برطرف وزیر اعظم کا لانگ مارچ


وطن عزیز ایک بار پھر لانگ مارچ کی زد میں ہے۔ سوشل میڈیا میں جس کثرت اور مضطربانہ انداز سے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے حوالے سے چہ میگوئیاں اور قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہیں، اس سے اندازہ ہوا کہ عوام کو شدت کے ساتھ ملکی سلامتی اور موجودہ صورت حال میں سیاسی عدم استحکام کو دور کرنے کے لئے مثبت خبروں کا شدت سے انتظار رہتا ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے کارکن کا اپنے لیڈر سے قلبی لگاؤ ہوتا ہے اس لیے نظام جمہوریت میں لانگ مارچ اگر پر امن ہے تو کسی بھی سیاسی جماعت کو اس کا مکمل حق ہے۔

مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زر داری، مریم نواز شریف تحریک انصاف کی اتحادی حکومت میں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کر چکے ہیں، برطرف وزیر اعظم عمران خان نے بھی 25 مئی 2022 کو اسلام آباد کی جانب سے پشاور سے مارچ کیا تھا لیکن وہ ہنگامہ آرائیوں اور فساد کی نذر ہو گیا۔ اس قبل دیگر سیاسی جماعتوں نے لانگ مارچ کیے ، اسلام آباد میں جلسے بھی کیے لیکن اس سے سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کی فضا مکدر نہ ہوئی تھی تاہم جب بھی عمران خان لانگ مارچ کی بات کرتے ہیں تو میڈیا وغیرہ میں ایک ابال سا آ جاتا کہ نہ جانے کون سی قیامت آنے والی ہے۔ سیاسی جماعت ہے، اس نے اپنا ایک بیانیہ بنایا ہے، اس کے بیانیہ کو سیاسی انداز میں رد کریں، ماضی میں تحریک انصاف نے ریڈ زون کی خلاف ورزیاں بھی کی تھیں۔ 126 دن کا دھرنا بھی دیا، لیکن اس سے ہوا کیا، کچھ بھی نہیں۔

پاکستان میں لانگ مارچ یا دھرنوں سے حکومت گرائی جا سکتی تو بعض سیاسی گروہ یا تنظیمیں ہفتے میں سات مرتبہ حکومتیں گراتے۔ حکومت کی تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے جو عمران خان کو برطرف کرانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ مارشل لا دوسرا ایسا راستہ ہے جس سے واپسی کے لئے ان گنت قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ میڈیا کا فریضہ ہے کہ وہ ان واقعات کا تجزیہ یا کوریج کرتے وقت قوم کے سامنے لانگ مارچ کے ماحصل پیش کریں، بلا وجہ کی سنسنی اور جانب دارانہ کوریج سے ہیجان خیزی پیدا کرنے سے گریز کریں۔ کسی بھی میڈیا ہاؤس کی جو بھی پالیسی ہو وہ مملکت کی سلامتی و بقا سے بڑھ کر نہ ہو۔ بیشتر میڈیا بعض اوقات کچھ ایسا پیش کرتا ہے جس سے بد قسمتی سے ملک میں ایسے حالات رونما ہو جاتے ہیں جس سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود ہو جایا کرتی ہیں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس سے قطع نظر کسی کا بھی مقصد ہنگامہ آرائی اور اشتعال انگیزی نہیں ہونا چاہیے۔

سیاسی مقاصد کے حصول میں ناکامی میں پر تشدد اقدامات و مظاہرے اور ماضی کی طرح سول نافرمانی جیسی تحریک چلانے کی ناکام کوشش کرنے سے پہلے لانگ مارچ کے منتظمین کو گہرے غور اور تدبر کی ضرورت ہے۔ سیاسی مذاکرات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا، اگر بیک ڈور رابطے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے تو فریقین کو اس کی ناکامی کے عوامل پر مزید غور کرنے اور لچک دکھانے کی ضرورت ہے۔

