لارنس آف عربیہ اور موجودہ مشرق وسطیٰ


ہم ترقی پسند کیوں نہیں، ہم کیوں مغرب کی چالاکیوں سے سبق نہیں سیکھتے، کیا اہلیت نہیں، یہ سوال اپنے دوست سے بازار میں گھومتے ہوئے ایسے ہی کر لیا، دوست اس سے پہلے جواب دیتا ایک دکان کے ساتھ ایک بزرگ گاہک کچھ اس انداز میں اقبال ؒ کا شعر پڑھتے ہوئے گویا ہوئے ”خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ﷺ“ ، پھر دکاندار کیسے خاموش رہتا وہ بھی اپنے علم کی ہم پر آزمائش کے لئے آیا، اور کہنے لگا کہ جمہوریت میں انسان گنے جاتے ہیں تولے نہیں جاتے، اب میں عالمی حالات کے تناظر میں بات کرتا تو میں نے سوچا کے با ذوق لوگوں کے سامنے کیا بات کروں شاید اس وقت میرے لئے موضوع نہیں تھا۔

بعد میں سوچا کہ کیا کیا جائے؟ تو کچھ تحقیق کرنا شروع کی تو چراغ حسن حسرت کی کتاب ملی تو پڑھ کر ایسا لگا جیسے شاید کچھ سوالات کے جواب مل گئے، فلم لارنس آف عربیہ تو پہلے بھی دیکھی تھی، اب کردار اور اس کے پیچھے بڑے کھیل ( Great Game ) پر تحقیق شروع کی، اس کا خیال اس بات سے آیا کے گوروں نے آخر ایک عرصے کیسے راج کیا، 1857 میں مغل بادشاہوں کی شغلیہ بادشاہت کا چراغ گل کیا اور عوام کی خدمت کا بیڑہ اٹھاتے ہوئے خوب میوہ کھا یا، وہ تو دوسری جنگ عظیم ہو گئی تو یہاں سے چلے گئے، گو کہ ترکی پر قبضہ نہیں کر سکے لیکن وہاں بھی سازشوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہ ترکیب ہاشمی تو جب بھی لاگو ہوتی تھی؟ ہاں شریف مکہ اور ترکوں کے درمیان کیا مسائل آئے کیسے حجاز مقدس میں عثمانی فوج کے ہوتے ہوئے ہاتھ سے نکل گیا پھر بعد میں ترکی والے خلافت سے دست بردار ہو گئے۔

چراغ حسن حسرت کی کتاب عربوں کی بغاوت اور لارنس آف عربیہ کے صفحہ نمبر 24 پر اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے چراغ لکھتے ہیں۔ ”جب سلطان عبد الحمید خاں مرحوم نے حجاز ریلوے کی تعمیر کا ارادہ کیا تو محمد العون کے فرزند علی نے جو اپنے باپ کا صحیح جانشین تھا اور جسے فرنگی دوستی اور اسلام دشمنی ورثے میں ملی تھی، عربوں کو سلطان کے خلاف اکسایا۔ سلطان عبد الحمید خاں کی نگاہ دور رس نے پہچان لیا، کہ علی کا بیٹا حسین ایک سرکش اور عیار نوجوان ہے اور اگر اسے اپنے منصوبوں کی تکمیل کے لئے آزاد چھوڑا گیا تو خطرناک ثابت ہو گا، چنانچہ حسین کو قسطنطنیہ میں طلب کر کے نظر بند کر لیا گیا، لیکن بظاہر شاہی مہمان تھا اور مصارف خزانہ سلطانی سے ادا کئے جاتے تھے“ ۔

1917 ء میں جنگ عظیم اول سے پہلے حجاز و عرب میں بغاوت کی بنیاد رکھ دی گئی تھی، یہ نئی عرب دنیا کی تشکیل تھی، جسے ہم آج کا مشرق وسطیٰ کہتے ہیں، بعد میں چراغ حسن حسرت کی کتاب کے مقدمے میں 1930 ء کی تاریخ ملتی ہے، آج اس کتاب کو شائع ہوئے تقریباً نوے سال سے زائد ہوچکے، نئے مشرق وسطیٰ کی تشکیل میں آئے سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا، حالات تو اب بھی خراب ہیں، بنیادیں لیکن اسی زمانے میں انتہائی یکسوئی کے ساتھ رکھی گئیں تھیں۔

یعنی سات سمند پار بیٹھے فیصلہ صحرائی ٹیلوں پر کھینچی لکیروں کو اپنی حسب منشاء جب چاہیں تبدیل کر دیں۔ اردو زبان میں اس حوالے دو مزید کتابیں میری نظر سے گزریں ایک نسیم احمد صاحب کی حجاز ریلوے، عثمانی ترک اور شریف مکہ آخر میں قاضی مشیر الدین کا ترجمہ شدہ لارنس آف عربیہ ایڈورڈ رابنسن کی، حیرت ہے، یا تو میری کم علمی ہے یا اس موضوع پر قلم نہ اٹھانے والوں کی، ایک بڑا حصہ اس عمارت کی بنیاد اس وقت لارنس آف عربیہ ( 1888 سے 1935 ) اور اس کے ٓآقاؤں یعنی انگریز سامراج شریف مکہ کے ساتھیوں نے رکھی۔

حجاز ریلویز ایک بڑا زبردست منصوبہ تھا، ذرائع آمد و رفت کا تعلق صنعت و حرفت کی ترقی سے جڑا ہوتا، اس وقت اسٹیم ریلوے انجنوں کو بڑے پیمانے پر استعمال میں لایا گیا، دستیاب جدید ترین ٹیکنالوجی تھی، اور ریلوے ٹریک اتنے بڑے پیمانے پر سلطنت عثمانیہ کے دور میں بچھائے گئے، ابھی پچھلے سال دی اکانومسٹ کی ایک رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا، یہ راز کھلا کہ صرف حجاز ریلوے نہیں، پورا مشرق وسطیٰ میں ریلوے لائنز کا جال بچھنا تھا، مزید حج، عمرہ اور زیارتوں کے لئے جانے والے مسافروں کو الگ آسانی ہوجاتی۔

اس رپورٹ سے ہٹ کر میں آج یہ ضرور کہہ سکتا ہوں اپنے وقت کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ضرور تھا مڈل ایسٹ ریلوے، اور یقیناً حجاز ریلوے اس کا سی پیک تھا، جس کو ویسے ہی تباہ کرنے کی کوشش کی گئی، ویسے ہی روکنے کی کوشش کی گئی، جیسی آج ہم سی پیک کے لئے دیکھ رہے ہیں۔ کیپٹن ٹی ای لارنس کی جگہ ہمیں آج کمانڈر کلبھوشن یادیو نظر آ رہا ہے، یقین سے کہہ سکتا ہوں، کمانڈر کلبھوشن ایک بند باب ہے، کیونکہ اس کی جگہ کوئی اور پوسٹنگ آ گئی ہوگی۔

سی پیک پر مزید بات کسی اور وقت کے لئے محفوظ کرتا ہوں اور دوستوں کو واپس حجاز ریلوے اور مڈل ایسٹ ریلوے کی جانب لے جاتا ہوں، حجاز ریلوے کی تاریخ اگر کچھ اور ہوتی تو یقینا خطے کی تاریخ اور ترقی کی تاریخ کسی اور انداز میں لکھی جاتی۔ شکوہ کس سے کروں، وہ جو آج خادم حرمین الشریفین ہیں یا جو اس موجودہ سعودی رجیم سے پہلے تھے، یعنی شریف مکہ کے خاندان اور قبیلے والے، تاریخ بہت تاریک ہے، محمد بن سلمان بظاہر آج سعودی عرب کی نئی راہ متعین کرنے جا رہے ہیں، ان سے پہلے کی ترقی محض اتفاقیہ معلوم ہوتی ہے، چلو آج ہی کچھ خیال آیا ترقی کا ، لیکن ابھی بہت کچھ ہے جو واضح نہیں، تو اس پر رائے زنی میں نہیں کر سکتا۔

1948 ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد اسرائیل نے اپنے بد ترین دشمنوں یعنی عثمانیوں کی ریلوے لائن اکھاڑ نہیں پھیکی، وہ اس کی افادیت سے واقف تھے بلکہ انھوں نے فلسطین ٹرانس جارڈن ریلوے لائن، جو مڈل ایسٹ ریلوے نیٹ ورک کی ایک شاخ ہے، اس کو وقت کے ساتھ ترقی دی (تصویر کیپشن : حیفا اسٹیشن عثمانیوں کے وقت اور آج اور ٹرانس جارڈن اور فلسطین ریلوے نیٹورک نقشہ) ، ایک عرصے تک استعمال کی، آج میوزیم اور مارشلنگ یارڈ آج بھی موجود ہے، شام میں بھی موجود رہی، دی اکانومسٹ کی اسٹوری سے یہ معلوم ہوا افریقہ میں خرطوم، اسکندریہ قاہرہ، فلسطین اور شام میں یروشلم، دمشق اور عراق میں بصرہ اور بغداد، 1930 ء تک انگلش چینل سے قاہرہ تک جانے کے لئے مسافروں کو دو دن کے سفر کے لئے تین ٹرینیں بدلنی پڑتی تھیں۔ 1975 ء میں طرابلس سے بیروت کے لئے آخری ٹرین چلی تھی، پچھلے ستر سالوں میں ٹریک عراق سے مراکش تک کوئی ٹرین نہیں چلی، اکانومسٹ کی رپورٹ کافی دلچسپ لگی، آج شمالی عرب سے مدینے تک حجاز ریلوے کے آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں، کہیں پرانے ریت میں دھنسے ہوئے زنگ آلود لوکوموٹوز (ریلوے انجن) بھی دکھ جاتے ہیں۔

مدینہ میں اسٹیشن موجود ہے لیکن اب وہ ایک ایسے خواب کی تعبیر کی صورت میں رہ گیا ہے جس کو جاگتی آنکھوں سے دیکھنا شاید اب کسی حکمران کی خواہش نہیں۔ شاید یہ نفرت ہے عثمانیوں سے، جو تاریخ میں تین بر اعظموں پر حکمران رہے۔

1888 ء میں ویلز میں پیدا ہونے والا تھامس ایڈورڈ لارنس جس کو ہم لارنس آف عربیہ کی نام سے جانتے ہیں پیٹر اٹول کی ایک شاہکار فلم اس حوالے سے موجود ہے، تاریخی فلم کئی اعتبار سے شاہکار ہے، اس فلم پر تجزیہ کرنے والے کہتے ہیں کہ لارنس آف عربیہ کو ایک ہی وقت میں مظلوم، قاتل اور بے بس دکھایاگیا، چلیں الفاظ سے آگے چلتے ہیں، اس فلم کو سات آسکر ایوارڈ ملے، یہ فلم میری پسندیدہ فلمز کی فہرست میں بہت اوپر ہے، پکچرائز بھی شاندار ہوئے، اسکرین پلے بھی شاندار، یہاں تک کے بیک گراؤنڈ میوزک بھی آسکر ایوارڈ لے گئی۔

ٹی ای لارنس کو اچھا خاصہ لاپرواہ اور معصوم لیکن ذہین انسان کے طور پر پیش کیا گیا، ایڈورڈ اپنے والدین کی جائز اولاد نہیں تھا، یہ مغربی سوسائٹی میں کوئی عجیب بات نہیں سمجھی جاتی، تو ہم اس حوالے سے مزید کیا لکھیں ظاہر ہے یہ ہمارا مسئلہ بھی نہیں، لارنس قد میں پانچ فٹ پانچ انچ، آکسفورڈ کا پڑھا لکھا نوجوان تھا جس کا آرکیولوجی اور ادب میں زبردست رجحان تھا، کئی زبانوں پر جیسے انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، عربی اور فارسی پر عبور رکھتا تھا، 1910 سے 1914 ء تک لارنس عراق اور شام میں آثار قدیمہ کی کھوج کے سلسلے میں مصروف رہا، 1914 ء میں جنگ عظیم کے آغاز کے ساتھ ہی اس نے بطور رضا کار اپنی خدمات پیش کی، اس کی پوسٹنگ عرب بیورو میں ہوئی، یہ جارج برنارڈ شا سے اتنا متاثر تھا کہ اپنے نام کے ساتھ شا (Shaw ) کا اضافہ کر لیا، لارنس آف عربیہ کی کتاب Seven Pillers of Wisdom (یعنی ذہانت کے سات ستون) کا دیباچہ بھی جارج برنارڈ شا نے لکھا، جس کو پروف ریڈ برنارڈ شا کی بیگم نے کیا، جارج برنارڈ شا لارنس کے لئے ایک باپ جیسی شخصیت ضرور تھے، تھامس ایڈورڈ لارنس عرب میں اپنے مشن سے فارغ ہونے کے بعد کچھ عرصہ برطانوی شاہی ائر فورس کے ساتھ منسلک رہے، 1922 ء میں جب برطانوی شاہی فضائیہ کا حصہ بنے جہاں اس وقت سرکاری کاغذات میں رینک کے ساتھ ٹی ای لارنس کی جگہ ٹی ای شا استعمال ہوا۔

لارنس نے کچھ عرصے کراچی کے ڈرگ روڈائر بیس پر بھی قیام کیا جو آج پی اے ایف بیس فیصل کہلاتا ہے، بعد میں لاہور اور پشاور میں بھی رہائش اختیار کی، برطانوی روزنامہ گارجئین کی اتوار دس جون 2001 ء کی اشاعت کے مطابق لارنس نے لاہور میں ایک مسلم خاتون سے شادی کی تھی جو بہت عرصے نہیں چل سکی، اس زمانے میں لارنس شمال مغربی ہندوستان (یعنی آج کے خیبر پختونخوا) کے علاقے میرانشاہ میں بھی تعینات رہا، پہلے ہاں جو کچھ اس نے بطور ایک جاسوس کے کیا، ایک تخریب کار کے طور پر کیا، مغرب کا ہیرو، اور کیوں کہ جیت اس جاسوس کی ہوئی تو تاریخی اعتبار سے ہیرو بن گیا، ورنہ کمانڈر کلبھوشن اور اس ٹی ای لارنس میں فرق کوئی نہیں، ان کو بھیجنے والوں کی نیت بھی ایک جیسی، لارنس نے عرب سرداروں کو کیسے رام کیا کم از کم فلم میں تو واضح ہے۔ میری کوشش ہوگی فلم اور اصل لارنس آف عربیہ کو فلمی کردار اور اصلی تاریخی کردار کو اپنے پڑھنے والوں کے سامنے واضح تر کرتا چلوں۔

(سرورق سیون پلرز آف وزڈم، لارنس جارج برنارڈ شا کے ہمراہ اور فلم لارنس آف عربیہ کا کوور فوٹو)

فلم کے آغاز میں لارنس آف عربیہ کو موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دکھایا گیا، جس میں وہ حادثے کا شکار ہوجاتا ہے، یہ اصل کہانی یعنی تھامس ایڈورڈ لارنس کی زندگی کا اختتام تھا، پھر فلم سینٹ پال چرچ میں لگے اس کے مجسمے پر اس کے مرنے کے بعد اس کو قریب سے جاننے والوں کے تاثرات سے آگے بڑھتی ہے، سینٹ پال کیتھیڈرل میں لارنس آف عربیہ کا مجسمہ کیوں رکھا گیا۔ قاہرہ، مصر میں برطانوی فوج کے لئے نقشے بنانے کے اہم کام کر رہا تھا۔

لیکن ایک اور اہم کام کے لئے چن لیا گیا فلمی کیپٹن لارنس سے شروع کرتے ہیں کی جو جزیرہ نما عرب میں قاہرہ سے ایک جاسوس کے طور پر آیا، بعد میں فلم میں اس نے کیا کیا یہ فلم دیکھنے والے بھی دیکھیں گے، قبائلی عربوں کو دو طرح سے پیش کیا گیا ایک تو ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ سے کیسی نفرت کرتا ہے، ایک دوسرے سے دشمنی میں کس حد تک جاسکتا ہے، خون بہانہ کوئی بڑی بات نہیں، دوسرا پہلو عربوں کو لالچی دکھایا گیا، کس طرح آسانی سے خواب دکھا کر لارنس نے ان کو قائل کیا، فلم میں یہی دکھایا گیا، ہمارے عظیم اداکار ضیاء محی الدین صاحب اور بھارتی آئی ایس جوہر کو فلم میں ایسے کرداروں میں استعمال کیا گیا جیسے بالی وڈ والے ہمارے فنکاروں کے ساتھ ایک عرصے تک کرنے کی کوشش کرتے رہے، ضیاء صاحب ایک صحرائی گائیڈ کے طور پر نظر آئے، جس میں وہ ایک مصری فنکار عمر شریف کی گولی کا نشانہ بن گئے، یہ لارنس کے ساتھ فلم میں ایک اہم کردار سے پہلا تعارف ہوتا ہے، جو اچھا نہیں ہوتا، بہرحال لارنس آگے بڑھتا ہے اور وہ دیکھتا ہے ایک عرب بدو قبیلے پر ترک فضائیہ کے طیارے بے دریغ گولیاں برسا رہے ہیں، بم گرا کر قبیلے کے لوگ نشانہ بن رہے ہیں، اسی ٹائپ کا سین بعد میں ہمیں بعد کی فلموں میں بھی نظر آئے، بلکہ بہت نظر آئے۔

خیر لارنس اس حملے کے بعد قبیلے کے سردار پرنس فیصل جو شریف حسین کے بیٹے ہیں، روبرو ہوتے ہیں، پرنس فیصل ترک فضائی حملہ آوروں کے بعد اپنی بے بسی پر پریشان نظر آرہے ہوتے ( فیصل کو پرنس فیصل کیوں کہا گیا یا بتایا گیا سمجھ نہیں آیا ) ان کا سامنا برطانوی کیپٹن ٹی ای لارنس سے ہوجاتا ہے جیسے اللہ نے مدد کے لئے کسی فرشتے کو بھیج دیا ہو جیسے پھرنیفو صحراء کو عبور کر کے عقبہ پر قبضے کا قصہ شروع ہوتا ہے پھر فلم میں دکھایا گیا کے 50 افراد کے لشکر کے ساتھ روانہ ہوتے ہیں کہ کچھ نیا کمال کرنے، فلم میں دکھایا گیا کہ اس کے بعد اینتھنی کوئن فلم میں محمد بن ابو تائی کے کردار میں نظر آئے جو بنیادی طور پر ترکوں کے باج گزار ہوتے ہیں، ایک ہی رات کے کھانے پر سارے معاملات پر اتفاق آسانی سے ہوجاتا ہے، لارنس ان کو ایک سونے سے بھرے صندوق کا لالچ دیتا ہے، اگلے دن عقبہ فتح کرنے پھر اگلے دن لشکر ایسے روانہ ہوجاتا ہے جیسے کوئی بڑی بات نہیں جنگ لڑنا۔

لیکن یہاں پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں یہ کوئی محض مجاہدین کی کارروائی نہیں تھی، اس میں برطانوی رائل ائر فورس اور بحریہ نے بھی حصہ لیا، لیکن جیسے اس کو ایک اندرونی شورش کے طور پر دکھایا گیا جو بیرونی مداخلت پر پردہ ڈالنے کی کوشش نظر آتا ہے، یہ کساد بازاری کے وقت کا معاملہ ہے، جب یورپ کے حالات کافی خراب تھے، اور ترکی براہ راست متاثر ہو رہا تھا، لیکن فرانس اور برطانیہ مزید علاقوں میں اپنی سیاسی اور فوجی چالیں چلنے میں مصروف تھے۔

فلم پر بات محض اس لئے کی کہ لوگ فلم اور تاریخ کو الگ الگ جان لیں، چلیں تاریخ میں میری کم علمی یا میرا زاویہ سمجھنے والوں کو ناگوار گزر سکتا ہے، اس کے لئے وہ کمنٹ سیکشن کا استعمال کریں گے تو ہو سکتا ہے میں اپنی معلومات کو بہتر کرلوں، میرے استاد ایک دن کہنے لگے تم معذرت خواہانہ کیوں ہوتے ہو، ایسے نہیں چلے گا، استاد محترم کی بات اور کچھ پرانی عادت کا خیال رکھتے ہوئے یہ بات کہہ جانا بہتر لگا، اب لارنس آف عربیہ کی جانب آتے ہیں جو تاریخ، جغرافیہ اور مستقبل کا حلیہ تبدیل کر گیا، یہ صاحب افغانستان میں بھی رہے وہاں بھی کچھ اسی طرح کے کارہائے نمایاں انجام دیے، اس زمانے میں افغانستان کے بادشاہ کو بھی ان لائٹ موڈریٹ کی دہن سوار ہوئی تھی، میں نہ انتہاپسندی کا حامی نہ نمائشی اعتدال پسندی کا ، میں صرف اعتدال پسندی کا قائل ہوں جس میں سب کو اپنے عقائد کے ساتھ جینے دیا جائے۔

فلم میں جہاں اصل ہیرا پھیری ہوئی وہاں ایک اچھے الیوژنسٹ کی طرح فلم ڈائرکٹر ڈیوڈ لین نے ہاتھ کی صفائی دکھاتے تھامس لارنس کو مظلوم بنا دیا۔ تاکہ ساری توجہ کہانی کے بجائے لارنس پر مرکوز ہو جائے، بہت سارے اہم کردار فلم میں سرے سے شامل نہیں ہوئے، ایسے ہی واقعات شاید فلم کو مزید طویل ہونے سے روکنے کے لئے کیے گئے، کہانی واقعات سے نکل کر لارنس تک سمٹ گئی جیسے، یہ سوٹ کرتا بھی شاید بنانے اور بنوانے والوں کو ۔

اصل تاریخ میں حجاز ریلوے جیسے لکھا ہے تاریخ میں ایک بڑا منصوبہ تھا، اس کی حفاظت کے لئے عثمانی ترک افواج کی چھاؤنیاں موجود تھیں، کیوں کہ صرف صنعت، تجارت، آمد و رفت ہی اس کا ایک پہلو نہیں تھا، بلکہ مصر اور باقی ماندہ علاقوں میں خصوصاً بارڈر ایریاز تک فوج کی نقل و حمل بھی ایک اہم پہلو تھا۔ تاریخ میں یہاں اس لارنس آف عربیہ کے مقابل ایک ترک جرنیل، اس کے جانثار ترک اور عرب فوجی تھے، اس ترک جرنیل کو تاریخ میں فخری پاشا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے، عرب کے معرکے کے بعد فخری پاشا بھی افغانستان میں ترک سفیر کے طور پر رہے۔ مدینہ کا محاصرہ لارنس آف عربیہ کی اہم چال تھی، لیکن بہت مہنگی، لارنس آف عربیہ کے حامی بہت بری طرح پٹے لیکن چال بہر حال لارنس کامیاب ہو گئی، عثمانی افواج کے اندر سے غداری سامنے آئی، اور جس باب کو قربانیوں سے رقم ہونا تھا، لالچ کی بھینٹ چڑھ گیا، فتنہ مال یا مستقبل کی فکر جیت گئی۔

(جنرل فخری پاشا)

ڈائنامائٹ عرب میں نہیں اگا تھا، یہ مصر میں موجود عرب بیورو نے ہی بھیجا تھا، جس سے حجاز ریلوے کی لائنز کو جگہ جگہ سے نقصان پہنچایا گیا، اور لارنس کی قیادت میں عربوں نے استعمال کیا، ٹرین اڑانے والے سین میں دیکھا جائے، پھر عربوں کا گولیاں برسانا، جیسے یہ سب کچھ انسانیت کے دائرے میں ہوا ہو، انسانیت اور عالمی امن کے لئے ہوا ہو، یقینا جیتنے والے کے لئے وہ عالمی امن کا تصور ہو گا، انٹرول کے بعد پھر فلم میں جب ترکوں کو ظالم دکھانا تھا تو کچھ یوں دکھایا گیا کہ بیت المقدس سے پسپا ہوتی ترک فوج پر ایک عرب گاؤں میں قتل خون کے بعد آگے بڑھتے دکھایا گیا، جس سے لارنس اور اس کے لشکر میں اشتعال آ گیا، اور اس نے عرب بدوؤں کے دباؤ میں آ کر یہ نعرہ لگا دیا کہ کوئی یرغمالی نہیں چاہیے، کوئی بھی نہیں۔ بیچارہ دباؤ میں آ گیا، دیکھنے والے سوچ رہے ہوں گے ، یہ ہیرو ہے یہ کبھی یہ حکم نہ دیتا، لیکن دباؤ میں آ گیا تھا غریب۔

عقبہ آج اردن کا اہم پورٹ سٹی ہے، اس پورٹ سٹی کی اہمیت کئی ایک لحاظ سے اسٹرٹیجک اہمیت کی حامل ہے، اس کی مغرب اور جنوب کی جانب صحراء سینائی موجود ہے، شمال میں مان اور امان مغرب اور جب بھی تھا، فلم میں اس شہر کی فتح کا سین دکھایا گیا جیسے صرف لارنس کی قیادت عرب لشکر نے اس شہر کے باہر پڑاؤ کر کے کھڑا تھا اور اگلی صبح آسانی اس پر قبضہ کر لیا، اس شہر کی فتح میں لارنس اور اس کے ساتھ عرب جنگجو ہی نہیں برطانوی بحریہ اور فضائی قوت کا بھی استعمال ہوا

فلم کے آخری مراحل میں عرب دمشق شہر میں داخل ہوتے ہیں، اور وہاں ان کی کونسل میں جو بحث ہوتی ہے، لارنس کو ان کی حالت سے اکتاتا ہوا دیکھ کر یہ تاثر بنانے کی کوشش کی گئی، ان کو کچھ نہیں پتا، یہ مہذب لوگ ہی نہیں جو مسائل حل کر سکیں۔ کیسی خوبصورت اور عجیب بات لگتی ہے، اس فلم کی شوٹنگ سے محظوظ ہونے والوں میں اس وقت کے اردن کے تاجدار شاہ حسین بھی موجود تھے،

اس ساری رسہ کشی میں مغرب نے کیا حاصل کیا، کیا آج تک حاصل کر رہا، کب تک کرتا رہے گا، مقامی لوگوں نے کیا حاصل کیا، کیا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں، کیا گنوانا ہے ہیں اور مزید کیا گنوانا ہو گا، عرب حکمرانوں نے کیا حاصل کیا، کہاں کہاں ان کے وسائل بنے، ترکی اس کھیل کا آج تیسرا فریق ہے، اب ترکیہ ہو گیا، بظاہر سیکولر ترکی سے اسلامی ترکیہ، ترکی نے کیا حاصل کیا، کیا گنوایا اور کیا کچھ حاصل کر سکتا ہے

سب سے پہلے برطانیہ اور اس کے اتحادیوں پر نظر ڈالتے ہیں، برطانیہ کا کردار اب بظاہر ثانوی ہو گیا، طاقت گھٹ گئی، متبادل امریکہ ابھرا، امریکہ میں سب بڑے سرمایہ کار عرب ہی ہیں، عرب ایک جانب فلسطین کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں، دوسری جانب امریکہ اسرائیل کا سب اہم اور کلیدی اتحادی، مسئلہ مذہب سے ہٹ کر دیکھیں تو لسانی اور زمین کا محسوس ہوتا، جسے بے ڈھب طریقے سے ہمارے لیڈرز نے لڑا، اس کو سمجھ نہیں آتا کہ کس کھاتے میں ڈالوں، ہم عام پاکستانیوں کا جھکاؤ یقیناً فلسطین کی جانب ہے، ہم دیکھتے ہیں فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل کے وجود میں آنے سے لے کر آج تک چار جنگیں ہوئیں، عربوں سے کئی ایک طرح کی غلطیاں ہوئی، نتیجہ چاروں جنگوں میں شکست کی صورت میں آیا، (ان چاروں جنگوں پر کسی اور بلاگ میں ضرور بات ہوگی) فلسطین جغرافیائی لحاظ سے سمٹتا چلا گیا، یہی ان عربوں پر گزری جن کے انسانی حقوق بھی اسرائیلی فورسز کی مرضی پر چلتے ہوں، پھر وہ عرب ممالک کو فلسطین کے لیے لڑے، حاصل تو کیا کرنا تھا کچھ نہ کچھ حصہ گنوا بیٹھے، آسان الفاظ میں ”کھایا پیا کچھ نہیں گلا س توڑا بارہ آنے۔“

پھر آج بھی ہم دیکھتے ہیں امریکہ عربوں اور اسرائیل کا اہم اتحادی ہے، عرب ہر مسئلے پر اپنے بھائی سے تو لڑ سکتے ہیں، امریکہ کو نہ نہیں کہتے، اب تک ہر بڑے معاملے پر یہی دیکھنے میں آیا، اب آزادی حاصل کرنے والے عربوں کو دیکھتے ہیں ترک عثمانیوں کے بعد انھوں نے کیا کھویا، کیا پایا، کوئی مسئلہ نہیں تھا، عرب میں شریف مکہ حسین بن علی خالص ہاشمی خون سے تعلق رکھتے تھے، ان کے جد امجد نے ہی سلطان سلیم اول کی اطاعت گزاری قبول کر کے حجاز کی حاکمیت حاصل کی، حسین بن علی کی برطانوی حکومت کے ساتھ جو ساز باز کیا، یا ڈیل کی، یا معاہدہ کیا، اس کے بعد تو ان کو عرب کی بادشاہت ملنی ہی تھی، میدان صاف تھا، لیکن برطانوی دوستوں نے بادشاہت کے لیے کسی اور کو چنا، آل سعود نے ہاشمی فوج کو شکست دے کر جزیرہ نما عرب پر قبضہ کر لیا، حسین بن علی کے بعد ہاشمیوں کے حصے میں اردن کی بادشاہت آئی، یہ اردن کے موجودہ خاندان اسی کا تسلسل ہے، اردن ہمارا یعنی پاکستان کا مشرق وسطیٰ میں اہم دوست ملک ہے، یہ کیوں ہوا کہ ہاشمی قبیلے سے کسی اور کو کیوں عرب کا حکمران بنایا گیا، جنگ تو ساری انھوں نے لڑی تھی، اور بادشاہت کے لئے میدان بظاہر صاف بھی تھا، یہ میرا تجزیہ ہے شاید میرے دوست اور اس بلاگ کو پڑھنے والے اختلاف کریں، یہ رجیم چینج کیوں ہوئی لیکن انگریز نے جب تک ترکوں سے جنگ لڑنی تھی، ہاشمی خون کا ان کے ساتھ ہونا اس لئے ضروری تھا، کہ ان کی نسبت آقائے دو جہاں سے ملتی ہے، اگر یہی عرب کے حکمران ہو جاتے تو ہو سکتا ہے بادشاہت کے ساتھ ساتھ خلافت کا بھی کسی نہ کسی دن اعلان کر دیتے، اور محمد ﷺ سے نسبت کی وجہ سے مقبولیت بھی مل جاتی، تو ان کا مرکز سے ہٹنا تاج برطانیہ یا یوں کہیے اس وقت عالمی نظام کو سوٹ کرتا تھا۔

ورنہ عثمانیوں سے لڑائی کی وجہ ہی خلافت تھی، ایک مرکزی نظام جس سے دنیا بھر کے مسلمان جڑے تھے، ان کو کنٹرول کرنے سے خطے میں اپنے لئے بہتر کردار حاصل کرنا تھا، نہ کہ توازن بنا کر مسلمانوں کو سکون سے جینے دینا، پھر اسرائیل کا قیام بھی جب ہی عمل میں آ سکتا تھا، جو آیا اور آج اسرائیل خطے کی اہم طاقت ہے، اس کو تسلیم کرنے والوں کی لائن ایسے ہی لگی ہے جیسے ابرار الحق کا گانا ”ٹکٹ کٹاؤ لین بناؤ، اساں تے جانڑاں بلو دے گر“

اب ہم، ہم کہاں سے آ گئے گنتی میں، ہم تو اپنا سی پیک سکون سے نہیں بنا سکیں گے، اس وقت اس عالمی نظام کو کمزور غیر مستحکم پاکستان چاہیے، سی پیک کے لئے سازشیں ہوتی رہیں گی، ملک کے حالات خراب رہیں گے۔

اب ذرا ایک اور ہم کردار کی جانب صرف اشارہ کروں گا، ایک خاتون لارنس آف عربیہ، جسے لارنس آف عربیہ کی طرح مصر میں موجود عرب بیورو نے ہی بھیجا تھا، مشرق وسطیٰ کے دوسرے حصے یعنی عراق اور شام میں عثمانیوں کے خلاف بغاوت کو اٹھانا، تاریخ پڑھنے والے ڈھونڈ نکالیں گے مجھے یقین ہے، صحرائی ملکہ کہلانے والی گرٹوڈ مارگریٹ بیل (Gertrude Margaret Bell ) کو تاریخ پڑھنے والے جانتے ہوں گے، تھامس ایڈورڈ لارنس کی طرح ان کو بھی آرٹ، ادب اور آرکیولوجی میں دلچسپی تھی، عربی اور فارسی روانی کے ساتھ بولتی اور سمجھتی تھی، ٹھیک اسی انداز سے مشرق وسطیٰ کے گزشتہ شکل کو نئے نقشے میں تبدیل کرنے میں اس خاتون کا عمل دخل بھی کافی رہا برطانیہ کے ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی گٹ روڈ بیل ( 1868۔

1926 ) کو موجودہ جدید عراق کا بانی قرار دیا جاتا ہے، ان کے خاندان کو اس وقت برطانیہ کے چھٹے امیر ترین خاندان ہونے کا مرتبہ بھی حاصل تھا، یہ بغداد کے پر وٹیسٹنٹ کرسچن قبرستان میں مدفون ہیں، اس برطانوی خاتون پر بھی ایک فلم بنی جس کا نام Desert Queen ہے جس میں مرکزی کردار نکول کڈمین نے نبھایا یہ فلم تاریخی فلم دیکھنے والوں کے لئے ایک اچھی فلم ہے، معیار اتنا شاندار یقینا نہیں سمجھتا جتنا لارنس آف عربیہ کا تھا۔

ایکسٹرا نوٹ۔

حیفا پر 23 ستمبر 1918 کے دن برطانیہ نے ہندوستانی میسور ین اور پنجابی سکھ فوجیوں کے ذریعے قبضہ کیا، خالصوں سے لڑتے ہوئے ترک ان کے حلیے کو دیکھ کر پریشان تو ہوئے ہوں گے ۔

1921 ء میں مصر قاہرہ میں ایک خصوصی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تھامس ایڈورڈ لارنس، ونسٹن چرچل اور گوٹروڈ بیل نے شرکت کی، عرب بغاوت کے بعد عراق کے مستقبل اور اس کے برطانیہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اہم امور پر بات چیت اس کانفرنس کا حصہ تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments