رشی سونک۔ برطانیہ کا وزیر اعظم


ابھی بمشکل 45 دن ہی پورے ہوئے تھے کہ صبح سویرے چونکا دینے والے خبر پڑھنے کو ملی اور مختلف چینلز پر سنائی دی کہ لزٹرس برطانیہ کی وزیراعظم مستعفی ہو گئی ہیں۔ بقول ان کے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتی اور نہ ہی ان سے کیے گئے وعدے پورے کرسکیں گی۔ برطانوی تاریخ میں یہ ان کا مختصر ترین اقتدار ہے جو برطانوی تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ اس خبر پر نہ شور ہوا نہ معمول کی زندگی متاثر ہوئی، سوائے حیرانی کے۔

پھر کچھ ہی دن بعد اور اس سے بھی کہیں بڑی چونکا دینے والی خبر جمہوریت کے دعویدار ممالک کے لئے تھی کہ ہندو کمیونٹی جو برطانوی آبادی کا 1.5 ہے۔ اس کمیونٹی کا سپوت رشی سونک برطانیہ کا وزیراعظم بن گیا۔ رشی سونک کے دادا اور نانا ہندوستان اور پاکستان کی علیحدگی سے پہلے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اور 1930 کی دہائی میں مشرقی افریقہ میں برطانوی کالونیوں میں منتقل ہو گئے تھے۔ 60 کی دہائی میں مشرقی افریقہ سے ہجرت کر کے برطانیہ میں آباد ہو گئے۔

سب سے کم عمر 42 سالہ رشی سونک برطانیہ کے پہلے وزیر اعظم ہیں۔ جن کا تعلق ایک مینارٹی ہندو کمیونٹی سے ہے۔ اس سے پہلے برطانیہ کی ایک اور مثال لندن کے میئر صادق خان کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ جن کا یہ دوسرا ٹنیور چل رہا ہے۔ ہندو وزیراعظم کے انتخاب پر سوشل میڈیا میں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ غصہ کا اظہار بھی ہوا۔ انڈیا کی مثالیں بھی دی گئیں کہ ہندوستان میں نریندر مودی سے پہلے مینارٹیز سے تعلق رکھنے والے کئی مسلم صدر اور ایک سکھ وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔

برطانیہ کا ہندو وزیراعظم منتخب ہونے پر انڈیا میں جشن منایا گیا۔ ظاہر ہے رشی سونک کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے۔ ان کا جشن بنتا بھی ہے۔ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے مبارک باد دیتے ہوئے کہا، کہ آپ کے برطانیہ کے وزیر اعظم بننے کے بعد میں عالمی مسائل پر مل جل کر کام کرنے اور روڈ میپ 2030 کو لاگو کرنے کا منتظر ہوں۔ ایسی مثالیں ہندوستان میں تو ملتی ہیں مگر پاکستان میں بالکل نہیں۔ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کے آئین میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ ملک کا سربراہ کوئی غیر مسلم نہیں بن سکتا۔ اس جدید اور جمہوریت کے دور میں یہ شق بڑی عجیب لگتی ہے۔ اس امتیازی سلوک پر اقلیتیں مایوسی کا اظہار بھی کرتی رہتی ہیں۔ اور آئین میں اس امتیاز سے اقلیتیں زندگی کے ہر میدان میں امتیاز کا شکار ہیں ان کے نمائندے ووٹ کے ذریعے اسمبلیوں میں جانے کی بجائے سلیکشن سے اسمبلیوں کا حصہ بنتے ہیں۔

رشی سونک کے وزیراعظم بننے پر ایک صاحب نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ایسا پاکستان میں بھی ہو سکتا ہے کہ مینارٹیز سے تعلق رکھنے والا فرد صدر یا وزیر اعظم یا اسلام آباد کا میئر بن سکتا ہے اگر اقلیتیں جداگانہ الیکشن کا مطالبہ نہ کریں۔ پہلی بات یہ کہ ووٹ کا حق مانگنا اقلیتوں کا جمہوری حق ہے۔ دوسرا، الیکشن سسٹم میں ابہام دور کرنے اور بہتر کرنے لئے پہلے عوام میں مذہبی، رنگ و نسلی یا اقلیتی تعصب دور کرنے کی ضرورت ہے۔

غرض کہ اگر برطانیہ کی طرح پاکستانی عوام سیاسی پارٹی امیدوار کو بلا رنگ و نسل و مذہب ووٹ دیں اور پارٹی بھی اپنے امیدوار کی جیت کو ہر سوچ سے بالاتر ہو کر کامیابی کے لئے کوشاں ہوں تو اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی ووٹ سے ممکن ہے۔ مگر جہاں پارٹیاں خود مذہبی کارڈ استعمال کر رہی ہوں وہاں ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ مسلم کسی غیر مسلم کو ووٹ دے کر منتخب کریں۔ اور رہی بات اسلام آباد کا میئر، صدر یا وزیراعظم کی تو جب آپ کا آئین غیر مسلم کو اس کی اجازت ہی نہیں دیتا تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

برطانیہ کے نئے وزیراعظم رشی سونک جن کا تعلق ہندو کمیونٹی سے ہے، کا منتخب ہونا یقیناً ایشین کمیونٹی کے لئے ایک چونکا دینے والی خبر تھی کیونکہ برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں پچھلے چھ سالوں میں یہ پانچویں وزیر اعظم ہیں۔ ڈیوڈ کیمرون کے مستعفی ہونے کے بعد ٹریضہ مے، بورس جانسن، لزٹرس جو بمشکل سات ہفتے بھی مکمل نہیں کرسکیں یہ سمجھتے ہوئے، کہ ان کا معیشت کو مستحکم کرنا ممکن نہیں، وزرات عظمیٰ سے ہاتھ کھڑے کرلئے۔

قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ بورس جانسن دوبارہ منتخب ہو جائیں گے۔ مگر کنزرویٹو پارٹی نے رشی سونک کو % 100 ممبران کی رضامندی کے ووٹ سے وزرات عظمیٰ کے لئے منتخب کیا۔ جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں کہ برطانیہ میں پچھلے چھ سالوں میں پانچ نئے وزیر اعظم آئے لیکن اس تبدیلی سے اگرچہ معیشت تو مستحکم نہیں ہو سکی۔ مگر اپوزیشن یا عوام نے کوئی ہنگامہ آرائی نہیں کی۔ جبکہ پاکستان میں برسراقتدار حکومت اور اپوزیشن کی باہم چپقلش نے ملکی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ احتجاج اور لانگ مارچ بے حد خطرناک راستہ ہے۔ ہمارے رہنماؤں کو دوسرے ممالک سے سبق سیکھنا چاہیے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں ورنہ آپ کا تو جو ہو گا ہو ہو گا، ملک تباہی کے گہرے کھڈے میں گر جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments