت مجھ تک پہنچ جائیں گی۔

اس لنچ کی نوبت نہیں آئی۔ اس گفتگو کے اگلے دن یعنی اٹھارہ جون 2013 کو ہیسٹنگز کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ درخت سے ٹکرا گئی۔ پھر گاڑی دھماکے سے تباہ ہو گئی۔ یہ امریکہ کا واقعہ ہے جو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا تھا۔ آج تک اس واقعہ کی تحقیقات میں کچھ نہ پتا چل سکا اور یہ معمہ ہی رہا۔

نامور اینکر پرسن ارشد شریف کا کینیا میں قتل کا سن کر دلی رنج ہوا۔ کم و بیش حالات امریکی صحافی مائیکل ہیسٹنگز کی طرح ہی تھے۔ تعصب میں بکھری ہماری قوم اب کسی کے قتل پر یہ دیکھتی ہے کہ وہ کس کا بندہ تھا، کس کے حق میں رپورٹنگ کرتا تھا اور کس کے خلاف پروگرام کرتا تھا۔

انسانی جان کی کوئی حرمت نہیں ہے؟ پانچ بچوں کے باپ اور بوڑھی ماں کے آخری سہارے کی زندگی کی کوئی وقعت نہیں ہے؟ خدا نخواستہ، اگر ارشد شریف کی جگہ سلیم صافی یا غریدہ فاروقی ہوتیں تو کیا دوسرا فریق اتنا ہی غمگسار ہوتا یا یہ کہتا کہ سلیم صافی کے ساتھ اچھا ہوا، مر گیا، غدار تھا، لفافہ صحافی تھا۔ ہم کسی کے مرنے پر کیسے متعصبانہ رویہ رکھ سکتے ہیں؟

مریم نواز کا ٹویٹ بھی اسی متعصبانہ رویہ کی عکاسی کرتا ہے جو ہمارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کر رہا ہے۔ آپ کو کسی کے طرز صحافت پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اس پانچ بچوں کے باپ صحافی کے قتل پر اپنی بھڑاس نکالنا کسی طور پر بھی ایک لیڈر کو زیب نہیں دیتا۔

ہمارا معاشرہ ہر بے گناہ مرنے والے کو یا قاتل کو اپنے سیاسی، علاقائی اور مذہبی تعصب کے چشمے سے دیکھتا ہے۔ اگر کسی قاتل کے نام کے آگے جتوئی ہے تو وہ کسی صوبے اور علاقے کے لوگوں کے لئے معصوم ہے۔ اگر کوئی قاتل بلدیہ ٹاؤن کراچی کی فیکٹری میں آگ لگانے والا ہے تو وہ کسی تنظیم کے لئے بے گناہ ہے۔ پکا قلعہ حیدرآباد اور اورنگی ٹاؤن کراچی میں ایک مخصوص زبان بولنے والے سینکڑوں لوگوں کو رات کی تاریکی میں آپریشن کر کے قتل کر دیا گیا، کون بولا؟ فاروق ستار کے کوآرڈینیٹر کا قتل رینجرز کی کسٹڈی میں ہوا۔ لاش پر تشدد اتنا تھا کہ وہ آسانی سے شاپنگ بیگ میں آ سکتی تھی۔ پنجاب اور سرحد سے کس نے اس ظلم پر آواز اٹھائی؟

منظور پشتین اور علی وزیر کے جائز حقوق کے لئے کراچی والے آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ کیا ولی خان نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ نہیں دیا تھا؟

پاکستانی احمدی برادری کے ساتھ جو نا انصافیاں ہو رہیں ہیں، اس پر آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی؟ کیوں ہمارے ملک میں عیسائی اور ہندو بھائی اپنے نام تک تبدیل کر لیتے ہیں اور مسلمانوں والا نام رکھ لیتے ہیں۔ کیوں ان کے مندر اور گرجا گھر ڈھونڈنے سے ملتے ہیں؟ اور جب کوئی نیا مندر اور گرجا گھر بننے کی بات چلے تو ہم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ مسلمان ملک میں مندر۔ یہ عدم برداشت کب تک؟ جون ہمارے معاشرے کو کتنا اچھا جان گئے تھے، کہتے ہیں

ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی

ارشد شریف کی موت اسی عدم برداشت کا نتیجہ ہے۔ اگر ہم سب مل کر بہت پہلے حامد میر پر حملے کو سنجیدہ لیتے، صحافی سلیم شہزاد کے قتل پر ارشد شریف کی طرح مذمت اور احتجاج کرتے، تعصب سے بالا تر ہو کر کراچی یونیورسٹی کے عمر رسیدہ پروفیسر حسن عارف کے قتل پر ملک گیر احتجاج کرتے، پولیس انسپکٹر راؤ انوار کے جعلی پولیس مقابلے میں مارے گئے چار سو نوجوانوں پر اس کو سزا دیتے تو شاید آج ارشد شریف ہم میں ہوتے۔

لیکن ہم صرف اس کو سچ اور صحیح سمجھتے ہیں جو ہمارے سیاسی لیڈر، مذہبی مولوی اور لسانی برادری ہمیں بتاتی ہے۔ دوسرے صوبے، دوسری زبان بولنے والے، ہم سے دوسرا عقیدہ رکھنے والے لوگ اگر ناحق مرتے ہیں تو مریں۔ ہمیں اس سوچ سے نکلنا ہو گا۔ ہمیں تمام مذہبی، لسانی اور سیاسی تفرقات سے بالا تر ہو کر حق کو حق، ظلم کو ظلم اور نا انصافی کو نا انصافی کہنا ہو گا ورنہ ارشد شریف کا لہو ہم سے گلہ کرے گا کہ

تم ہی نے کون سی اچھائی کی ہے
چلو مانا کہ میں اچھا نہیں تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments