لانگ مارچ: ماؤ زے تنگ بمقابلہ عمران خان


کچھ بھی ہو۔ تاریخ کی کتابوں میں کچھ بھی لکھا ہو۔ چین کی حکومت کچھ بھی پروپیگنڈا کرے۔ ایک بات یقینی ہے۔ اور وہ یہ کہ عمران خان صاحب نے حسن انتظام میں ماؤ زے تنگ کو شکست دے دی۔ نہ صرف عمران خان صاحب بلکہ پاکستان کی وہ تمام سیاسی جماعتیں جو کہ ہر کچھ سالوں بعد ایک عدد ”تاریخی لانگ مارچ“ کا اہتمام کرتی ہیں وہ آرام اور سہولیات مہیا کرنے کے اعتبار سے ماؤ زے تنگ سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ شاید کچھ کمیونسٹ اور سوشلسٹ مزاج کے احباب اس پر حیران ہوں لیکن میں دلائل سے ثابت کر سکتا ہوں کہ پاکستان کے تمام لانگ مارچ انتظامی اعتبار سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے تاریخی لانگ مارچ سے زیادہ کامیاب تھے۔

اس کی سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ آپ ٹی وی پر دیکھ سکتے ہیں کہ عمران خان صاحب کے لانگ مارچ کا آغاز کتنے دھوم دھڑکے سے ہوا ہے۔ لوگ رقص کر رہے ہیں۔ موسیقی سن کر محظوظ ہو رہے ہیں۔ رونق میلہ لگا ہوا ہے۔ گاڑیوں میں سوار ہیں۔ کوئی افراتفری نظر نہیں آ رہی۔ شرکاء پراعتماد ہیں۔ لیکن تاریخی کتب گواہ ہے کہ ماؤ زے تنگ کے لانگ مارچ کا آغاز بالکل متاثر کن نہیں تھا۔

اکتوبر 1934 میں جب ماؤ زے تنگ نے لانگ مارچ کا آغاز کیا تو اس وقت چین کے کچھ حصوں پر کمیونسٹ پارٹی کی سرخ فوج کا قبضہ تھا اور کافی حصہ پر چیانگ کائی شیک کی نیشنلسٹ پارٹی کی نیشنل فوج کا قبضہ تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ چین کے سو فیصد عوام ماؤ زے تنگ کے ساتھ ہوں گے اور انہوں نے چیانگ کائی شیک کی نیشنل آرمی کو مزا چکھا دیا ہو گا۔ ایسا کچھ نہیں تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ لانگ مارچ سے قبل سرخ فوج کو بد ترین حالات کا سامنا تھا۔

خاص طور پر جنوبی چین میں نیشنل آرمی نے سرخ فوج کے گرد گھیرا تنگ کر دیا تھا۔ چیانگ کائی شیک نے چھوٹے چھوٹے قلعے بنا کر سرخ فوج کو محصور کر دیا تھا۔ اور دونوں فوجوں میں ہونے والے تصادم میں طرفین کے ہزاروں فوجی مارے جا رہے تھے۔ سرخ فوج نے جن کسانوں کو اس زرعی اراضی پر حقوق ملکیت دیے تھے جن پر ان کے آباء غلام بن کر کاشتکاری کرتے تھے، وہ ہزاروں کی تعداد میں سرخ فوج میں شامل ہو رہے تھے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ بڑی تعداد جنگ میں کام آ رہی تھی۔ نیشنل آرمی کے ہوائی جہاز ان پر بم بھی گراتے تھے اور مشین گنوں سے فائرنگ بھی کرتے تھے۔ چو این لائی کے مطابق صرف ایک محاصرہ میں ساٹھ ہزار کمیونسٹ فوجی مارے گئے تھے۔ جنوبی چین میں نیشنل آرمی نے بہت سے مقامات پر سرخ فوج کو ختم کر کے قبضہ کر لیا تھا۔

اب کمیونسٹ قائدین کو یہ نظر آ رہا تھا کہ اگر وہ اپنے مقامات پر محصور رہے تو نہ صرف ان کے علاقے دشمن کے قبضہ میں چلے جائیں گے بلکہ ان کی فوج کو ختم بھی کر دیا جائے گا۔ اس پس منظر میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ سرخ افواج کو محصور علاقوں سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر جمع کیا جائے تا کہ یہ فوج مکمل طور پر ختم نہ ہو۔ یہ تھا اس لانگ مارچ کا آغاز۔

ہمارے ذہن میں یہی خیال سمایا ہوا ہے کہ ماؤ زے تنگ کمیونسٹ پارٹی کے مقبول ترین لیڈر تھے۔ تو جب لانگ مارچ کا آغاز ہوا تو کم از کم کمیونسٹ پارٹی ان کے اشارے پر جان قربان کرنے کو تیار ہوگی۔ اور اس تاریخ ساز لیڈر کا کام بس اتنا ہی ہو گا کہ وہ لوگوں کو اشارہ کرے اور لوگ سر پر کفن باندھ کر نکل گئے ہوں گے۔ یہ خیال بھی غلط ہے۔ جب اس مارچ کا آغاز ہوا تو اس وقت اپنی پارٹی میں بھی ماؤ زے تنگ کی مقبولیت پست ترین سطح پر تھی۔ ان پر ہر طرف سے تنقید ہو رہی تھی کہ دشمن کے جاسوسوں کا صفایا کرتے ہوئے انہوں نے ہزاروں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے سرخ فوج کی تعداد کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ اور ان کے اختیار ات بہت محدود کر دیے گئے تھے۔

اس مرحلہ پر ماؤ زے تنگ نے ناراض ہو کر کمیونسٹ پارٹی کا فارورڈ بلاک یا حقیقی گروپ بنا کر اپنا راستہ علیحدہ نہیں کیا۔ بلکہ اس خطرناک ترین وقت میں سرخ فوج کی فرسٹ آرمی کی قیادت کرتے ہوئے اس مارچ کا آغاز کیا۔ گزشتہ دنوں میں ہم یہ اعلان سنتے رہے ہیں کہ لوگ اپنی فیملی سمیت اس لانگ مارچ میں شامل ہوں۔ ماؤ زے تنگ اور دوسرے کمیونسٹ لیڈر کے اہل خانہ بھی لانگ مارچ میں شامل تھے۔ لیکن انہیں عام شرکاء کی طرح گولیوں، بموں، بھوک اور آٹھ دس ہزار کلومیٹر کے ہوشربا سفر کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

ماؤ زے تنگ کے بھائی اس مارچ کے دوران مارے گئے۔ اسی مارچ کے دوران ماؤ زے تنگ کی اہلیہ نے ایک بچی کو جنم میں دیا۔ آج ہمارے لیڈروں میں یہ فراست موجود ہے کہ اکثر اوقات ان کے بچے لندن یا دوبئی جیسے محفوظ مقامات پر پہنچا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اس نوزائیدہ بچی کے والدین ایک گاؤں میں بچی کو چھوڑ کر سرخ فوج کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ اس فوج کے دو اور جرنیلوں کی بیویاں بھی اس فوج کے ہمراہ مصائب برداشت کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک اپنی اس بچی کے ساتھ سفر کر رہی تھی جس کی پیدائش صرف تین ہفتہ قبل ہوئی تھی۔

اس وقت نیشنل آرمی سرخ فوج کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ چنانچہ کمیونسٹ پارٹی کے ان اراکین کے پاس یہ سہولت موجود نہیں تھی کہ وہ جی ٹی روڈ پر یا موٹر وے پر سفر کر کے دھوم دھڑکے سے موسیقی کی دھنوں پر اپنا لانگ مارچ جاری رکھتے چنانچہ انہیں دریاؤں، دلدلی زمینوں اور برف پوش پہاڑوں سے گزر کر اپنی جانیں بچانی پڑیں۔ جب مئی 1935 میں کئی ماہ کے مصائب کے بعد سرخ فوج نیشنل آرمی کے مسلسل تعاقب سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہوئی تو انہیں تیرہ ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑی راستے سے گزر کر آگے بڑھنا پڑا۔

جو لوگ ہائیکنگ کرتے رہے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اتنی بلندی پر آکسیجن اتنی کم ہو چکی ہوتی ہے کہ چند قدم اٹھانے پر بھی سانس پھول رہا ہوتا ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین جو لانگ مارچ کرتے ہیں، اس کے راستے کا انتخاب اس عمدگی سے کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی مشکلات کا سامنا بالکل نہیں کرنا پڑتا۔ بلکہ آپ ائر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر بھی اس مارچ سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ بلکہ اب تو انقلابی مارچوں سے پہلے عدالت عالیہ سے یہ یقین دہانی بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس انقلابی مارچ کے شرکاء کو کوئی میلی نگاہ سے بھی نہیں دیکھے گا۔

ہم ہر جلوس کو جو اسلام آباد کی طرف روانہ ہو بڑی فراخدلی سے لانگ مارچ کا نام دے دیتے ہیں لیکن انواع و اقسام کے نام نہاد لانگ مارچوں کے قائدین کو بھی شاید اس حقیقت کا ادراک نہ ہو کہ جب مختلف کمیونسٹ افواج ایک سال موت، بھوک، تھکن، بیماریوں اور کپڑوں کی کمی کا سامنا کر کے شمال مغرب چین میں شانشی کے مقام پر جمع ہوئیں تو روانہ ہونے والوں کا صرف دس فیصد منزل پر پہنچ سکا۔ باقی یا موت کا شکار ہو گئے یا اس فوج کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گئے یا بیمار اور لاچار ہو کر پیچھے رہ گئے۔

لیکن ان افواج کا یہ طویل سفر کمیونسٹ پارٹی کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا۔ وہ مکمل طور پر ختم ہونے سے بچ گئے۔ اور وہ جن طویل راستوں سے گزرے یا جن پر قابض ہوئے وہاں پر ان کا پراپیگنڈا خود بخود ہوتا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کہ بڑے زمینداروں سے اراضی لے کر غریب کاشتکاروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ صرف غریبوں پر نہیں بلکہ امیروں پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ غلامی کو ختم کرتے ہیں۔ اور بعد میں یہی شہرت ان کو اقتدار دلانے میں کامیاب ہوئی۔ اس سفر میں ایک بار پھر ماؤ زے تنگ کی قائدانہ صلاحیتیں اس طرح کھل کر سامنے آئیں کہ عملی طور پر ان کی قیادت کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں رہا۔ یہ تھا اصل لانگ مارچ۔ اب آپ اس کا موازنہ ہمارے مختلف لانگ مارچوں سے کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments