پرتھ کا مشہور واکا گراؤنڈ جو پاکستان کرکٹ ٹیم کو کبھی راس نہیں آیا
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سلسلے میں پرتھ آنے کے بعد روزانہ نئے پرتھ سٹیڈیم جاتے ہوئے ُپرانے واکا گراؤنڈ کے سامنے سے گزرتے ہوئے یہی ایک بات ذہن میں آتی ہے کہ یہ وہی مشہورگراؤنڈ ہے جس نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ہمیشہ دکھ دیے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ گراؤنڈ کبھی پاکستانی ٹیم کو راس نہیں آیا۔
یہاں پاکستانی ٹیم تنازعات میں بھی الجھی رہی اور رہی کارکردگی تو واکا ( ویسٹرن آسٹریلین کرکٹ ایسوسی ایشن ) گراؤنڈ کی پچ پر پاکستانی بیٹسمین ہمیشہ تگ ودو کرتے ہی نظرآئے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا بھر میں تیز ترین پچ سمجھی جاتی تھی، جس پر بلے بازوں کے لیے جیسے بارودی سرنگیں بچھی ہوں۔
ٹیسٹ میں سب سے کم سکور کتنا ہے؟
دسمبر 1981 میں پاکستانی ٹیم عمران خان کی چار وکٹوں کی عمدہ کارکردگی کی وجہ سے آسٹریلیا کو پہلی اننگز میں صرف 180 رنز پر آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو گئی لیکن جب پاکستانی ٹیم کی بیٹنگ آئی تو ڈریسنگ روم میں حواس باختگی کا عالم تھا کیونکہ جو بیٹسمین کھیلنے جا رہا تھا وہ فوراً ہی واپس آرہا تھا۔
دونوں اوپنرز رضوان الزماں اور مدثر نذر سکور بورڈ کو کوئی زحمت دیے بغیر صفر پر پویلین لوٹ چکے تھے اور اس کے بعد وکٹیں خزاں کے پتوں کی طرح گرنے لگی تھیں حالانکہ اس بیٹنگ لائن میں ماجد خان، کپتان جاوید میانداد، وسیم راجہ اور منصور اختر جیسے مستند بیٹسمین شامل تھے۔
ڈینس للی اور انٹرنیشنل کرکٹ میں اسی سال آنے والے سوئنگ بولر ٹیری آلڈرمین کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔دونوں کا یہ ہوم گراؤنڈ تھا۔ یہ دونوں مل بانٹ کر پاکستان کی آدھی ٹیم کا صفایا کر چکے تھے۔
سب سے دلچسپ واقعہ سرفراز نواز کے ساتھ پیش آیا۔ جب وہ بیٹنگ کر رہے تھے تو انھوں نے پاکستانی ٹیم کی انتہائی بری حالت دیکھ کر امپائر سے پوچھا کہ ٹیسٹ کرکٹ کا سب سے کم سکور کتنا ہے؟
انھیں بتایا گیا کہ 26 رنز جو نیوزی لینڈ نے بنائے تھے اس مرحلے پر پاکستان کا سکور 26 ہی تھا اور اس کی 8 وکٹیں گرچکی تھیں چنانچہ سرفراز نواز نے فوراً چوکا لگا کر پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ کے سب سے کم سکور پر آؤٹ ہونے کے خطرے سے بچا لیا۔
سرفراز نواز چار چوکوں کی مدد سے 26 رن بنا کر آؤٹ ہونے والے آخری بیٹسمین تھے۔ ان کے علاوہ کوئی بھی بلے باز ڈبل فگر میں نہیں آ سکا تھا۔
پاکستانی ٹیم اس اننگز میں صرف 62 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی تھی جو اس وقت ٹیسٹ کرکٹ میں اس کا سب سے کم سکور تھا۔
دوسری اننگز میں اس نے قدرے بہتر بیٹنگ کرتے ہوئے 256 رنز بنائے تھے لیکن 286 رنز کی شکست اس کے مقدر میں لکھی تھی۔
للی کی لات اور میانداد کا بلا لہرانا
اسی پرتھ ٹیسٹ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جسے وزڈن المینک نے کرکٹ کی تاریخ کے چند ناخوشگوار اور کرکٹ کی روح کو متاثر کرنے والے واقعات میں سے ایک قرار دیا۔
اس ناخوشگوار واقعے کے دو مرکزی کردارپاکستانی ٹیم کے کپتان جاوید میانداد اور آسٹریلوی فاسٹ بولر ڈینس للی تھے۔
پہلی اننگز میں صرف 62 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد پاکستان کی دوسری اننگز میں جاوید میانداد اور منصور اختر بیٹنگ کررہے تھے کہ اس موقع پر ڈینس للی کی ایک گیند کو میانداد نے سکوائر لیگ کی طرف کھیلا اور رن کے لیے دوڑ پڑے لیکن ڈینس للی ان کی راہ میں آ گئے اور میانداد ان سے ٹکرائے۔
اس واقعے کی ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈینس للی نے میانداد کا راستہ روکا لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا اس پر سب حیران تھے۔
للی میانداد کی طرف بڑھے اور انھیں لات مار دی لیکن میانداد کہاں چپ رہنے والے تھے۔ انھوں نے للی کو ڈرانے کے لیے بلا لہرایا اور ان کی طرف لپکے جس پر امپائر ٹونی کرافٹر کو مداخلت کرنی پڑی۔
اگرچہ کپتان گریگ چیپل بھی بیچ بچاؤ کرانے آ گئے اور للی کو دور لے جانے لگے لیکن للی اپنے سخت مزاج کی وجہ سے دوبارہ میانداد کی طرف بڑھے۔ اس موقع پر ٹونی کرافٹر اور گریگ چیپل انھیں روکنے میں کامیاب ہوگئے۔
جاوید میانداد اور ڈینس للی دونوں نے اپنی سوانح حیات میں اس واقعے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرایا۔
آسٹریلیا کے سابق کپتان کیتھ ملر کا کہنا تھا کہ ڈینس للی کو پورے سیزن کے لیے معطل کر دینا چاہیے تھا۔ ایک اور سابق کپتان ای این چیپل نے للی کی حرکت کو ایک بگڑے ہوئے ناراض بچے سے تشبیہ دی۔
ان تمام باتوں کے باوجود آسٹریلوی ٹیم کے مینیجر نے سارا ملبہ میانداد پر ڈالتے ہوئے ڈینس للی پر صرف 200 آسٹریلوی ڈالرز کا جرمانہ عائد کیا۔
اس واقعے کے اگلے روز ڈینس للی نے پاکستانی ڈریسنگ روم میں جا کر معذرت بھی کی لیکن کپتان میانداد اور مینیجر اعجاز بٹ نے اسے قبول نہیں کیا۔
تنازعات سے بھرا ٹیسٹ
1978 میں پاکستانی ٹیم سرفراز نواز کی 9 وکٹوں کی شاندار بولنگ سے میلبرن ٹیسٹ جیت کر پرتھ پہنچی تو کسی نے بھی یہ نہ سوچا تھا کہ یہ ٹیسٹ تنازعات سے بھرا ہوا میچ ثابت ہو گا لیکن اس کی بنیاد میلبرن ٹیسٹ میں رکھی جا چکی تھی۔
اس میچ میں آسٹریلوی فاسٹ بولر راڈنی ہاگ کا جاوید میانداد کے ہاتھوں رن آؤٹ ہونا موضوع بحث بن گیا تھا۔
پرتھ کے دوسرے ٹیسٹ میں آسٹریلوی اوپنر اینڈریو ہلڈچ اور سکندر بخت شہ سرخیوں میں آ گئے۔
پاکستان کی دوسری اننگز میں سکندر بخت کو آسٹریلوی فاسٹ بولر ایلن ہرسٹ نے بولنگ کرتے ہوئے اس وقت رن آؤٹ کر دیا جب وہ اپنی کریز سے باہر تھے لیکن ایلن ہرسٹ نے انھیں پہلے سے کوئی وارننگ نہیں دی۔
اس طرح آؤٹ ہونا کرکٹ میں ’منکڈ‘ کے نام سے مشہورہے۔
جس وقت یہ واقعہ ہوا اس وقت اینڈریو ہلڈچ کم ہیوز کی غیرموجودگی میں قائم مقام کپتانی کر رہے تھے لیکن انھوں نے سکندر بخت کو آؤٹ دیے جانے کی اپیل واپس لینے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
پاکستانی ٹیم ایلن ہرسٹ کی اس حرکت پر سخت غصے میں تھی اور اسے اسی دن بدلہ لینے کا موقع مل گیا لیکن اس نے اس کے لیے جو راستہ اختیار کیا وہ بھی درست نہیں تھا۔
آسٹریلوی ٹیم کی دوسری اننگز میں رک ڈارلنگ نے سرفراز نواز کی گیند کو مڈ آف کی طرف کھیلا جہاں سکندر بخت نے فیلڈنگ کر کے بولر کی طرف گیند پھینکی۔
نان سٹرائیکر اینڈ پر کھڑے اینڈریو ہلڈچ نے گیند زمین سے اٹھا کر سرفراز نواز کو دی لیکن اس وقت سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب سرفراز نواز نے امپائر سے ہینڈل دی بال کے طریقے سے ہلڈچ کو آؤٹ دینے کی اپیل کر ڈالی۔
امپائر ٹونی کرافٹر کے پاس آؤٹ دینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ تھا لیکن اس انداز کو کسی نے بھی پسند نہیں کیا۔
گلین مک گرا کی 8 وکٹیں
دسمبر 2004 میں پاکستانی ٹیم کو انضمام الحق کی قیادت میں پرتھ ٹیسٹ میں 491 رنز کی بھاری شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
پاکستانی ٹیم کے لیے دوسری اننگز کسی بھیانک خواب سے کم نہ تھی۔ اسے 564 رنز کا پہاڑ جیسا سکور کر کے میچ جیتنے کا ہدف ملاا تھا لیکن پوری ٹیم صرف 72 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔
پاکستانی ٹیم کو اس حال تک پہنچانے والے فاسٹ بولر گلین مک گرا تھے جنھوں نے صرف 24 رن دے کر 8 وکٹیں حاصل کرڈالیں جو ان کے ٹیسٹ کریئر کی بہترین بولنگ بھی تھی۔
مک گرا کی اس زبردست بولنگ کی زد میں آنے والے سات بیٹسمین دس رنز تک بھی نہ آسکے جن میں کپتان انضمام الحق کی کارکردگی اس لیے سب سے زیادہ مایوس کن رہی کہ وہ پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہوئے۔
پاکستانی اننگز میں صرف محمد یوسف واحد بیٹسمین تھے جو ڈبل فگر میں آتے ہوئے 27 رن بنانے میں کامیاب ہو سکے تھے۔
محمد سمیع اور محمد خلیل دو ایسے بیٹسمین تھے جو گلین مک گرا سے اپنی وکٹیں بچانے میں کامیاب رہے ان دونوں کو مائیکل کاسپورووچ نے آؤٹ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
کرکٹ بیٹ سے متعلق دلچسپ تنازعات: جب ایک بیٹسمین کی وجہ سے کرکٹ بیٹ کے قوانین بدلنے پڑے
آسٹریلیا اور پاکستان کی ٹیموں کے درمیان ہونے والے میچوں کی تلخ یادیں اور تنازعات
پرتھ میں پاکستان ٹیم کی پریکٹس: شہر میں گاؤں جیسا سکون اور شاہین آفریدی کے بولنگ ردھم کی واپسی
شاہد آفریدی کا گیند چبانا
2010 میں پاکستانی ٹیم آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے انٹرنیشنل میں مدمقابل تھی۔ شاہد آفریدی، محمد یوسف کی غیرموجودگی میں ٹیم کی قیادت کررہے تھے۔ رانا نوید الحسن بولنگ کررہے تھے کہ ٹی وی سکرین پر جو منظر دیکھا گیا اس نے سب کو چونکا دیا ۔
سب نے دیکھا کہ شاہد آفریدی نے دو مرتبہ گیند کو چبایا اور بولر کو واپس کردی جس پر امپائرز نے نہ صرف گیند تبدیل کردی بلکہ اس واقعے کو میچ ریفری کے سامنے رپورٹ بھی کردیا۔
میچ کے بعد شاہد آفریدی کو آئی سی سی میچ ریفری رنجن مدوگالے کے سامنے پیش ہونا پڑا جنھوں نے بال ٹمپرنگ کی پاداش میں ان پر دو ٹی ٹوئنٹی میچوں کی پابندی عائد کردی۔
شاہد آفریدی نے ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ انھوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ غلط تھا وہ میچ جیتنے کے لیے اپنے بولرز کی مدد کررہے تھے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی بھی ٹیم ایسی نہیں، جو بال ٹمپرنگ نہ کرتی ہو۔
کارل ریکمین کی گیارہ وکٹیں
عام طور پر ایشیائی ٹیمیں آسٹریلیا پہنچتیں تو پہلا ٹیسٹ انھیں پرتھ میں کھیلنے کو ملتا تھا جہاں کی تیز ترین وکٹ ان کے استقبال کے لیے موجود ہوتی تھی۔
1983 میں پاکستانی ٹیم عمران خان کی قیادت میں آسٹریلیا پہنچی تو وہ خود ان فٹ ہونے کے سبب پانچ میں سے تین ٹیسٹ میچوں میں کھیلنے کے قابل نہ تھے لہذا ظہیرعباس کو کپتانی کرنی پڑی۔
پرتھ میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں 436 رنز بنانے کے بعد پاکستانی ٹیم کو دو بار آؤٹ کرکے ٹیسٹ میچ اننگز اور9 رنز سے جیت لیا۔
پاکستانی بیٹسمینوں کو اس مرتبہ ڈینس للی اور راڈنی ہاگ کے بجائے ایک نئے بولر کارل ریکمین کی شکل میں طوفان جھیلنا پڑا جنھوں نے اسی سال کے اوائل میں اپنے بین الاقوامی کریئر کا آغاز کیا تھا۔
کارل ریکمین نے پہلی اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کرکے پاکستانی ٹیم کو صرف 129 رنز پر آؤٹ کردیا۔ پاکستان نے فالوآن کے بعد دوسری اننگز شروع کی تو کارل ریکمین پاکستانی بیٹسمینوں کو ایک بار پھر گہرے زخم دینے کے لیے تیار تھے۔
انھوں نے چھ وکٹیں حاصل کرڈالیں اور پاکستانی ٹیم دوسری اننگز میں 298 رنز سے آگے نہ بڑھ سکی۔
پرتھ کے واکا گراؤنڈ پر اب انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہوتی اور اب تمام میچ نئے سٹیڈیم میں کھیلے جاتے ہیں لیکن پاکستانی ٹیم کے لیے اس نئے سٹیڈیم میں بھی قسمت نہیں بدل سکی۔
پہلے 2019 میں آسٹریلیا نے اسے دس وکٹوں کی شکست سے دوچار کیا اور اب زمبابوے نے اسے ایک ایسی شکست سے دوچار کیا ہے جسے وہ کبھی نہیں بھول پائے گی۔
- صدام حسین کے ’سکڈ میزائلوں‘ سے ایرانی ڈرونز تک: اسرائیل پر عراق اور ایران کے براہ راست حملے ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں؟ - 17/04/2024
- پنجاب میں 16 روپے کی روٹی: نئے نرخ کس بنیاد پر مقرر ہوئے اور اس فیصلے پر عملدرآمد کروانا کتنا مشکل ہو گا؟ - 17/04/2024
- اسرائیل پر حملے سے ایران کو فائدہ ہوا یا نتن یاہو کو؟ - 17/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).