مذاکرات کے لئے مناسب وقت وہی ہوتا ہے جب فضا میں سکون ہو اور قوم کے جذبات اعتدال پر آ جائیں، بعض اوقات صورت حال اس قدر ابتر ہو جاتی ہے کہ کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ فضا میں سکون پیدا ہو جانے تک کا انتظار کریں۔ لہذا عدم تشدد اور برداشت کی سیاست کو فروغ دینے تک ایسے کسی عمل کو ملتوی کر دینا چاہیے جس سے ملک میں مزید انتشار پھیلے۔ لانگ مارچ کے حوالے سے بلا تاخیر اپنا اظہار یہ پیش کر سکتا ہوں کہ اس وقت ملک میں کوئی پارٹی اور کوئی جماعت ایسی نہیں جس کے ہاتھ میں زمام اقتدار آنے سے وہ مقصد پورا ہو سکے جس کے لئے اس خطہ زمین کو حاصل کیا گیا تھا۔

بعض سیاسی جماعتوں اور ان کے نام نہاد لیڈروں کی مفاد پرستی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، ایسا ہی وہ مقام تھا جہاں علامہ اقبال علیہ رحمہ نے اپنے بستر مرگ سے مدیر ”احسان“ کے نام اپنے خط میں لکھا تھا کہ وہ شخص جو دین کو سیاسی پراپیگنڈے کا پردہ بناتا ہے، میرے نزدیک لعنتی ہے۔ (بحوالہ انوار اقبال صفحہ 168 از بشیر احمد ڈار)

سر دست اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی تمام پارٹیوں اور جماعتوں سے گزارش کہ آپ سیاسی لڑائیوں کو سیاسی انداز سے لڑا کریں۔ اللہ کے واسطے اسلام کو فروعی مفادات کے درمیان میں نہ لایا کریں، اس سے آپ کو شاید کچھ وقتی مفاد حاصل ہو جاتے ہوں گے، لیکن اس سے اسلام کے تشخص کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اس کے نتائج بڑے دور روس ہوتے ہیں، ہم جس طرح اسلام کو اپنی پست سیاسی اغراض کے حصول کے لئے سپر بناتے ہیں، اس سے دنیا میں ہمارے بابت بھی اچھا تاثر نہیں جاتا پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔

لاہور سے لانگ مارچ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ برطرف وزیر اعظم کیا چاہتے ہیں، یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں رہا۔ اس لیے اس پر تفصیل سے خیال آرائی کرنا وقت کا ضیاع ہیں۔ رائی کو پہاڑ بنانے سے بہتر ہے کہ انہیں پر امن مارچ کر لینے دیں، سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق انتظامیہ کی اجازت سے جہاں ٹھہرنا چاہیں وہاں 126 دن کے بجائے 126 برس دھرنا دے دیں۔ اس سے عوام کی حالت پر کوئی فرق نہیں پڑنا۔ خطابات بھی ہوں گے، تاہم اپنی تقاریر میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھیں کہ ریاست کے خلاف ہر زہ سرائی نہ ہو، ورنہ خدشہ ہے کہ اسلام آباد پہنچنے سے قبل نا خوشگوار واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔

وفاقی حکومت سے بھی التماس ہے کہ وہ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں حائل نہ کریں، انہیں منزل مقصود تک جانے دیں۔ خیال رہے کہ نومبر میں آئیڈیا سیریز کا 11 ایڈیشن بھی کراچی میں منعقد ہو رہا ہے۔ 107 سے زیادہ ممالک کے وی آئی پیز سمیت 348 سے زیادہ اعلی سطح کے مندوبین مدعو ہیں۔ پوری دنیا کی نظریں دفاعی نمائش پر ہیں۔ حکومت کو حالات کو پر امن رکھنے کے لئے تحمل اور حتی لامکان صبر و برداشت سے کام لینا ہو گا۔ اس حوالے سے تحفظات رکھتا ہوں کہ نومبر میں اہم ایونٹ اور سپہ سالار کی تقرری کے موقع پر لانگ مارچ کرنے کا انتخاب کیوں کیا گیا۔ گر جائز سیاسی مقاصد ہیں تو ٹھیک لیکن ریاست کے اہم ترین ایونٹ پر اثر انداز یا عسکری قیادت کی تقرری کو متنازع بنانے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہی ریڈ لائن ہے۔ اسے کراس کرنے کی کوشش لانگ مارچ کے منتظمین کے لئے بہتر نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments